مومن بڑھاؤ

تحریر: جمشید حسنی
بچوں کی پیدائش کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔انڈیا کا نمبر پہلا ہے۔پاکستان میں دوران سال سولہ ہزار بچے پیدا ہوئے ہم مسلمان کہتے ہیں ہر بندہ دو ہاتھ ایک منہ لے کر پیدا ہوتا ہے نہ تو زہین بڑھتی ہے نہ وسائل۔اسلام میں قانون وراثت کے تحت ورثہ تقسیم در تقسیم ہوتا رہتا ہے کوئی ملک اپنی حدود نہیں بڑھا سکتا وہ زمانہ نہیں کہ اسکندر اعظم یونان سے ہندوستان مصر اسکندرہ جائے گا چنگیز خان تیمور لنگ نادر شاہ اختیار دوسروں کے وسائل لوٹیں گے۔ایشیاء افریقہ کے مقبوضہ جات کی دولت یورپ جائے گی غلاموں کی تجارت عیسائیت آزادی دے گا۔مال غنیمت جائز ہوگا سکندر اعظم نے ایران کی شہزادی سے شادی کی امام حسین کی زوجہ ایرانی شہزادی تھی۔نادر شاہ تخت طاؤس ایران لے جائے گا آج ہر ملک کو اپنے وسائل خودپیدا کرنے ہوتے ہیں۔انسانی وسائل کو تعلیم کسب ہنر بہتر صحت علاج کے ذریعہ کارآمد بنایا جاتا ہے حکومت سہولیات پیداکرتی ہے تب کہیں جا کر قومیں ترقی کرتی ہیں۔
آج وہ دور نہیں کہ پیغمبر اور نبی بھیڑیں چرائیں گے یہ حرکت کا دور ہے آبادی بڑھانے کا نہیں ملک میں جلسے جلوس ہیں حکومت کے اندر اور باہر دونوں طرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے۔حزب اختلاف کہتی ہے گیس کی خرید میں 121ارب روپیہ ضائع کیا گیا پشاور کی میٹروپر27ارب روپیہ کی بجائے 127ارب روپیہ خرچ ہوا گیس بجلی گیس تیل آٹا چینی خوردنی تیل سبزیاں روز بروز مہنگی ہورہی ہیں حکومت کہتی ہے برآمدات بارہ ارب ڈالر بڑھی ہیں۔بیس ارب ڈالر بیرونی قرضہ ادا کیا گیا۔ہندوستان کو15ارب 74کروڑ ڈالر خسارہ کا سامنا ہے۔مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں خطہ میں معاشی طور پرافغانستان بھی ہم سے آگے ہے۔ جسٹس محمد رستم کیا نی نے ایک کتاب کا نام ”ناٹ ہول د ی ٹروتھ“سب سچ نہیں دوسری کا نام ”ہاف دی ٹروتھ“آدھے سچ رکھا۔اب ہم کونہ حزب اختلاف اور نہ ہی حکومت کی بات کا سوفیصد یقین ہے۔ایک دھکادینا چاہتا ہے دوسرا اقتدرا طوالت،مسائل وہی ہیں معیشت راتوں رات نہیں سدھر تی بیرونی قرضے ہیں کرونا ہے،بے روز گاری ہے۔ہر ملک اپنے مفاد کا سوچتا ہے معاشی مفاد کو سامنے رکھ کر برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوا اب660ارب پاؤنڈ کے معاہدے کئے کوئی بھی اپنے مفاد سے بالا تر ہو کر دوسرے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔تیسری دنیا میں کرپشن عام ہے عالمی ادارے سخت ضمانتیں چاہتی ہیں بتایا گیا کہ جون سے دسمبر تک اسمگل شدہ اشیاء سے ملک کو تیس ارب روپیہ کا نقصان ہوا۔تیل اسمگلنگ سے400-300ارب روپیہ کا نقصان ہورہا ہے۔ادارے ٹیکس کا ہدف پورا نہیں کرسکتے آخر حکومت کیسے چلے گی ادارے کیا کررہے ہیں
بات چلی تھی آبادی سے پاکستان میں اس وقت بیس کروڑ آبادی ہے۔فی کس آمدنی کم ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ تعلیم ہنر کی کمی ہے۔نصف آبادی کم غذائیت کا شکار ہے۔معیار زندگی پست ہے۔ہم اپنے انسانی وسائل کو بہتر طور پر استعمال نہیں کرپاتے۔بس مشرق وسطی میں محنت مزدوری جسمانی مشقت کرنے والوں کو ملکی اثاثہ کہتے ہیں کیونکہ وہ بچت کر کے چند ٹکے ملک بھجتے ہیں۔آبادی کا بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ملک میں دس زرعی یونیورسٹی بنایاہیں۔زراعت حکومت کی ترجیح نہیں۔ہندوستان پاکستان آزاد ہوئے ہندوستان میں ولجھ بھائی پٹیل نے زرعی اصلاحات کیں جاگیریں ختم کیں ہمارے ہاں فیڈرل لینڈ کمیشن نے بھٹو دور میں لاکھوں ایکڑ اراضی کا غذات میں ضبط کی آج تک کسی کو ایک ایکڑزمین نہ ملی،جہانگیر ترین فخریہ کہتا ہے میرے پندرہ ہزار ایکڑ پر کنو کے باغات ہیں۔یار محمدرند کہتے ہیں میری پندرہ ہزار ایکڑ اراضی ہے۔شہداد کوٹ کے سلطان چانڈیو پاکستان کے سب سے بڑے زمیندار تھے۔نواب ذوالفقار مگسی کے دادا نواب محبوب علی مگسی کی چار لاکھ چھیاسی ہزار ایکڑ زمین تھی۔سرکاری زرعی قرضے غریبوں کو نہیں ملتے حکومت کھاد،بیج، بجلی پر جومراعات دیتی ہے وہ بڑے ہڑپ کرجاتے ہیں۔سندھ میں آج بھی کہتے ہیں فلاح ہاری گروی ہے زمیندار سے قرض لیتا ہے اور جب تک قرض کی ادائیگی نہیں کرتا کہیں ا ور نہیں جاسکتا،کھلی مزدوری کے لئے لوگ بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں وہاں بھی گیس بجلی پانی سڑک رہائش روز گاری تعلیم صحت کی سہولیات حکومت کی دینی ہوتی ہیں کہتے ہیں لاہور کراچی کچرہ کنڈی امن وامان پر خرچ آتا ہے۔شہر جدید تو نہیں بنتے،کچی آبادیاں بڑھتی ہیں۔معیار زندگی بلند نہیں ہوتا کہ مشترکہ خاندان کے نظام میں پیچھے والوں کی کفالت کرتی ہے دیہات میں بھی مسائل ہیں خبر ہے کہ مری میں پانی کے وسائل ختم ہورہے ہیں۔پینے کے پانی کا بحران ہے۔حکومت کہتی ہے۔سیاحت کو فروغ دیں گے۔پٹ فیڈر میں زیر زمین پانی نہیں برسات کا پانی جوہڑوں میں ذخیرہ کر کے پیاجاتا ہے۔بھاگ تحصیل ہیڈکوارٹر ہے شہری برساتی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں گدھا گاڑی کا ایک ڈرم پانی ڈیڑھ سو روپیہ میں ملتا ہے۔میں مایوسی نہیں پھیلارہا کوئٹہ صوبائی دارالحکومت میں ٹینکر مافیا آٹھ سو‘ہزار روپیہ ٹریکٹر کے ٹینکر کا لیتا ہے۔برحال مومن بڑھائیں۔
ہر مومن دو ہاتھ اور ایک منہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔رزاق اللہ دیتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں