زرداری اور مولانا میں دوری

تحریر: انور ساجدی
گڑھی خدابخش کا جلسہ خالصتاً پیپلزپارٹی کا شوتھا لیکن بی این پی اور پشتونخوا میپ کے جھنڈے بھی نظرآرہے تھے جبکہ جے یو آئی نے علامتی شرکت کے سوا جلسہ کا مکمل بائیکاٹ کررکھا تھا پارٹی کے نوجون رہنما راشد محمود سومرو نے باقاعدہ ہدایات دی تھیں کہ پارٹی کے کارکن جلسہ میں شرکت نہ کریں لاڑکانہ میں دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان کافی کشیدگی رہی ایک دوسرے کے پوسٹرپھاڑدیئے گئے اور پرچم اتارے گئے کشیدگی اختلافات کی وجہ سے مولانا نے جلسہ میں شرکت نہیں کی زرداری کے سوا باقی تقاریر گزشتہ باتوں کاتسلسل تھیں تاہم اخترمینگل نے بہت سخت باتیں کیں اور ڈاکٹرمالک نے سی پیک اور گوادر کی باڑ کامسئلہ اٹھایا۔
بلاول نے حیرت انگیز طور پر پی ڈی ایم کی طے کردہ ڈیڈ لائن 31جنوری تک بڑھادی معلوم نہیں کہ انہوں نے کسی متفقہ فیصلے کے تحت ایسا کیا یاانہیں والد محترم کی یہی ہدایت تھی بلاول کا خطاب حسب توقع جذباتی اورتقریباً سیاسی آداب سے عاری تھا جبکہ مریم نواز نے دراصل بلاول سے بھی سخت باتیں کیں لیکن الفاظ کا چناؤ شائستہ تھا ”سیاسی گرو“ کی اہم تقریر سے لگتا ہے کہ انہوں نے بلاول کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا کیونکہ انکی لائن آف ایکشن پی ڈی ایم سے مختلف دکھائی دی انہوں نے اگرچہ جیل بھرو تحریک کی بات کی لیکن لانگ مارچ اور دھرنے کی بات نہیں بلکہ یہ کہا کہ اگر انکے طریقہ کار پر چلاجائے تو عمران خان کو ہٹانا آسان ہوگا انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ مجھ سے سیکھو کچھ مجھ سے سمجھو یہ اندرونی اختلاف کاواضح اظہار تھا کیونکہ مولانا اور پی ڈی ایم کے دیگر اکابرین لانگ مارچ دھرنوں اور استعفوں کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں جبکہ زرداری کا خیال ہے کہ میدان کو خالی چھوڑنا غلطی ہوگی اس سے ضمنی انتخابات اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کو واک اور مل جائے گا جس کے نتیجے میں کنٹرول ٹاور بھی ان کی حمایت جاری رکھنے پر مجبور ہوجائے گا زرداری اور بلاول کے تضادات سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ بلاول وعدے توڑنے کے حق میں نہیں جبکہ انکے والد محترم کا شہرہ آفاق مقولہ ہے کہ معاہدے آسمانی صحیفے نہیں ہوتے۔
پی ڈی ایم کے تضادات کے باوجود بیک ڈور چینل سے مذاکرات جاری ہیں اس کا نتیجہ ہے کہ حکومت نے ن لیگ کے نائب صدر سابق وزیراعظم اور پی ڈی ایم کے سیکریٹری جنرل شاہد خاقان عباسی کو امریکہ جانے کی اجازت دی یہ اجازت نامہ عمران خان کی مرضی کے خلاف جاری کیا گیا اور عارضی طور پر ان کانام ای سی ایل سے نکالا گیا اسی طرح کوٹ لکھپت جیل میں شہبازشریف کو اکثر وبیشتر نیند سے جگا کر بات چیت کی جاتی ہے جبکہ بڑے میاں صاحب سے لندن میں کئی خفیہ چہرے ملاقات کرچکے ہیں بظاہر یہ ڈبل گیم ہے یعنی ایک طرف حکومت سے کہا جارہا ہے کہ آپ فکر نہ کریں ہم پی ڈی ایم کے حصے بخرے کردیں گے دوسری جانب پی ڈی ایم کے رہنماؤں سے انفرادی ملاقاتیں کرکے کہاجارہا ہے ہم آپ کونظرانداز نہیں کریں گے آئندہ سال تبدیلی کا سال ہوگا کیونکہ آپ درست کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت ناکام ہوگئی ہے اس سے قطع نظر پی ڈی ایم کواپنے اختلافات طے کرنے ہونگے اور ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا اصولاً تو یہ پہلے طے ہوجانا چاہئے تھا کیونکہ جب کسی موومنٹ کا متفقہ ایجنڈا نہ ہوتو وہ کیسے آگے بڑھ سکتی ہے مولانا کو چاہئے کہ وہ لاہور میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد آصف علی زردای سے ون آن ون ملاقات کریں اور ان سے پوچھیں کہ وہ استعفوں اور لانگ مارچ کے کیوں خلاف ہیں جبکہ بلاول ان پر اتفاق کرچکے ہیں حالیہ چند دنوں میں مولانااورزرداری کے تعلقات میں کافی بگاڑ آچکی ہے مولانا کوشبہ ہے کہ زرداری نے پس پردہ ڈیل کرلی ہے یا اس کی کوشش کررہے ہیں اس سلسلے میں پی ڈی ایم کی صفوں میں کافی غم وغصہ پایاجاتا ہے مولانا پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ زرداری سے دوٹوک بات کریں ورنہ تحریک انکے بغیر چلائی جائے جہاں تک زرداری سے خفیہ روابط کاتعلق ہے تو وہ کوئی نئی بات نہیں وہ کبھی ملاقاتوں ٹیلی فون کالز سننے اور خفیہ رابطوں تک سے انکار نہیں کرتے غالباً انکے کہنے پر سائیں خورشید شاہ پر سابقہ سختیاں ختم کردی گئی ہیں اور انہیں جیل اور اسپتال میں کافی سہولتیں دی جارہی ہیں خورشید شاہ بھی استعفوں کیخلاف بیان دے چکے ہیں زرداری کو خدشہ ہے کہ اگر سندھ حکومت مستعفی ہوئی تو پیپلزپارٹی کے برے دن شروع ہوجائیں گے سندھ کے اندر پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی جبکہ آئندہ انتخابات تک وہ اپنی موجودہ حیثیت بھی کھوبیٹھے گی ویسے تو زرداری کا یہ خیال درست ہے کیونکہ ان کی پارٹی کوئی بھٹو اور بینظیر والی پیپلزپارٹی تو نہیں ہے یہ تو ”ہائی برڈ“ جماعت ہے جو والد اور صاحبزادہ پرمشتمل ہے اس کی کوئی نظریاتی اساس بھی نہیں ہے اس کا گزارہ بھٹو خاندان کی قربانیوں پر چل رہا ہے زرداری کی پالیسیوں نے جیالا کلچر تقریباً ختم کردیا ہے سندھ میں اس کا انحصار اراکین اسمبلی وڈیروں اور پیروں پر ہے محترمہ بینظیر تو ہر جگہ جاکر کارکنوں سے پوچھتی تھی کہ کس امیدوار کو ٹکٹ دیاجائے لیکن زرداری ایسا نہیں کرتے پارٹی تنظیمی طور پر بھی بہت کمزور ہے خاص طور پر پنجاب میں اس کی حالت اچھی نہیں ہے کیونکہ وہاں پر پارٹی نے ن لیگ کی حمایت کرکے جو خلا چھوڑا تھا وہ تحریک انصاف نے پر کردیا اورجب تک یہ خلا دوبارہ پیدا نہیں ہوگا پیپلزپارٹی سابقہ حیثیت واگزار نہیں کرواسکتی ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تحریک انصاف بھی کوئی پارٹی نہیں ہے بلکہ یہ گملوں میں اگے پودوں کی مانند ہے جن کی زندگی تھوڑی ہوتی ہے۔عرصہ ہوا سیاسی جماعتوں نے کارکنوں پرتوجہ دینا چھوڑ دیا ہے بلکہ وہ ہمیشہ غیبی امداد کی منتظر رہتی ہیں ن لیگ کو لیجئے اس نے کبھی حقیقی معنوں میں انتخابی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ اسے1997ء اور2013ء میں غیرمعمولی فیور دے کر جتوایا گیا اس جماعت کے متوالے عوامی سیاست اور ایجی ٹیشن کاتجربہ بھی نہیں رکھتے جبکہ اس کا ووٹ بینک تاجروں،صنعتکاروں اور دکانداروں پرمشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ جی ٹی روڈ پرمیاں نوازشریف کی تحریک ہو یا حالیہ جلسے ہوں پارٹی کے حامی بھرپور طریقہ سے باہر نہیں نکلے البتہ مریم نواز میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ن لیگ کو عوامی پذیرائی سے ہمکنار کرے اگرچہ مریم کے پاس بھی اپنے والد کے کارناموں کے سوا کوئی نظریہ نہیں ہے حالانکہ انکے مینٹورپرویز رشید ہیں جنہوں نے طالب علمی کے ایام میں پیپلزپارٹی میں رہ کر اہم کردارادا کیا جبکہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کیخلاف انہوں نے کافی جدوجہد کی لیکن ن لیگ کامخصوص ٹولہ پرویز رشید کا بہت مخالف ہے جو ان کی سخت پالیسی کو نوازشریف کی تباہی سمجھتا ہے پاکستان کے سیاسی کلچر میں کامیابی اسی کو کہتے ہیں جب کوئی جماعت برسراقتدار آجائے چاہے وہ بے ایمانی کا کوئی بھی راستہ اختیار کیوں نہ کرلے۔
بہرحال اس ملک میں نہ تو عوامی نیشنل پارٹی اور اسکی سیاست واپس آسکتی ہے نہ سہروردی کی عوامی لیگ اور نہ بھٹوکی پیپلزپارٹی دوبارہ آسکتی ہیں لہٰذا حاضر اسٹاک میں جو بونے ہیں انہیں سروقد سمجھ کر انہی کے ساتھ گزارہ کرنا پڑے گا کیونکہ جس ریاست کی کوئی سمت نہ ہو ان کی سیاسی جماعتوں اور دیگر اداروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔مسلسل آمریتوں اوران کی پالیسیوں نے ٹریڈ یونین ہاری تنظیموں اور طلبا کی تنظیموں کو ختم کردیا ہے جو کسی زمانے میں سیاست کی سمت کو ٹھیک رکھنے کیلئے پریشر گروپ کا کام کرتے تھے ایسے لگتا ہے کہ ضیاء الحق نے جو غیر جماعتی نظام قائم کیا تھا وہ جاری ہے اگرچہ جماعتیں نظرآرہی ہیں لیکن وہ غیر جماعتی نظام سے متاثر ہیں حتیٰ کہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی تنظیمی طور پر منظم جماعتیں تھیں لیکن ان کے دانت بھی نکال دیئے گئے ایک ”جماعتی کو“ کے ذریعے سید منورحسن جیسے شخص کو جماعت کی امارت سے الگ کردیاگیا جبکہ جے یو آئی کو بھی مزید تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کوئی بعید نہیں مولانا شیرانی اورحافظ حسین احمد حسب ضرورت اپنی جماعت اور مولانا کے وہ سارے راز کھول دیں جو ابتک پوشیدہ تھے غالباً یہ بھی نہیں دیکھیں گے کہ افغان جہاد افغانستان پر امریکی حملہ او دیگر اہم مواقع پر جو کچھ ہوا اس میں محترم حافظ صاحب اور شیرانی صاحب خود بھی شریک تھے ان دونوں شخصیات نے جے یو آئی کو سیاسی یادینی جماعت کی بجائے ایک ”کلٹ“ بنادیا تھا جس کے اندرونی راز ”فری میسن تحریک“ کی طرح خفیہ ہوتے تھے لیکن مولانا فضل الرحمن نے دونوں شخصیات کے قائم کردہ کلٹ پرقبضہ کرلیا اور ان دونوں کو سارے مواقع سے محروم کردیاجب انہیں اپنے سابقہ سنہرے ادوار یاد آتے ہیں تو اسے برداشت نہیں کرپاتے لیکن انہوں ں ے دیر کردی ہے یہ کام بہت پہلے کرتے تو ان کے حق میں اچھا ہوتا پی ڈی ایم کے قیام کے بعد جو بھی کیاجائے اسے حکومتی مہم اور سرپرستی کانتیجہ قراردیاجائیگا۔
موجودہ نازک وقت میں حکومت کی دو اہم اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور باپ نے بھی شکایات کے انبار کھول کر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے۔
حکومت کو اس لئے پرواہ نہیں کہ وہ جانتی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں پرانی تنخواہ پرگزارہ کرلیں گی ان کا انحصار عالم بالا کے اشاروں پر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں