ایک ہنگامہ خیز دن

تحریر: انورساجدی
جمعہ کا دن سیاسی حوالے سے انتہائی ہنگامہ خیز رہا سینیٹ کے خصوصی سیشن میں بلوچستان کے تین سینیٹرز نے غیر معمولی باتیں کیں اور ان کا غصہ قابل دیدنی تھا میرکبیر محمد شہی نے کہا کہ اگر ریاست بلوچستان کے لوگوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی تو ایٹم بم مارکر ان کا قصہ ختم کردے وہ ایرانی تیل کی بندش اور گوادر میں باڑ کے تناظر میں اپوزیشن کی طرف سے ریکوزٹ کردہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے انہوں نے یہ بھی کہا کہ تیل کی بندش سے جو 20لاکھ لوگ بے روز گار ہوجائیں گے تو کیا وہ پہاڑوں کا رخ کریں اور بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کا ساتھ دیں۔
سینیٹرعثمان کاکڑ کو اس وقت غصہ آیا جب پی ٹی آئی اے کے رکن محسن عزیز نے محمود خان اچکزئی کو غدار کے لقب سے یاد کیا اس پر عثمان آپے سے باہر ہوگئے انہوں نے کہا کہ آپ اپنے ”لغڑی“ کا ہمارے اکابرین سے موازنہ نہیں کرسکتے خان شہید نے30برس تک جیلوں میں گزارا ہم نے آزادی کی جنگ لڑی آپ لوگ کہاں تھے ہمارے لوگوں نے مختلف ادوار میں جمہوریت کیلئے قربانیاں دیں نیب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ گوانتانابے بن گیا ہے اور ابتک12لوگ نیب کی حراست میں ہلاک ہوگئے ہیں انہوں نے سوال کیا کہ صرف سیاستدانوں کی پگڑیاں کیوں اچھالی جاتی ہیں انہیں کیوں گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ باقی لوگوں کے کرپشن کے بارے میں آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں۔جے یو آئی کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے نیب کا زبردست پوسٹمارٹم کیا اور کہا کہ ہم ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے لیکن نیب کے سامنے پیش نہیں ہونگے۔
جذبات سے بھرپور ان تقاریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ روز بروز سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو اپوزیشن اور سرکاری اراکین نہ صرف گالم گلوچ پراتر آئیں گے بلکہ بات مارکٹائی تک بھی جاسکتی ہے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی اہمیت پہلے ہی کم ہوگئی تھی اس طرح کے آتشین رویوں سے یہ اپنی رہی سہی وقعت بھی کھوبیٹھے ہیں اگر کسی دن مرادسعید یا فیصل جاوید نے ایوان میں اشتعال انگیزی کی تو وہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا برا دن ہوگا۔
1950ء کی دہائی میں جب مغربی پاکستان یا پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین نے بنگال کے جلیل القدر رہنما متحدہ بنگال کے وزیراعظم اور تحریک پاکستان کے سرخیل حسین شہید سہروردی کوشدید تنقید کانشانہ بنایا اور ان کی حب الوطنی پر شک کیا تو انہوں نے کہا کہ میری بات یادرکھیں میں آخری بنگالی ہوں جو آپ کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوں اور بات چیت بھی کررہاہوں میرے بعد کوئی بنگالی نہ آپ کی پارلیمنٹ میں بیٹھے گا اور نہ ہی آپ سے بات کرے گا
حسین شہید سہروردی کی اس بات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنا چاہئے انکی باتوں کا نتیجہ1971ء میں نکلا لیکن ہمارے لوگ اب بھی بات سمجھنے اور جائز بات سننے کے روادار نہیں ہیں جمعہ ہی کے روز وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز اکثریتی صوبہ پنجاب کے نمائندہ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ
پی ڈی ایم میرے اور فوج کیخلاف سازش کررہی ہے اور یہ لوگ نریندر مودی کی زبان بول رہے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کاٹھیکہ آپ کو کس نے دیا ہے جب حکمرانوں کے سامنے اور کوئی راستہ بچا نہ ہوتو وہ یہی آزمودہ نسخہ استعمال کرتے ہیں لیکن یہ فرسودہ نسخہ آئندہ نہیں چلے گا۔
جمعہ ہی کے روز پی ڈی ایم کا جاتی امرا میں سربراہی اجلاس ہوا جس میں بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک پر شرکت کی اجلاس میں استعفوں اورسینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے مسئلہ پر شدید اختلافات سامنے آئے بالآخر زرداری نے مولانااور مریم نواز کوقائل کرلیا کہ ضمنی انتخابات ہوں یا سینیٹ الیکشن میدان تحریک انصاف کیلئے خالی نہیں چھوڑنا چاہئے۔
مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس میں مولانا بہت غصے میں تھے اور انہوں نے واضح طور پر کہا کہ عمران خان ایک مہرہ ہے ہم ان لوگوں کیخلاف تحریک چلائیں گے جو اپنے اس مہرہ کی پشت پناہی کررہے ہیں مولانا نے دھمکی دی کہ پی ڈی ایم رواں ماہ یہ فیصلہ کرے گا کہ مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف رکھا جائے یا راولپنڈی کی طرف اس سلسلے میں مولانا حیدری نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ہم راولپنڈی میں دھرنا دیں گے بے شک وہ ہمیں ماریں یہ روز روزمرنے سے ایک بار مرنا بہتر ہے۔
مولانا اور مریم کی پریس کانفرنس سے تو یہی لگتا ہے کہ ان کا غصہ تند وترش باتیں جی ایچ کیو کی جانب مارچ کا اشارہ یہ سب کچھ دباؤ ڈالنے کی تدابیر ہیں تاکہ ”بڑوں“ کو مجبور کیا جائے کہ وہ عمران خان کورخصت کردیں اگر اسکے باوجود انکو رخصت نہیں کیا گیا تو بات آگے بڑھ کر انقلاب یعنی پاکستان انقلاب کی طرف جاسکتی ہے اگر راولپنڈی کا گھیراؤ ہواتو اسکے سنگین نتائج برآمد ہونگے اور وہ کسی کے حق میں بھی برآمد ہوسکتے ہیں عمران خان سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ موجودہ سیاسی طوفان کو روکنے کیلئے بات چیت کا آغاز کریں لیکن عمران خان انکاری ہیں ایک تو ان میں سیاسی بصیرت کی کمی ہے دوسرے یہ انکی ضد اور انا انہیں بات چیت سے روک رہی ہے حالانکہ عمران خان سے کہہ دیا ہے کہ اگر وہ مذاکرات نہیں کریں گے تو مقتدرہ کے نمائندے کریں گے پھر آپ کی کیاحیثیت رہ جائے گی وہ بس این آر او نہیں دوں گا کرپشن پر بات نہیں کروں گا کاگرداں کررہے ہیں حالانکہ انہوں نے بنی گالا کے اپنے محل کو ریگولرائز کرکے پہلا این آر آو خود کو دیا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ موصوف این آر او کے مطلب سے واقف نہیں ہیں انہوں نے جہانگیر ترین،خسرو بختیار،پرویز خٹک،عاطف خان،بابر ندیم،تابش گوہر اور علیم خان کے سارے اسکینڈل معاف کرکے حکومت کی باگ ڈور انکے ہاتھوں میں دیدی یہ این آر او نہیں تو اورکیاہے۔حکومت کے پاس اس وقت دوہتھیار ہیں ایک نیب اور دوسرا غداری کے سرٹیفکیٹ سیاسی طاقت اور بصیرت تو اسکے پاس نہیں ہے نیب کے بے دریغ استعمال نے اس کا پول کھول دیا ہے اور اپوزیشن یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ یہ ایک انتقامی ادارہ ہے جو حکومت کے اشاروں پر چل رہا ہے۔
جے یو آئی کے رہنما مفتی کفایت اللہ کیخلاف غداری کے الزام میں حکومت نے کارروائی شروع کردی ہے مانسہرہ میں انکے گھر پر چھاپہ مارا گیا ان کی عدم موجودگی میں ان کے بھائی،بیٹے اور ایک عزیز کو گرفتار کرلیا گیا مفتی کفایت اللہ نے کرپشن کے حوالے سے ٹی وی پروگراموں میں بعض متبرک ہستیوں کے نام لینے کی حسارت کی تھی ان باتوں کا اتنا سخت نوٹس لیا گیا کہ وفاقی کابینہ نے انکے خلاف دفعہ6کے تحت غداری کے مقدمہ کی منظوری دیدی شیخ رشید کے مطابق مزید کارروائی کے پی کے میں ہوگی گرفتاری کے بعد ان پر پشاور میں مقدمہ چلایا جائیگا یہ معلوم نہیں کہ مقدمہ کس عدالت میں دائر کیاجائے گا اگر یہ کسی اوپن عدالت میں چلا تو یہ انتہائی ہائی پروفائل کیس ہوگا اگر مفتی صاحب نے معافی نہیں مانگی اور ڈٹے رہے تو کئی سنسنی خیز تفصیلات سامنے آئیں گی کیونکہ وہ اپنا مقدمہ خود لڑیں گے۔ایک اطلاع یہ ہے کہ مولانا کو دوروزقبل گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی اس اطلاع کے بعد انصارالسلام کے سینکڑوں رضا کاروں کو مولانا کی سیکیورٹی پر مامور کردیا گیا ہے اگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار مولانا کوحراست میں لینے کیلئے پہنچے تو خطرناک تصادم ہوسکتا ہے اور رضا کار جانوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ کسی وقت بھی کچھ ہوسکتا ہے اگر حکومت نے کوئی بڑی غلطی کرڈالی تو وہ سراسر نقصان میں جائے گی کیونکہ موجودہ کشمکش کوئی معمولی محاذ آرائی نہیں ہے1977ء میں بھٹو نے اگرچہ بات چیت کا آغاز کیا تھا لیکن پی این اے نے ضیاء الحق کے ایما پر عین آخری وقت معاہدے پر دستخط سے انکار کردیا تھا جس کے نتیجے میں طویل ترین مارشل لا نافذ ہوا تھا اگرچہ پاکستان میں فی الوقت مارشل لاء کانفاذ ممکن نہیں ہے لیکن محاذ آرائی خونریزی میں تبدیل ہوگئی تو بڑی تبدیلی ضرور آئے گی اور یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرپائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں