اینٹ کا جواب پتھر سے
وزیراعظم عمران خان نے ایک وقت میں مختلف موڈ کی حامل دو باتیں کی ہیں۔ایک موڈ جاحانہ دکھا ئی دیتا ہے،اس میں انہوں اپنے وزیروں، مشیروں اور معاونین کو ہدایت کی ہے کہ اپوزیشن کو اینٹ کا جواب پتھرسے دیں۔یہ لہجہ غالباً اپوزیشن کی مسلسل لفظی گولہ باری کا رد عمل ہے جو روزاول سے اپوزیشن اپنائے ہوئے ہے۔شاید پارلیمنٹ میں اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں رہی کہ قائد ایوان کو منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں خوشگوار انداز میں مبارک باد دینے کی بجائے سلیکٹڈ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہو۔اس کے جواب میں اپوزیشن کو جو کچھ سننا پڑا اس پر عوام کوکوئی حیرانگی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اسمبلی کا معزز فلور میدان جنگ بنا رہا، میڈیا کے ذریعے یہ مناظر عوام نے بھی دیکھے۔جو کچھ دیکھا گیا اس کی تعریف دونوں فریق نہیں کر سکتے۔گالم گلوچ میں 2سال4مہینے گزر گئے۔16اکتوبر 2020سے یہ لڑائی ایوان سے نکل کر گلیوں کوچوں تک پھیل گئی،ابھی تک جاری ہے۔جلسوں کے دوران اعلان کیاجاتا رہا، پارلیمنٹ سے استعفے دیئے جائیں گے۔آخری جلسہ مینار پاکستان لاہورپر 13دسمبرکو منعقد ہوا۔اپوزیشن عوام کو یقین دلاتی رہی کہ لاہور کا جلسہ منعقد ہونے سے پہلے ہی ”آر۔یا۔ پار“ ہو جائے گا۔حکومت رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوکر گھر چلی جائے گی۔اس کے بعد کھیل پر اپوزیشن کی گرفت کچھ کمزور ہونے لگی۔ استعفوں کے مسئلے پر ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ نون اور پی پی پی)کے درمیان اختلاف سامنے آیا۔27دسمبر کو لاڑکانہ میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر پی پی پی کے رہبر آصف علی زرداری نے دو ٹوک الفاظ میں پی ایم ڈی کی دیگر جماعتوں کو بتا دیا کہ حکومتیں گرانے اور جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے کاکام ہم پہلے کر چکے ہیں، ہمیں سکھانے کی بجائے ہم سے سیکھا جائے۔اس کے بعد اگرکوئی اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ پی ڈی ایم اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ قائم ہے تو اس کا زمینی حقائق سے تعلق نہیں۔اصولاً کھلے دل سے تسلیم کر لیناچاہیئے کہ تصادم والی حکمت عملی درست نہیں تھی۔اس کا انجام نوشتہئ دیوار تھا۔سیاست کا ہر طالبعلم دیکھ رہا تھا کہ پی ڈی ایم کی قیادت بند گلی میں داخل ہو گئی ہے۔پی پی پی کے پاس سندھ حکومت ہے، سینیٹ میں 6،7سیٹیں لے سکتی ہے۔ اسی طرح نون لیگ بھی پنجاب اسمبلی میں اپنی بڑی تعداد کے بل پر خاطر خواہ سیٹیں لینے کی پوزیشن میں ہے۔ استعفے دے کر یہ چانس ضائع کرنا سیاسی غلطی کے سوا کچھ نہیں۔ادھر نون لیگ کی جانب سے اپنے دوا اراکین قومی اسمبلی کے استعفے اسپیکر کے دفتر بھجوا کر حکومت کے ردعمل کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ہر چند کہ نون لیگ کی سینئر نائب صدر اورسابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز نے لاڑکانہ کے جلسے میں اس اقدام کو کسی کی”شرارت“ کہا ہے مگر مبصرین سمجھتے ہیں کہ یہ شرارت نہیں بلکہ سوچا سمجھا قدم ہے جوحکومتی موڈ دیکھنے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔اگردونوں اراکین اسپیکر آفس پہنچ کر اپنے استعفے واپس لینے کی درخواست نہیں کرتے تو الیکشن کمیشن ضمنی انتخابات کرانے کے عمل کو آگے بڑھائے گا۔نون لیگ نے استعفے دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس تک مؤخر کر دیا ہے۔لیکن سب جانتے ہیں کہ پی پی پی کے صاف اور دوٹوک اعلان کے بعد اتفاق رائے کی واحد صورت پی پی پی کے فیصلے کی تائید ہے۔سربراہی اجلاس بھی دور نہیں،یکم جنوری کو متوقع ہے، جو ہونا ہے سامنے آ جائے گا۔ویسے بھی لاڑکانہ جلسے میں مستقبل کے نقوش کافی حد تک نکھر گئے ہیں۔ پی ڈی ایم پرانے مؤقف سے جڑے رہنے کا اعلان کرے تو اپنا موجودہ ڈھانچا برقرار نہیں رکھ سکے گی اور ترک کرتی ہے تو حکومت کی جانب سے طونے سننے کو ملیں گے کہ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ کبھی بھی استعفے نہیں دیں گے۔
اب وزیر اعظم نے ایک بار پھر مذاکرات کی مشروط پیشکش کی ہے کہ منتخب اور سنجیدہ لوگ آگے آئیں، پارلیمنٹ میں بات کریں گے۔ کرپشن کے علاہ ہر مسئلے پر بات کی جا سکتی ہے۔یہ بھی ناقابل تردید سچ ہے کہ پارلیمنٹ میں گزشتہ ڈھائی سال سے قانون سازی کا کام رکا ہوا ہے۔کئی عوامی مفادات کے حامل معاملات نئے قوانین نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے، ہر شعبے میں عالمی معیار کے نئے قوانین درکار ہیں۔ہاؤسنگ کا شعبہ ملکی معیشت کے کمزور جسم کو توانا بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکا کہ پرانے قوانین اس کی راہ میں حائل تھے۔کون نہیں جانتا کہ 40کے لگ بھگ صنعتیں بشمول سیمنٹ، الیکٹرک، سرامکس،ہارڈ ویئر، وڈ ورکس،اوراسٹیل، ہاؤسنگ انڈسٹری کے ساتھ فعال ہوجاتی ہیں۔ علاوہ ازیں روزگار کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ اپوزیشن صرف ایک نعرہ لگانے میں مصروف رہی کہ وزیر اعظم ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ پورا نہیں کر سکے۔اب اپوزیشن کویہ بھی معلوم ہوگیا ہے صرف استعفوں سے حکومت گھر نہیں بھیجی جا سکتی۔ حکومت کو لانے والوں کی مدد کے بغیر یہ کام ممکن نہیں۔دکھ کی بات ہے کہ جس ادارے سے عدم مداخلت کو یقینی بنانے کے لئے تحریک چلائی جا رہی ہے اسی کے سامنے درخواست پہنچانے کی تگ و دو بھی جاری ہے۔جب تازہ دم پی ڈی ایم حکومت نہیں گرا سکی تو اس تھکے ہارے اتحاد سے کیسے امید وابستہ کی جائے کہ یہ عدم مداخلت کا کوئی وعدہ لینے میں کامیاب ہو جائے گا۔بات آئندہ وقت کے لئے ٹل گئی ہے۔ جو عجلت پسند تھے وہ بھی اپنے دل کو تسلی اور تھکاوٹ دور کرنے کے لئے یہ کہتے ہوئے کہ قدرت کو ابھی منظور نہیں تھا، اپنی آرام گاہوں کو لوٹ جائیں گے۔ بڑے کام کے لئے بڑی منصوبہ بندی، لگن،خلوص اور باہمی اعتماد کا ہونا لازمی شرائط ہیں،ایک عنصر بھی کم ہو تو کامیابی نہیں ملا کرتی۔سیاست دان اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیں۔عوام کے درمیان رہیں، ان کے دکھ درد میں شریک ہوں،اپنے اور عوام کے درمیان محلات کی اونچی دیواریں کھڑی نہ کریں۔