دھند چھٹ رہی ہے

تحریر: انور ساجدی
جمعرات کو جب بلاول اور مریم کوئٹہ کے مغربی پاس پرہزارہ کمیونٹی کے دھرنے میں شرکت کیلئے پہنچے تو عین اسی وقت وزیراعظم ارطغرل ڈرامہ کے اداکاروں سے ملاقات کررہے تھے وزیراعظم کو دلچسپی ہے کہ برصغیر میں جو خلافت موومنٹ چلی تھی اس کے ایک کردار ”ترک لالہ“ کو ہیرو بناکر ایک شاندار ڈرامہ بنایاجائے یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ وزیراعظم کی خواہش پر ارطغرل ڈرامہ دکھایاگیا تھا اور جس کی وجہ سے سعودی عرب نے پاکستان سے اپنے تعلقات تقریباً توڑ لئے تھے اس کے باوجود ترکی اسکے بانی عثمان اور وہاں کی خلافت سے وزیراعظم کی جنوں کی حد تک دلچسپی سمجھ سے بالاتر ہے خاص طور پر جب وہ ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں ترکی والی خلافت قائم کرنے کے خواہاں ہیں پنجابی صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے وزیراعظم کو شائد معلوم نہیں کہ ریاست مدینہ اور سلطنت عثمانیہ ایک دوسرے کی ضد ہیں دونوں خطوں کے کلچر تہذیب اور روایات میں زمین آسمان کافرق ہے اگرچہ اسلامی نظام سلطنت عثمانیہ میں بھی نہیں تھا اور نہ ہی آج کے ترکی اور سعودی عرب میں ہے البتہ طیب اردگان اپنے عوام کے جذبات سے کھیلنے کیلئے ترکوں کے شاندار ماضی کے خواب دکھاکر دوبارہ انکے نشاۃ ثانیہ کو بحال کرنا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔طیب اردگان یوٹرن کے بھی بڑے ماہرہیں انہوں نے غزہ کے محاصرہ کوجواز بناکر اوریہودی آباد کاری کیخلاف دوسال پہلے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کردیئے تھے لیکن حالیہ دنوں میں جب کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو طیب اردگان نے یوٹرن لیکر سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کردیئے۔
معلوم نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے لاشعور میں کیا باتیں ہیں وہ کیا بننا چاہتے ہیں کس طرح کا نظام لانا چاہتے ہیں ابھی تک انہوں نے اس کا کھل کر اظہار نہیں کیا البتہ اکثروبیشتر وہ صدر ایوب خان کے صدارتی نظام اور اس دور کی ترقی کا بہت خضوع وخشوح کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جس سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ وہ اسی طرح کا نظام پاکستان میں لانا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے لئے انہیں آئین منسوخ کرنا پڑے گا اور اس کی جگہ نیا آئین نافذ کرنا پڑے گا اس کام کیلئے عمران خان کے پاس اکثریت نہیں ہے بلکہ انکی پوری حکومت اقلیتی ہے یہ اس وقت صرف ایم کیو ایم یا ق لیگ کے ووٹوں کے سہارے قائم ہے جبکہ آئین کو بدلنے کیلئے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہے اقلیت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو ”بیساکھیاں“ میسر ہیں جس دن یہ سہارا نہ رہے یہ دھڑام سے گرجائے گی البتہ صدارتی نظام کا آسان حل یہ ہے کہ مارشل لا نافذ کردیاجائے اور ضیاؤ الحق اور مشرف کی طرح کے ریفرنڈم کرایاجائے جس کے نتیجے میں نظام تبدیل ہوسکتا ہے نئے نظام کے تحت ایوب خان کی طرح کی پارلیمنٹ وجود میں آسکتی ہے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے عہدے ختم ہوجائیں گے اور صوبوں میں صرف گورنر کام کریں گے اگرنیانظام لانا ہے تو اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے اگرصدارتی نظام لایا گیا تو ضیاؤ الحق نے52صوبے بنانے کاجومنصوبہ بنایا تھا اس پر عملدرآمد بھی آسان ہوجائے گا جس کی وجہ سے صوبائی خودمختاری کامسئلہ حل ہوجائے گا لیکن یہ محض خواب وخیال ہے اگرموجودہ سسٹم کو چھیڑا گیا تو ریاست کا استحکام ریزہ ریزہ ہوجائے گا کوئی نیا متفقہ آئین بن نہیں پائے گا ہر طرف انتشار اور انارکی پیدا ہوگی جسے کنٹرول کرنے کیلئے طاقت کا بے مہابہ استعمال کرنا ہوگا جیسے کہ1970ء کے عام انتخابات کے نتائج مسترد کرنے کے بعد مشرقی پاکستان میں کیا گیا تھا اس کانتیجہ تو بھیانک نکلا تھا ایسے غیر معقولی اور ماورائے آئین اقدامات کانتیجہ آئندہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔
لہٰذا عمران خان کوچاہئے کہ وہ خلیفہ یا صدر بننے کا خواب ترک کردیں اور ساری توجہ اپنی باقیماندہ مدت پوری کرنے پردیں کیونکہ ڈھائی برس میں انکی حکومت شدید بدانتظامی اورناکامی سے دوچار ہے انہیں چاہئے کہ وہ آئندہ ڈھائی برس میں عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں اگرکارکردگی کایہی حال رہا تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کا تقریباً صفایا ہوجائے گا وزیراعظم کواپنے وزراء اور بیوروکریسی پر کوئی کنٹرول حاصل نہیں ہے ان کے توانائی کے مشیر تابش گوہر نے دلبرداشتہ ہوکر استعفیٰ دیدیا ہے حالانکہ وہ کے الیکٹرک کو چلانے میں ناکام رہے تھے تو کس خوشی میں انہیں مشیربنایا گیا تھا توانائی کے بڑے وزیر عمر ایوب اور مشیر بابر ندیم کی نااہلی سے ابتک کھربوں کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ سرکولر ڈیٹ نوازشریف کے دور سے بڑھ کر ڈھائی کھرب روپے ہوچکا ہے وزیراعظم کی توجہ حکومت چلانے پر کم اور اپوزیشن کو برا بھلا کہنے پر زیادہ ہے انہوں نے گزشتہ روز لاہور میں کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن کے سارے ڈاکو مل کر وزیراعظم کو بلیک میل کررہے ہیں جب وزیراعظم یہ فرمارہے تھے تو عین اسی وقت اہم شخصیتوں کاایلچی بن کر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نوازشریف کو اہم پیغام دے رہے تھے یہ پیغام کچھ لو اور کچھ دو کے بارے میں تھا لیکن وزیراعظم اس سے بے خبر تھے حالانکہ جب شاہد خاقان امریکہ جارہے تھے تو ان کا نام ای سی ایل سے کابینہ کی ایک کمیٹی نے نکالاتھا۔ان کا امریکہ جانا تو بہانہ تھا اصل مقصد لندن جاکر نوازشریف سے ملاقات تھی سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کی مرضی کے بغیر کابینہ کی سب کمیٹی نے سابق وزیراعظم کا نام ای سی ایل سے کیسے نکالا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ باتیں وزیراعظم سے پوشیدہ رکھ کر کی جارہی ہیں اگرچہ نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز تو کئی سال پہلے رضا ربانی نے دی تھی لیکن آج کل اہم شخصیات اس پر زور دے رہی ہیں انہی شخصیات نے لاہور جیل میں محمد علی درانی کی شہبازشریف سے ملاقات کروئی تھی اور انہی کے ایما پر وہ مولانا فضل الرحمن سے ملے تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب درانی نے نوازشریف کو لندن کال کی تو انہوں نے کال سننے سے انکار نہیں کیا بلکہ ان کی بات سنی۔
عجب دلچسپ کھیل ہے ایک طرف عمران خان کو یقین دہانی کروائی جارہی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں دوسری طرف سے اپوزیشن سے خفیہ رابطے بھی جاری ہیں یہ ”کیموفلاج“ بھی ہوسکتا ہے لیکن ملک چلانے والے جانتے ہیں کہ ضد اور انا سے ملک نہیں چلاکرتے آخر زبردستی کب تک معاملات چلائے جاسکتے ہیں صدرٹرمپ نے چار سال تک نسل پرستی کو بہت ہوادی چین اور ایران کے بارے میں بہت مخاصمت پھیلائی لیکن آخر کا ان کا پول کھل گیاانا پرستی یا خود پرستی کی وجہ سے انہوں نے پوری امریکی جمہوریت کو داؤ پر لگادیا اور امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ پر ہلہ بول دیا جس کی وجہ سے اسکے سارے ساتھی اسے چھوڑ گئے کیپٹل ہل پر حملہ کے بعد کانگریس کے سینئر اراکین بشمول اسپیکر پلوسی سب نے نائب صدر مائیک پنس پرزور دیا کہ آپ صدر ٹرمپ کوپاگل قراردینے کاسرٹیفکیٹ جاری کردیں بھئی کمال شخصیت ہے ٹرمپ نے پہلے حملہ کروایا دوسرے دن اسکی مذمت کی اور کہا کہ وہ20جنوری کو پرامن انتقال اقتدار کردیں گے ٹرمپ تو پھر بھی اپنی غلطی مان لیتے ہیں لیکن ہمارے وزیراعظم کبھی اپنی غلطیوں کااعتراف نہیں کرتے بس ایک دن نادانستگی سے انکے منہ سے نکلا کہ انہیں ڈیڑھ سال تک حکومت چلانے کاکوئی تجربہ نہیں تھا آج کل وہ پھر اس خوش فہمی میں ہیں کہ انہیں ایک سال میں اتنا تجربہ ہوچکا ہے جو دیگر شخصیات کو 10سال میں بھی نہیں ہوتا۔لیکن صرف دعوؤں سے کچھ نہیں ہوتا اگر ان کی حکومت مدت پوری کرگئی توڈھائی سال بعد ان کی قلعی کھل جائے گی یہ تو وزیراعظم شکر کرے کہ اس کا سامنا ایک بزدل اور مصلحت پسند اپوزیشن سے ہے جو کبھی کہتی ہے کہ آریا پار لیکن پھر پینترا بدل کر کہتی ہے کہ ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لیں گے اگروہ ایک دفعہ آریاپار والی بات پر قائم رہتے تو حکومت کو دن میں تارے نظرآتے لیکن شاہد خاقان نے نوازشریف سے ملاقات کے بعد بھی یہی اعلان کیا کہ ہم سینیٹ کے الیکشن میں بھرپورحصہ لیں گے اس کے لئے اپوزیشن کو ایک زرداری سب پہ بھاری نے قائل کیا تھا جبکہ زرداری کو اسکے لئے اوپروالوں نے قائل کیا تھا انہی لوگوں نے اب نوازشریف کو بھی آمادہ کرلیا ہے اگرچہ معاملہ اپریل تک چلاگیا ہے لیکن یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اپریل تک تبدیلی ضرور آئے گی چاہے یہ ان ہاؤس چینج ہو عدم اعتماد ہو یا استعفیٰ ہو زرداری کا شروع سے یہی موقف رہا ہے کہ سسٹم کے اندر رہ کر تبدیلی لائی جائے ورنہ ناکامی ہوگی توقع یہی ہے کہ مولانا بھی جلد سسٹم کے اندررہ کر کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں