خدا را! عوام سے جھوٹ نہ بولا جائے

یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیئے مگر جس تواتراور تسلسل سے اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے جھوٹ بولا جارہا ہے ضروری ہوگیا ہے کہ فریقین سے کہا جائے:”خدا را! عوام سے جھوٹ نہ بولا جائے“۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں،اول آئینی وجہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 2 میں درج ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہوگا۔اور اسی آئین آرٹیکل62اور63میں میں درج ہے کہ جو شخص صادق اورامین نہیں ہوگا، وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔دوسری وجہ ریاست کا مذہب اسلام ہونا ہے،اسلام (قرآن) میں درج ہے:”لعنت اللہ علی الکاذبین“ ،جس پر اللہ کی لعنت ہو اسے تنہائی میں سوچنا چاہیئے کہ دنیا اور آخرت میں اس کا انجام کیا ہوگا؟اللہ نے حکومتی کاذبین اور اپوزیشن کے کاذبین میں کوئی فرق بیان نہیں کیا، یہ نہیں فرمایا:”اپوزیشن کے جھوٹوں پر اللہ کی کم لعنت ہو، اور حکومتی جھوٹو ں پرزیادہ لعنت ہو“۔ جھوٹا کوئی بھی ہو اس پراللہ کی لعنت مسلسل جاری رہتی ہے۔ اللہ نے یہ بھی نہیں فرمایا ہے کہ جب تک نیب/عدلیہ کی جانب سے کسی شخص کو بددیانت اور خائن ڈیکلیئر وہ جھوٹا نہیں مانا جائے گا۔امریکا میں پاکستان کا آئین نافذ نہیں، نہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن خود کو مسلم کہتے تھے،(نہ ہی اب کہتے ہیں)مگر جیسے ہی امریکی قوم سے جھوٹ بولا صدارت کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ امریکا کو اپنا سیاسی قبلہ ماننے والوں میں کم ازکم اتنی اخلاقی جرأت تو ہونی چاہیئے کہ بل کلنٹن کی طرح سیاست سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک کے11جماعتی حکومت مخالف اتحاد کے سربراہ کے بارے میں ان کی اپنی پارٹی کے دیرینہ رفیق میڈیا پر کہنے لگے ہیں کہ وہ صادق اور امین نہیں اس لئے اس عہدے پر رہنے کے اہل نہیں۔ گویا لوگوں نے مدینے کی روایتی بوڑھی عورت کی طرح پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ۔۔۔”دوسری چادر کہاں سے آئی؟“۔یہ قدرت کا نظام ہے کہ جب کوئی برائی حدسے بڑھ جائے تو اس کے سد باب کے لئے اسباب پیدا کر دیتا ہے۔جیسے آبادی بہت زیادہ ہوجائے توماہرین معیشت کہتے ہیں:طاعون، انفلوئنزا، ملیریا، اور کورونا جیسی وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں،زلزلہ،سیلاب کی شکل میں قدرتی آفات آتی ہیں۔ سائنس دان ان بیماریوں کے مادی اسباب تلاش کرتے ہیں،طاعون، زلزلہ،ٹی بی، چیچک، خسرہ، پولیو، اور خناق سمیت اکثر وبائی امراض کے حفاظتی ٹیکے دریافت کر لئے ہیں، سب جانتے ہیں،پاکستان میں بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد لگائے جاتے ہیں۔کورونا وائرس نئی بیماری لایا ہے اس کا حفاظتی ٹیکہ ایک سال کی تحقیق کے بعد امریکا، برطانیہ اور روس میں لگایا جا رہا ہے۔ کہاجارہا ہے مارچ تک پہلی کھیپ پاکستان پہنچ جائے گی۔اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ اگر کسی بیماری کا علاج نہ کیاجائے تو پھیلتی ہے اور معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔جھوٹ بھی ایک سماجی بیماری ہے،اس کی روک تھام بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ طبی بیماریوں کے بروقت خاتمے کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔لاپروائی برتی جائے توہمہ اقسام جرائم سراٹھانے لگتے ہیں۔بڑے شہروں میں چائنا کٹنگ کہہ کر سرکاری اراضی پرقبضہ کیاجاتا ہے، جنگلات کے درخت محکمہ کی نگرانی میں ٹمبر مافیا تک پہنچائے جاتے ہیں، اسپتالوں سے ادویات چوری ہونے اورمیڈیکل اسٹوروں پربکنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔تھانے مجرموں کی پناہ گاہیں اورمنافع بخش ادارے (پی آئی اے، اسٹیل مل،ریلوے)سرکاری خزانے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ملک قرضوں تلے دب جاتا ہے، پاکستان کے وزیر اعظم کو قرضہ دینے والے ملک اپنا ملازم سمجھنے لگتے ہیں، ملائیشیا جانے سے روک دیتے ہیں، قرضے ادا کرنے کے لئے عوام پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں،اس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی ہے۔عوام کا جینا دوبھرہوجاتاہے۔ملک کاایک وزیر اعظم یہ نہیں بتا سکتا کہ لندن میں خریدے گئے قیمتی فلیٹس کی قیمت کیسے اداکی؟کچھ ایسا ہی مسئلہ آج کل پی ڈی ایم کے سربراہ کو درپیش ہے۔اگر جو جائیدادیں ان کے زیر تصرف ہیں، ان کی ملکیت نہیں تو جو اصل مالکان ہیں وہ اپنی قانونی ذمہ داری پوری کریں اور نیب کو بتا دیں کہ ”جناب یہ ہیں وہ ذرائع جن کی مددسے یہ قیمتی جائیداد خریدی گئی تھی“۔ ایک پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں قانون کا راستہ اپنانا چاہیئے،ان کی جانب سے دیا جانے والا جواب:”اگر نیب نے بلایا تو پوری جماعت میرے ساتھ جائے گی“،مناسب نہیں۔یہ تجربہ مسلم لیگ نون کی سینئرنائب صدر پہلے کر چکی ہیں۔اچھے نتائج نہیں برآمد ہوئے۔اس جملے سے لاقانونیت کی بو آتی ہے۔کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں،کسی دوسرے ملک میں عدالت طلبی پر متعلقہ شخص ایسا جملہ زبان پرلانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔آپ ایک سے زائد مرتبہ یہ دعویٰ کرتے سنے گئے ہیں کہ آپ نے چار دہائیوں تک ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کیا ہے، بہت سے راز آپ کے سینے میں ہیں، یاد رہے کہ یہی ڈائیلاگ سابق وز یراعظم دہرا چکے ہیں، تاحال ان کے کام نہیں آیا۔ماسوائے اس کے کہ وہ کوٹ لکھپت جیل کی بجائے لندن میں اسی متنازعہ فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔لیکن وہاں بھی ایک سال قیام کے بعد بھی ان کی بے چینی /بیماری ر فع نہیں ہوئی، بلکہ جب کبھی تنہائی میں یا اپنے محبان کے ساتھ محاسبہ کیاتو انہیں خود ہی اندازہ ہوگا کہ اس کھیل میں انہوں نے پایا کم اور کھویا زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ تازہ مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکھر پہنچ کر 26دسمبر کومیڈیا روبرو مریم نواز نے کہا تھا کہ نون لیگ کی بھاری اکثریت (overwhelming majority)ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی مخالف ہے۔جبکہ نون لیگ کے رہنما اور ترجمان خرم دستگیر29دسمبر کو ایک نجی ٹی وی چینل پر یہ کہہ رہے تھے کہ نون لیگ کی غالب اکثریت سینیٹ الیکشن کی حامی ہے۔ زمینی حقائق خود کو منوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔کسی فرد کو اس کی بشری کمزوریوں کے باعث کچھ عرصے کے لئے(سابق جسٹس ارشد ملک کی طرح) بلیک میل کیاجا سکتا ہے لیکن ریاست ایک مستقل اور طاقتور ادارہ ہے، 22کروڑ انسانوں کا مسکن ہے، اسے اپنے گنتی کے چند سو یا چند ہزار حامیوں کے نام پر ڈرانا، دھمکانا درست نہیں۔مولانا عدالت میں پیش ہوں،حملہ آور ہونے کی دھمکیاں نہ دیں۔یہ رویہ غیر مستحسن ہے، اس کی تائید باشعور ورکرز کے لئے آسان نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں