ٹرمپ کا آخری وار

تحریر: انورساجدی
صدرڈونلڈٹرمپ نے دل خوش کردیا لیڈر ہو تو ایسا افسوس کہ امریکہ اتنے دلیر اور تبدیلی کے چمپئن صدر سے محروم ہورہا ہے گزشتہ کل کو ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا کہ جاؤ کانگریس پر ہلہ بول دو کیونکہ وہ میرے ووٹ چوری کرنے کی آخری کوشش کررہے ہیں بس پھر کیا تھا ٹرمپ کے ہزاروں سفید فام انتہا پسندوں نے کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا وہ اندر گھس گئے ان باکسوں کے لے جانے کی کوشش کی جن میں الیکٹورل ووٹ پڑے تھے اس موقع پر کانگریس کے اراکین کو زدو کوب بھی کیا فائرنگ بھی ہوئی چار افراد ہلاک ہوگئے دراصل کانگریس ایکٹوریل ووٹوں کی فائنل گنتی کررہی تھی تاکہ جیتنے والے امیدوار جوبائیڈن کی جیت کی تصدیق کی جاسکے امریکی دارالحکومت صدیوں کے بعد افراتفری انتشار اور شدید بدامنی کاشکار رہا میئر نے حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے کرفیو نافذ کرکے فوج طلب کرلی لیکن پینٹا گون نے یہ کہہ کر فوج بھیجنے سے انکار کردیا کہ سیاسی تنازعات کوسیاسی انداز میں حل کیاجائے کہا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے حامیوں نے مارشل لاء لگا کر انتخابی نتائج مسترد کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن عسکری قیادت نہیں مانی بدھ کے روز واشنگٹن میں جو کچھ ہوا اسے سنبھالنے کیلئے صدر کے نائب صدر مائیک پنس میدان میں آگئے انہوں نے گھیراؤ جلاؤ اور پرتشدد واقعات کی مذمت کی اور عوام سے کہا کہ وہ دنیا کی عظیم جمہوریت کوبچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں خود ری پبلکن پارٹی کے متعدد اراکین نے بھی ٹرمپ کی جارحانہ اورغیر جمہوری طرز عمل کی مذمت کی منتخب صدر جوبائیڈن نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ امریکہ کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا صورتحال انتہائی شرمناک ہے۔
بہرہ حال ڈونلڈٹرمپ کی آخری کوشش بھی ناکام ہوئی اور کانگریس نے جوبائیڈن کی جیت کی توثیق کردی اس طرح ایک وقتی بحران ٹل گیا ٹرمپ نے اپنے دور میں جو کچھ کیا اس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہے بہت ہی نامساعد حالات میں انہوں نے معیشت کو گرنے نہیں دیا البتہ وہ کرونا سے نمٹنے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ہورہی ہیں ٹرمپ کو ایک ناکام صدر کے طور پر یادرکھاجائیگا جنہوں نے اپنے ملک کو نسلی تفرقات میں ڈالا اور وائٹ سپرمیسی کانعرہ لگایا حالانکہ امریکہ جیسا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا امریکہ میں جمہوری روایات کافی مضبوط ہیں جوبائیڈن نے پوری انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ پر تنقید نہیں کی بلکہ زور دیا کہ کروناسمیت مسائل کو مشترکہ کوششوں سے حل کیاجائے۔
بائیڈن ایک سمجھدار اورتجربہ کار سیاستدان ہیں وہ دنیا کے بارے میں ٹرمپ سے کہیں زیادہ معلومات رکھتے ہیں انہوں نے پوری زندگی انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھائی ہے اگرچہ صدر کی حیثیت سے وہ زیادہ محتاط ہونگے لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھائیں گے افغانستان کے بارے میں ٹھوس فیصلہ کریں گے اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ چین کیخلاف امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھائیں گے کیونکہ بائیڈن سے زیادہ وہ کون جانتا ہے کہ رواں صدی میں چین معاشی اور سیاسی میدان میں کہا جاکر کھڑا ہوگا۔ٹرمپ چین کے بارے میں گرجتے بہت تھے لیکن وہ کوئی ٹھوس حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہے لیکن جوبائیڈن ایسا نہیں کریں گے وہ چین کے بارے میں ٹھوس حکمت عملی اپنائیں گے ٹرمپ کے دور میں چین اور روس نے امریکہ کی اہم ڈیٹا حاصل کرلی انہی معلومات کی بنیاد پر ان کی معاشی ترقی آگے بڑھی۔
جوبائیڈن کے بارے میں معلوم نہیں کہ پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی کیا ہوگی البتہ یہ طے ہے کہ یہ پالیسی افغانستان اور بھارت کے تناظر میں ہوگی چین بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعے پاکستان میں جس طرح سرایت کرگیا ہے بائیڈن اسے خاص نظر سے دیکھے گا تمام ترتردید کے باوجود امریکی تھنک ٹینک مسلسل گوادر پورٹ یا پاکستان میں چینی سرگرمیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ سی پیک ایک معاشی نہیں بلکہ اسٹریٹجک پلان ہے جس کا مقصد خلیج میں چین کی فوجی موجودگی کو یقینی بنانا ہے اگرچہ موجودہ دور میں سی پیک میں تعطل آیا ہے لیکن اس پروجیکٹ کے ذریعے پاکستان اپنے داخلی مسائل پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہے اس سلسلے میں سویلین حکمرانوں کو زیادہ معلومات نہیں ہیں کیونکہ ریاست میں جو بھی وارزون ہیں وہ ان کا سبجیکٹ نہیں ہیں یہ جو علاقے جہاں تنازعات ہیں چاہے وہ گلگت بلتستان ہوبلوچستان ہویاآزاد کشمیر یہ علاقے طویل عرصہ تک نشیب وفراز کاشکار رہیں گے اوریہاں کے عوام کو مصائب اورمشکلات کاشکار بننا پڑے گا۔
مچھ میں ہزارہ کانکنوں کے سانحہ کو ملک بھر میں سیاست کا ذریعہ بنایا جارہا ہے حالانکہ یہ دہشت گردی کا ایکٹ تھا جو فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا اور سابقہ واقعات کا تسلسل تھا مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب لواحقین نے لاشوں کو کھلے آسمان تلے رکھ کر انکی تدفین سے انکار کردیا انکی شرط یہ ہے کہ وزیراعظم خود آجائیں سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کے آنے سے کیا فرق پڑے گا سوائے اس یقین دہائی کے آئندہ ایسے واقعات کاتدراک کیاجائے گا اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجائیگا اس طرح کے روایتی بیانات پر سانحہ کے بعد اس وقت کے حکمران دیتے آرہے ہیں لیکن دہشت گردی عفریت پرابھی تک قابو نہیں پایاجاسکتا۔
مقام افسوس ہے کہ پی ڈایم کی جماعتیں بھی لاشوں کی سیاست میں کود پڑی ہیں لواحقین سے ہمدردی اور تعزیت اچھی بات ہے لیکن اس کی نمائش بری بات ہے۔اگر مریم اور بلاول خاموشی کے ساتھ آتے اور تعزیت کرکے چلے جاتے تو اچھی بات ہوتی لیکن وہ دھرنے میں جاکر حکومت کوتنقید کانشانہ بنائیں گے یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ لواحقین نے بھی انسانی تدفین کے مسئلہ کو انا کا مسئلہ بنارکھا ہے اگر یہ اطلاع درست ہے کہ جاں بحق ہونیوالوں میں سات افغان باشندے تھے اور افغان حکومت نے ان کی میتیں مانگ لی ہیں تو اس سے نئے سوالات جنم لیتے ہیں اگر ان لوگوں کی شہریت مقامی نہیں تھی تو مسئلہ کو اتنا بڑھاوا دینے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ اگر واقعی یہ غیر ملکی تھے تو پورے ملک کو جام کردینے کا کیا جواز ہے؟بلوچستان میں دہشت گردی کا ایک بڑا سبب لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی بھی ہے جن کو مردم شماری میں مقامی باشندے ظاہر کیا گیا ہے معلوم نہیں کہ حکومت کی کیا مجبوری ہے کہ اس نے40سال بعد بھی افغان مہاجرین کو اپنے ہاں رکھا ہوا ہے اور ان کی واپسی میں خود رکاوٹیں ڈال رہی ہے حالانکہ افغانستان میں جنگ ختم ہونے کے بعد انکے یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں جب تک ان پناہ گزینوں کوواپس بھیجا نہیں جائیگا بلوچستان کے بالائی علاقوں میں امن قائم نہیں ہوگا۔ جہاں تک سانحہ مچھ کا تعلق ہے یہ کوئی نیاواقعہ نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ آج تک فرقہ وارانہ دہشت گرد کیوں نہیں پکڑے گئے حالانکہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں قدم قدم پر سیکیورٹی کے انتظامات ہیں اس کے باوجود اس طرح کے واقعات ہورہے ہیں یہ واقعات صرف ایک جگہ تک محدود نہیں۔
ٹرمپ کے جانے کے بعد دنیا طرح طرح کے چٹکلوں سے محروم رہ جائے گی البتہ وزیراعظم عمران خان ان کے وزیروں،مشیروں اور نریندر مودی کی موجودگی میں دلچسپ لطائف اور چٹکلوں کا سلسلہ جاری رہے گا فردوس شق اعوان،فواد چوہدری،شہباز گل،شبلی کوہاٹی،شیخ رشید ہرروز پھجلڑیاں چھوڑاکریں گے انہی کی وجہ سے عوام اپنے روز مرہ کے مسائل بھول کر موجودہ حکومت کی حمایت پر مجبور ہیں خودوزیراعظم کو پکا یقین ہے کہ وہ نہ صرف اپنی موجودہ مدت پوری کریں گے بلکہ مزید پانچ سال کیلئے بھی منتخب ہوجائیں گے تب تک وزیر اور مشیر یہی کہتے رہیں گے کہ خان صاحب نظام ٹھیک کررہے ہیں اور چوروں کو پکڑرہے ہیں اس لئے مہنگائی،بیروزگاری اور دیگر مسائل کو برداشت کرنا پڑے گا تاکہ آئندہ پانچ سال میں خان صاحب تمام چوروں کو کیفرکردار تک پہنچاسکیں اور ملک کو پاک صاف رکھیں اسکے بعد 50لاکھ گھربناکر غریبوں کو دینا آسان ہوجائے گا پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیمیں ہرروز ہزاروں کی تعداد میں اسی طرح کے خیالات عوام تک پہنچاتے ہیں ان کا زور مخالفین کی ناکامیوں کواجاگر کرنا ہوتا ہے دوروز قبل وزیراعظم نے حکم دیا کہ سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی کو اچھالا جائے تاکہ لوگ عثمان بزدار اورمحمود خان کی کارکردگی پر دھیان نہ دیں۔
بھئی کمال ہے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کی ماہر تو پی ٹی آئی ہے اس کی مرضی کو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرے لیکن جو سلوک شہباز گل کے ساتھ پیش آیا پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ اپنے رہنماؤں کو مخالفین سیاسی جماعت کے غنڈوں سے بچائے کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ان کاگھیراؤ کرکے چینی چور،آٹا چور،بجلی چور کے نعرے لگاتے ہوئے کچھ گستاخی نہ کربیٹھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں