وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کے لئے ایک نیا عمرانی معاہدہ کیا جائے،امان اللہ کنرانی

کوئٹہ:سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے سابق صدر سینٹر(ر)امان اللہ کنرانی کا موجودہ ملکی حالات پر اہم بیان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر ر امان اللہ کنرانی نے کہا گزشتہ چھے مہینے سے چین سے شروع ہوکر دنیا کے تقریباً”دو سو ملکوں میں آنا”و فانا”تباہ کاریاں مچانے والا کورونا وائرس انسانیت کے لئے زہر قاتل بنتا جا رہا ہے تاہم خوش آئند بات ہے کہ یہ وائرس جہاں سے شروع ہوا یعنی ووہان چین کے اندر دم توڑ چکا ہے اسی طرح جنوبی کوریا کے اندر بھی شکست سے دوچار ہے جو وہاں کے حکومتوں کی کامیاب حکمت عملی و عوامی پزیرائی کی اعلیٰ مثال ہیں جبکہ ہمارے ملک میں وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت سیاسی جماعتیں باہمی انتشار و مربوط کاوشوں سے بے بہرہ ہیں جو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں ماضی و حال کی حکومتوں نے اگر صحت عامہ و فلاح و بہبود معیشت کے لئے کوئی پائیدار کام کیا ہوتا تو وہ عوام کی زندگیوں کے لئے ڈھال بنتا تاہم افسوس ہے عوام آج دو راہے پر کھڑی غیبی مدد کی راہ تک رہی ہے یہ صورتحال نہ صرف بائیس کروڑ عوام کی زندگیوں کے لئے تشویشناک ہے بلکہ ملک کی بقا و سلامتی کے لئے خطرناک کے علاوہ خانہ جنگی کی کیفیت کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے تمام سرکاری اداروں نے اپنی ناکامی چھپانے کے لئے ہر کام کے لئے فوج کو طلب کرنے کا آسان نسخہ کیمیا ایجاد کرلیا ہے وفاقی وصوبائی حکومتیں اگر انسانی المیے سے نبرد آزما ہونے کے قابل نہیں تو عوام پر مسلط ہوکر قومی خزانے پر بوجھ بننے کی بجائے عوام کو دوبارہ چناؤ کا موقع دیں عالمی آفت کا فوج نے ہی سامنا کرنا ہے تو in aid to civil power کا تکلف ختم کرکے فوج چھاؤنی کیطرز پر بہبود کا کام سرانجام دے لاک ڈاؤن کے زریعے 22 کروڑ عوام کو یرغمال و کرفیو سے قبل بھارت میں دو دن کے اندر کرفیو سے عوام کی چیخوں کو ضرور سنیں اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنیوصحت و صفائی کے انتظامی ناکامی کو فوج کی چھتری سے چھپانے کے بعد کرفیو میں فوج کو ملوث کرنا واپڈاوٹیکس وصولی کے ماضی کے تلخ تجربیکودھرانا ہے ہمارا المیہ ہے ہم کہ ہم ریاست کی بات کرتے ہیں تو ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہیں،جمہوری نظام کے اندر امریکہ،برطانیہ اور یورپ کو قبلہ سمجھتے ہیں،معیشت کے لئے چین کو مینار کا درجہ دیتے ہیں مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو ہم شطر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرکے خفت کی بجائے توجیہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ارتقائی منازل طے کررہے ہیں ہم غریب ملک ہیں جبکہ اس کے برعکس چین ہم سے دو سال بعد آزادہوا اس نے معاشی لحاظ سے پوری دنیا کو مات دے دی جبکہ بنگلہ دیش جس نے ہماری کوکھ سے جنم لیا اس کی اقتصادی حالت ہم سے زیادہ مستحکم ہے ان تلخ حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہماری سیاسی جماعتیں اس قیامت خیز تباہی کی راہ میں بند باندھنے کی بجائے الگ الگ بولیاں بول کر ملک کی بقاء و عوام کی حفاظت،معیشت کو خطرے میں ڈال رہی ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب متحد و ایک جان دو قالب بن کر اپنی انا اور غرور کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک قومی ایجنڈے پر متفق ہوجائیں اس موقع پر میں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی 11 ستمبر 2018 کو عدالت عظمی کے طویل تعطیلات کے بعد فل کورٹ ریفرنس میں انکی تقریر کے تناظر میں محسوس کرتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کے لئے ایک نیا عمرانی معاہدہ کیا جائے اس مقصد کے حصول کے لئے فی الفور تمام سیاسی،مذ ہبی و علاقائی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ایک قومی حکومت تشکیل دینے کی راہ ہموار کی جائے جو اس ناگہانی عالمی آفت کا نہ صرف مقابلہ کرے بلکہ ملک میں آئین،قانون کی بالادستی سمیت پارلیمانی نظام کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے جمہوری پارلیمانی نظام کو پائیدار اور غیر متنازعہ بنانے کے لئے قوی اتفاق رائے پیدا کرے جو عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کئے بغیر ادارجاتی نظام کو فرو غ دے جس میں افراد کی نہیں اداروں کی کارکردگی نمایاں ہو کسی فرد کے آنے جانے سے ملک کی ترقی و خوشحالی پر فرق نہ آئے اس لئے ہمیں ایک دوسرے کے ماضی کی غلطیوں کو پس پشت ڈال کر نئے مستقبل کی تعمیر کے لئے ہر ایک کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا موقع دینا ہوگا ہمیں فتح مکہ سمیت جنوبی افریقہ کے رول ماڈل کو سامنے رکھ کر قومی تعمیر نو کے عزم کا ایجنڈہ اپنانا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں