سسٹم میں واپسی

تحریر: انور ساجدی
پی ڈی ایم فی الحال پرانی تنخواہ پر گزارہ کررہا ہے زرداری نے ایسی چال چلی کہ یہ اتحاد سسٹم سے نکلتے نکلتے دوبارہ سٹم میں واپس آگیا اب یہ ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لے گا اور سینیٹ کا الیکشن بھی لڑے گا جس کے بعد یہ چاہے لانگ مارچ کرے یا دھرنا دے لیکن ایک دفعہ مومنٹم ٹوٹ جائے اسے دوبارہ وہ پرانی سطح پر لے جانا آسان نہیں ہے پی ڈی ایم کے دانت نکالنے پر حکومت اتنی خوش ہے کہ آج کل پیپلزپارٹی کی بجائے حکومتی وزراء اور مشیر ”ایک زرداری سب پہ بھاری“ کا نعرہ لگارہے ہیں زرداری کو خوش فہمی ہے کہ وہ سندھ سے سینیٹ کی سات نشستیں جیتیں گے جس کے بعد سینیٹ میں ان کی طاقت زیادہ نہیں قدرے کم ہوگی انہیں یہ خوش گمانی بھی ہے کہ وہ پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرسکتے ہیں اور تو اور بلوچستان اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی ایک نشست ہی نہیں ہے لیکن زرداری کا دعویٰ ہے کہ وہ اپزیشن اور باپ پارٹی کے ناراض اراکین کو ملاکر جام کمال کو اس طرح نکال سکتے ہیں جس طرح انہوں نے ثناء اللہ زہری کو نکالا تھا زرداری نے اپوزیشن کو یہ خواب بھی دکھایا ہے کہ تحریک انصاف چیئرمین سینیٹ کا الیکشن نہیں جیت سکتی غالباً وہ بھول گئے ہیں کہ جب صادق سنجرانی چیئرمین بنے تھے تو انہیں پیچھے سے سپورٹ حاصل تھی اسی سپورٹ سے زرداری اور عمران خان ایک ہوگئے تھے لیکن آنے والے مہینوں میں میں ایسا ممکن نہیں ہے دنیا دیکھے گی کہ اپوزیشن ضمنی انتخابات بھی ہارے گی سینیٹ میں تحریک انصاف کواکثریت حاصل نہیں کرنے سے روک نہیں پائے گی البتہ چیئرمین کے انتخاب میں مقابلہ سخت ضرور ہوگا زرداری کو اندازہ ہے کہ ن لیگ سینیٹ کی جو نشستیں خالی کررہی ہے وہ واپس حاصل کرسکتی کیونکہ حکومت سب سے زیادہ خریدوفروخت پنجاب میں کرے گی اور پنجاب میں بھیڑبکریوں کی طرح ن لیگ کے اراکین فروخت ہونگے مولانا نے تنگ آکر اتحادیوں سے کہا ہے کہ زرداری کو اپنی ضد پوری کرنے دو مارچ کو یہ روتے ہوئے دوبارہ میرے پاس آئیں گے اور دوبارہ تحریک تیز کرنے کی درخواست کریں گے لیکن مارچ تک بہت کچھ ہوسکتا ہے حکومت کا پکا ارادہ ہے کہ تب تک مولانا پر ہاتھ ڈالا جائے اور انہیں بنوں کی جیل میں بند کیاجائے نہ صرف یہ بلکہ مفتی کفایت اللہ سمیت انکی پارٹی کے کئی رہنما بھی اس وقت جیلوں میں ہونگے اسی طرح ن لیگ کے اہم رہنما بھی پابند سلاسل ہونگے حکومت کامقصد یہی ہے کہ اپوزیشن تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہ ہو تاکہ یہ اپنی باقی ماندہ مدت پوری کرسکے چنانچہ تحریک چلنے نہ چلنے یا حکومت کے آگے جانے نہ جانے کے حوالے سے آئندہ تین ماہ بہت اہم ہونگے وزیرداخلہ شیخ رشید کا پیشگی کہنا ہے کہ اس دوران امن وامان کو سخت خطرات لاحق ہونگے جب کہ اپوزیشن کے سرکردہ رہنما بھی خطرے میں رہیں گے شیخ صاحب کا واضح اشارہ ہے کہ انتہا پسند تنظیمیں دوبارہ سراٹھائیں گی اور کوئی بڑا سانحہ برپا کرکے ریاست کو نئی آزمائش میں ڈال دیں گی شیخ صاحب کی پیشنگوئی اس حد تک درست ثابت ہوئی کہ مچھ میں 10 ہزارہ کانکنوں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کرنے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی لیکن دوسری طرف وزیراعظم نے اپنے وزیرعلی زیدی اورذلفی بخاری کو جو ہزارہ برادری کے پاس بھیجا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ واقعہ ”را“ کی کارستانی ہے جس کا مقصد امن وامان کا مسئلہ پیدا کرکے ملکی حالات کو خراب کرنا ہے وزراء کو چاہئے کہ وہ بیان دینے سے پہلے ایک دوسرے سے مشورے کرلیا کریں علی زیدی نصف شب کو مغربی بائی پاس پر جہاں کانکنوں کی لاشیں رکھی ہوئی تھیں اور درجہ حرارت منفی 7تھا شائد ہوش وحواس میں نہیں تھے انکی گفتگو ٹوٹی ہوئی اور غیر متاثر کن تھی۔ذلفی بخاری کا تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا بول رہے ہیں لیکن کیا کریں ملک کی باگ ڈور ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ان کی مرضی جو کریں جو کہیں لواحقین کا پانچ دن سے مطالبہ ہے کہ وزیراعظم خود آئیں اور ان سے ملاقات کریں اسکے بغیر وہ میتوں کی تدفین نہیں کریں گے یہ معصوم اور سادہ لوگ ہیں اگروزیراعظم آئیں بھی تو وہ طفیل تسلیوں کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں وہ ایک بار پھر واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کاحکم دیں گے شائد معاضوں میں اضافہ کردیں اور کیا کریں گے لوگوں کو یاد ہوگا کہ جنوری 2013ء میں ہزارہ برادری اپنی90لاشوں کے ساتھ منفی دس ڈگری میں بیٹھے تھے اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف آئے تھے اپنی حکومت بھی برطرف کردی تھی لیکن تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بند نہ ہوا ہزارہ برادری کو چاہئے کہ وہ اس بات پر زور دے کہ ان اسباب وعوامل کا پتہ چلا جائے جو انکی ٹارگٹ کلنگ کے باعث ہیں ان کا مطالبہ ہونا چاہئے کہ جو اصل ذمہ داران ہیں انکو گرفتار کرکے سزا دی جائے ظاہر ہے کہ یہ پیپلزپارٹی کا دور نہیں ہے اس لئے صوبائی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیاجائے گا اور نہ ہی صوبائی حکومت کو برخاست کرنے کا اختیار وفاق کے پاس ہے۔
وزیراعلیٰ کے ترجمان لیاقت شاہوانی مسلسل یہ دعویٰ کررہے تھے کہ انکے دور میں امن وامان کا مسئلہ ختم ہوگیا ہے لیکن اس کے بعد یکے بعد دیگر کئی واقعات ہوئے اگر گورننس کایہی حال رہا تو خدانخواستہ مزید واقعات ہوسکتے ہیں ہرواقعہ کے بعد یہ کہنا کہ اس میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہیں اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانے کی بات ہے کیونکہ اگر غیرملکی ہاتھ ملوث بھی ہیں تو انہیں روکنا حکومت کا کام ہے اگرعوام کو دہشت گردی کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا تو حکومت اپنا جواز کھوبیٹھتی ہے امن وامان کے مسئلہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سخت سیکیورٹی کے انتظامات اور جگہ جگہ چیک پوسٹوں کے باوجود واقعات ہوجاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی حکمت عملی درست نہیں ہے یا جو لوگ صوبے کو مل کر چلارہے ہیں ان میں ہم آہنی نہیں ہے۔ایک اور بات جو محسوس کرنے کی ہے کہ موجودہ حکومت بہتر گورننس کی بجائے پروپیگنڈے کے زور پر چل رہی ہے اس کے مشیروں اور ترجمانوں کاسارا زور سیاسی مخالفین کیخلاف بیان بازی پر ہے جس طرح جنگلوں میں گیڈر رات کے پچھلے پہر ایک ساتھ آوازیں نکال کر آبادی کے آرام میں خلل ڈالتے ہیں یہ لوگ بھی ٹی وی چینلوں پر آکر بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں اگر حکومت اپنی توجہ گورننس بہتر کرنے مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور عوام کے مسائل حل کرنے پر دے تو اسکے زیادہ اچھے نتائج نکلیں گے وزیراعظم خود اکثر وبیشتر اپنے انٹرویو میں اپوزیشن کو چور ڈاکو اور کرپٹ کہتے ہیں جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ حد درجہ کے ایماندار ہیں ایسے دعوے تو سارے حکمران کرتے ہیں شہبازشریف کا تکیہ کلام ہے کہ انہوں نے ایک دھیلے کا کرپشن نہیں کیا بات تو انکی صحیح ہے کیونکہ آج کل دھیلہ آنا پیسہ اور ٹکا نہیں ہوتے بلکہ ملین ہوتے ہیں اگر انہوں نے کرپشن کیا ہوگا تو اربوں کھربوں میں کیا ہوگا۔شہباز شریف کے بڑے بھائی جان اور ن لیگ کے ”سپرمیو“ نوازشریف کا تکیہ کلام ہے کہ ان پر کوئی ایک آنے کا کرپشن ثابت نہیں کرسکتا ان کی بات بھی درست ہے کیونکہ پارک لین میں انکے جو چارفلیٹ ہیں ایون فیلڈ انہیں تین روز قبل لندن ہائی کورٹ نے میاں صاحب کے حوالے کردیئے ہیں پہلے عمران خان الزام لگاتے تھے کہ ان کی مالیت6ارب روپے ہے لیکن یہ بات غلط ہے ان فیلٹوں کی کل قیمت80لاکھ پاؤنڈ یا ایک ارب 60کروڑ روپے ہے میاں صاحب کے نام انگلینڈ میں اور کوئی جائیداد نہیں ہے البتہ ان کے صاحبزادے خود کماؤ پوت ہیں اور ان کاکاروبار جائیداد کا ہے اگر ان کے نام ایک دوارب پاؤنڈ کی جائیدادیں ہیں تو یہ ان کا حق ہے ایک لطف کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں حسین نواز کی جواسٹیل مل ہے وہ ابھی تک چل رہی ہے شاہ عبداللہ کے بعد خیال تھا کہ شریف خاندان اور شاہی خاندان کے تعلقات ٹوٹ جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہے ولی عہد نے نوازشریف کو سعودی عرب آنے اور ملاقات کی دعوت دی ہے توقع ہے کہ وہ اپنے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہونے سے قبل وہاں پر جائیں گے اس سے ظاہر ہے کہ سعودی شاہی خاندان اور عمران خان کے تعلقات ابھی تک بحال نہیں ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے اپنے قرض کی اصل رقم ملنے کے بعد اس کے سود کی ادائیگی کامطالبہ بھی کیا ہے ظاہر ہے کہ یہ محض تنگ کرنے کی بات ہے۔
مولانا فضل الرحمن آج کل آصف علی زرداری سے سخت سوختہ ہیں اورانہوں نے اپنے قریبی حلقہ سے کہا ہے کہ وہ آئندہ اس شخص سے نہیں ملیں گے لیکن زرداری سے ملنا مجبوری ہے جلد یا بدیر مولانا کو زرداری کے پرتکلف ظہرانے کی یاد ستائے گی زرداری جو خود بھنڈیاں کھاتے ہیں مہمانوں کو رجارجا کرکھلاتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مولانا زیادہ دیر تک زرداری سے روٹھے رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں