مولانا فضل الرحمٰن کا وزیر داخلہ کو جواب

اگلے روز وزیر داخلہ شیخ رشیداحمد نے میڈیا کے رو برو کہا تھا کہ فوج سمیت قومی اداروں کے خلاف جو بھی نازیبا زبان استعمال کرے گا اس کے خلاف 72گھنٹوں میں مقدمہ درج ہوگا۔انہوں نے خاص طور پرمولانا فضل الرحمٰن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”میں مولانا کا بحیثیت عالمِ دین بہت احترام کرتا ہوں انہیں مشورہ دوں گا کہ وہ بھی اسلام اور اسلام آباد کا احترام کریں“۔ پی ڈی ایم اور جے یوآئی کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن نیوزیر داخلہ کے اعلان پر فوری رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے جواب دیاہے:”72گھنٹے میں مقدمہ ہوا تو وزیر داخلہ بھی72گھنٹے سے زیادہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔اعلان جنگ کر چکے ہیں، فوج سیاست میں مداخلت کرے گی تو ڈنکے کی چوٹ پر مخالفت کریں گے“۔وزیر داخلہ کے اعلان اور سربراہ پی ڈی ایم کے جوابی اعلان سے عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی ضد پرقائم رہے اور کوئی درمیانی راستہ نہ نکالا تو امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کی طرف جائے گی۔دونوں طرف جانی و مالی نقصان ہوگا۔دونوں میں ایک اپنی ضد منوانے میں کامیاب ہوگا اور دوسرا فریق ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں کر سکے گا۔اس وقت ایک جانب وزیر داخلہ ہیں،جو حکومت کے نمائندہ اور وزارت داخلہ کے انچارج ہیں جبکہ دوسری طرف ایک مذہبی /سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں،دونوں تجربہ کار سیاست دان،سرد و گرم چشیدہ، معاملہ فہم اور صاحبان فراست ہیں۔ معاملہ یا تنازعہ کسی لحاظ سے بھی ذاتی نوعیت کا نہیں، سیاسی اور اجتماعی مفادات کا ہے۔لیکن بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ فریقین کے درمیان تناؤ بڑھنے لگا ہے۔لب و لہجے میں سختی آنے لگی ہے۔ضرورت ہے کہ تلخی کو بڑھاوا دینے کی بجائے احسن طریقے سے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔سیاسی بصیرت سے کام لیا جانا چاہیئے، خونی تصادم سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ معاملات کو خوش اسلوبی طے نہ کیا گیا تو ایک اور ”سانحہ لال مسجد“ رونما ہونے جارہاہے۔ مولانا کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ مسئلے کو مذہبی رنگ میں ابھاریں، اسے کفر و اسلام کی جنگ کہیں،اپنے پیروکاروں کو گولیوں کے سامنے کھڑا کر دیں،دوسری جانب ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کے نام پر انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائے گی۔دونوں طرف سے لاشیں گریں گی۔ مرنے والے کوئی بھی نعرہ لگاتے ہوئے جان دیں،ان کے ماں باپ کا بڑھاپے کا سہارا چھنے گا،بچے اپنے باپ کی شفقت سے سے محروم ہوں گے۔لال مسجد کے واقعے میں یہی کچھ ہوا تھا۔اب بھی یہی دہرایا جائے گا۔ ضد اور ہٹ دھرمی کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔مولانا طاہرالقادری اپنے کفن پوش کارکنوں اور بلند بانگ نعروں کا کوئی ثمر سمیٹے بغیر ہی چیف آف آرمی اسٹاف سے ایک ملاقات کا تمغہ اپنے سینے پر سجائے واپس لوٹ گئے تھے۔اگر یہی عمل دہرانے کا ارادہ ہے تو یہ کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں کہلائے گا۔سیاست صرف لاشیں اٹھانے کا نام نہیں۔مسائل کو پر امن طریقے سے حل کیا جانا زیادہ مناسب ہوگا۔ بہرحال فیصلہ جے یو آئی کے سربراہ اور وزارت داخلہ ہی کرے گی۔عام آدمی صرف تماشائی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ابھی تک عام آدمی نے مولانا کے اعلان جنگ کو اون نہیں کیا۔خود مولانا بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی حمایت کرکے اپنے پرانے مؤقف میں کسی حد تک لچک کا مظاہرہ کر چکے ہیں،سینیٹ الیکشن میں شرکت پورا سیاسی منظر تبدیل کردے گی۔اس کے بعد جنگ پارلیمنٹ کے اندر لڑنے کاوقت ہوگا، سڑکوں پر پرمطالبات منوانے کا مرحلہ ختم ہو جائے گا۔حکومت اس دوران اگر کسی جلد بازی کا شکار نہ ہوئی تو یہ تصادم مارچ تک ٹل جائے گا۔کرک واقعے کا تعلق پی ڈی ایم کی تحریک سے نہیں ہے اس لئے وہ اپناقانونی راستہ طے کرے گا۔ البتہ مفتی کفایت اللہ کا معاملہ 72گھنٹوں میں مقدمہ درج ہونے والے اعلان سے جڑا ہوانظر آتا ہے، ان کی گرفتاری کے لئے کارروائی شروع ہو چکی ہے،اطلاعات کے مطابق چھاپے کے وقت مفتی کفایت اللہ گھر پر موجود نہیں تھے۔ ان کے بہنوئی، بھائی اوردو بیٹوں کوپولیس اپنے ساتھ لے گئی،انتظامیہ اور گاؤں والوں کے درمیان جرگہ کے بعد میں 16سالہ بیٹے کو پولیس نے چھوڑ دیا۔عام آدمی اور مبصرین کاخیال ہے کہ جس جنگ کا اعلان مولانا فضل الرحمٰن نے کیا ہے وہ انہیں تنہا لڑنی ہوگی، اس کی وجوہات واضح ہیں، پی پی پی کی قیادت فوری طور پر کسی تصادم کو پسند نہیں کرتی نہ ہی حکومت کو قبل از وقت گھر بھیجنے کے لئے آمادہ ہے۔موجودہ سسٹم کو چلنے کے حوالے سے اس کی رائے دیگر اتحادی جماعتوں سے مختلف ہے۔نون لیگی اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت بھی(بقول خرم دستگیر)ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی حامی ہے۔ویسے بھی نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کسی لمبی لڑائی میں جانے کو پسند نہیں کرتی،جتنی جلدی ممکن ہو معقول قسم کامک مکاکرنے پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ پرویز مشرف ڈیل مسلم لیگ نون کی اسی سوچ کا عملی مظاہرہ سمجھا جا سکتا ہے۔نوازشریف کی جیل سے لندن روانگی بھی اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔موجودہ شور شرابے کا سبب یہ ہے کہ نون لیگ کے قائد چاہتے ہیں کہ ان کی صاحبزادی بھی لندن پہنچ جائے،جیسے ہی حکومت نے ان کا یہ مطالبہ پورا کر دیا، ان کی لڑائی ختم ہو جائے گی۔دونوں بیٹے برطانیہ کے شہری ہیں،پہلے ہی لندن میں مقیم ہیں۔صرف جاتی امراء میں رہائش اتنی پر کشش اور دلکش نہیں کہ شریف فیملی جیلیں کاٹے۔مقدمات کی سماعت ان کی غیر موجودگی میں معطل رہے گی۔پاسپورٹ کی منسوخی کا کوئی دوسرا حل تلاش کر لیا جائے گا۔مولانا کے اعلان جنگ میں اور نون لیگ کے اعلان جنگ میں یکسانیت ڈھونڈنے والوں کو مایوسی ہوگی۔نیلسن منڈیلا کی شبیہ صرف ان کے داماد صفدر اعوان کو نظر آتی ہے۔سیاسی کارکن تا حال نہیں دیکھ سکے۔مولانا صرف اتنی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کریں جو ان کے لئے ضروری ہو اس سے آگے جانا فی الحال دانشمندی سے بعید اور جذباتیت کے قریب معلوم ہوتا ہے۔ وہ خود بھی جہاندیدہ شخصیت ہیں،ان کے رفقاء اور بہی خواہ یہی سمجھتے ہیں کہ حتمی فیصلہ کرتے وقت وہ غلطی نہیں کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں