زرداری کا ٹوٹا ہوا دل
تحریر: انورساجدی
چند سال پہلے آصف علی زرداری نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ
وہ ایسا دل نہیں رکھتے جو ٹوٹ جائے
لیکن اطلاعات ہیں کہ انہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے کہ انہیں دل کے پیچیدہ امراض کے علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے یعنی بالآخر زرداری صاحب کا دل شکست وریخت کاشکار ہوگیا دل کے ساتھ انہیں کئی دیگر عوارض بھی لاحق ہیں ان کی نوعیت بھی کافی پریشان کن ہے اگرعدالت نے انہیں جانے کی اجازت دی تو معلوم نہیں کہ وہ امریکہ کا انتخاب کریں گے یالندن جائیں گے اگران کا پاسپورٹ ضبط نہ ہوتا نام ای سی ایل پر نہ ہوتا تو وہ یقینی طور پر نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرتے لیکن وقت اتنا کم ہے کہ وہ شرکت نہیں کرسکیں گے جو بائیڈن نے پاکستان سے جن دوشخصیات کو حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی ہے وہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو ہیں کسی سرکاری شخصیت کو مدعو نہیں کیا گیا جبکہ باقی دنیا سے اہم شخصیات کو دعوت دی گئی ہے امریکی میڈیا کے مطابق تقریب کو سادہ مختصر رکھاجارہا ہے کیونکہ اس روز صدر ٹرمپ کے جنونی پیروکار وائٹ ہاؤس پر دھاوا بول سکتے ہیں اگرچہ ٹرمپ کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹ معطل ہیں لیکن وہ دیگر ذرائع استعمال کرکے رنگ میں بھنگ ڈال سکتے ہیں جب اوبامہ صدر تھے تووائٹ ہاؤس کے سالانہ ناشتے پرزرداری اور بلاول کو تواتر سے بلایاجاتا تھا اس کی وجہ انکے نائب صدر جوبائیڈن کے زرداری سے تعلقات تھے۔
امریکہ میں قیادت کی تبدیلی سے جواثرات مرتب ہونگے دنیا کے کئی سربراہان اسکے منتظر ہیں لیکن صدر امریکہ چاہے جو بھی ہو وہ تیسری دنیا کے کسی غیر جمہوری ملک کے قائد کی طرح نہیں ہوتا کہ وہ ٹوٹل تبدیلیاں لائے امریکہ ابھی تک دنیا کا واحد سیاسی سپرپاور ہے اس کی اکثر پالیساں دیرپا ہوتی ہیں یہ پالیسیاں طویل منصوبہ بندی اور سوچ وبچار کے بعد بنائی جاتی ہیں مثال کے طور پر1960ء کی دہائی میں صدر لندن بی جانسن نے ویت نام پرحملہ کردیا جب ان کی جگہ نائب صدر رچرڈفکسن صدر بن گئے تو انہوں نے امریکی افواج کی کامل شکست تک یہ جنگ جاری رکھی کیوبا کے بارے میں امریکہ نے جو پالیسی1950ء کی دہائی بنائی تھی وہ اوبامہ کے آنے تک جاری رہی تاہم اوبامہ نے ہوانا جاکر طویل محاذ آرائی ختم کردی وجہ یہ تھی کہ مرد آہن فِڈل کا سترو باقی نہیں رہے تھے امریکہ کے جنوب میں واقع اس چھوٹے سے جزیرے کے لیڈر کاسترو نے کئی دہائیوں تک امریکہ کوچین کی نیند سونے نہیں دیا چند سال پہلے تک وینزویلا کے دبنگ لیڈرہوگوشاویز نے کاسترو کی طرح سپرپاور کو ناکوں چنے چبوائے لیکن وہ امریکہ کی بجائے کینسر کے ہاتھوں شکست کھاگئے وینزویلا کے بارے میں امریکہ کی وہی پالیسی ہے جو بش جونیئر نے بنائی تھی۔صدر رونالڈریگن نے1980ء کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کیخلاف جہاد شروع کیا انکے جانے کے بعد امریکہ کی افغان پالیسی بدل گئی لیکن بش نے نائن الیون کے بعد افغانستان پرقبضہ کرلیا جوتاحال جاری ہے ٹرمپ نے طالبان سے امن مذاکرات کئے لیکن امن قائم نہیں ہوسکا یہ تو معلوم نہیں کہ بائیڈن اپنے پیشرو کی پالیسیاں جاری رکھیں گے یا افغانستان سے انخلا کرکے اس بدقسمت ملک کو دوبارہ جنگجوؤں کے حوالے کردیں گے افغانستان کی قسمت کا فیصلہ آئندہ چند ماہ میں ہونے والا ہے۔
عالمی میڈیا نے حال ہی میں ایک سروے جاری کیا تھا جس میں دنیا کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے20شہروں کا انتخاب کیا گیا تھا اس فہرست میں کابل بھی شامل تھا طویل جنگ وجدل اور خانہ جنگی کے بعد حامدکرزئی کے دور سے اب تک کابل شہرازسرنو تعمیر ہوا ہے وہاں پر بہت خوبصورت عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں سڑکیں باغات اور پارک بھی دیدہ زیب ہیں حقیقت یہ ہے کہ آج کا کابل ظاہر شاہ کے دور سے کہیں بہتر ہے لیکن کابل کے لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے کیونکہ قطر معاہدہ کے بعد طالبان کسی وقت بھی افغانستان پرہلہ بول سکتے ہیں اور ایک بار پھر اسے تاراج کرسکتے ہیں۔1980ء کے نام نہاد جہاد کے بعد جب امریکہ افغان عوام کو بے یارومددگار چھوڑ کر چلاگیا تھا تو اس ملک کے خونخواروارلارڈ نے کابل پر وحیشانہ حملہ کیا تھابی بی سی کی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ ایک خونخوار ازبک جنگجو لاشوں کے ڈھیر کے اوپر بیٹھ کر مشین گن چلارہا تھا دوستم کی جوزجانی ملیشیا نے کابل کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی عجب بات یہ ہے کہ اس دوستم نے خود کو فیلڈ مارشل بنادیا ہے کابل میں مختلف لسانی گروہ ازسرنو صف بندی کررہے ہیں وہ طالبان کے حملوں کے مقابلہ کا ارادہ رکھتے ہیں اگرطالبان کو کابل کاپرامن قبضہ نہیں دیا گیا تو تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی کیونکہ طالبان اکیلئے نہیں ہونگے علاقائی طاقتیں بھی ان کے ساتھ ہونگی جو لبرل افغان قوتیں ہیں جیسے کہ اشرف غنی،حامد کرزئی وغیرہ طالبان اور انکے اتحادی سب سے پہلے انکو ہدف بنائیں گی ان کے ساتھ بھی وہی انسانیت سوزسلوک ہوگا جوقوم پرست رہنما ڈاکٹر نجیب کے ساتھ ہوا تھا کیا معلوم کہ افغانستان دوبارہ نارتھ اورساؤتھ میں تقسیم ہوجائے شمالی اتحاد عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں طالبان کامقابلہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شمالی اتحاد کے پاس کوئی احمد شاہ مسعود نہیں ہے اور نہ ہی وادی پنجشیر کے لوگوں میں اتنی قوت باقی ہے کہ وہ طالبان کا مقابلہ کرسکے۔
کابل کو1960ء سے 1980ء تک شمال مشرق کا عروس البلاد کی حیثیت حاصل تھی وہ بیروت کا مدمقابل تھا یہ خطے میں تجارت کا مرکز بھی تھا لیکن اس پر اچانک عالمی ”راکھشون“ کی نظربدپڑ گئی اسکی پوری اشرافیہ ماری گئی بڑے بڑے عالم،پروفیسر اورموسیقار یاتو مارے گئے یا فرار ہوگئے موسیقی رخصت ہوگئی ہے تمام تفریحی سرگرمیاں مفقود ہوگئیں کابل یونیورسٹی جو کہ روم اور پیرس کی یونیورسٹیوں کی طرح تھی وہ کچلاک اورقندھار کے مدارس کی طرح دکھائی دینے لگی طالبان یا اس سے پہلے وارلارڈز نے افغانستان کوقرون وسطیٰ میں دھکیل دیا یہ ہولناک دور دوبارہ آنے والا ہے خدا امریکہ اور افغانستان کے پڑوسیوں خاص طور پر طالبان کوعقل سلیم دے اگروہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو انہیں اپنے ملک کو تاراج کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ کابل ہزاروں سال میں بنتا ہے لیکن اجڑتا دنوں میں ہے۔
چونکہ پاکستان کے سیکورٹی معاملات کسی حد تک افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں اس سلسلے میں بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں قیام امن اور پاکستان کو سیکورٹی خدشات سے بچانے کیلئے ایک معاملہ فہم اور وسیع ادراک رکھنے والے لیڈر کی ضرورت ہے جس طرح ٹرمپ نے چارسال میں امریکہ کابیڑہ غرق کردیا اگر اس نوع کا لیڈر پاکستان پر مسلط رہا تو پاکستان کے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوسکیں گے کیونکہ1980ء سے ابتک پاکستان میں کبھی سویلین بالادستی نہیں رہی اگرنام نہاد منتخب وزیراعظم بھی آئے تو خارجہ امور اس کی دسترس سے باہر رہے حتیٰ کہ بینظیر جیسی عالمی شخصیت کو بھی حدود قیود میں رکھا گیا ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نوازشریف نے اپنے دور میں بطور احتجاج سرے سے کوئی وزیرخارجہ ہی نہیں رکھا اگر پاکستان میں دہشت گردی کا تدراک مقصود ہے تو افغانستان کے بارے میں پالیسی تبدیلی کی جانی چاہئے اور وہاں پر قیام امن کی کوششوں میں تعاون کرنا چاہئے کیونکہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا پاکستان کی سیکورٹی کو خطرات لاحق رہیں گے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ بار بار اس ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ”ری وزٹ“ کرنا چاہئے یعنی اس کی ازسرنو تشکیل کی جائے ہر طرح کے جنگ وجدل اور محاذ آرائی سے گریز وقت کی اہم ضرورت ہے کوئی شک نہیں کہ یہ کام عوام کے حقیقی معنوں میں منتخب لیڈر ہی کرسکتے ہیں۔لہٰذا پاکستان کے منتظمین کو چاہئے کہ وہ دل بڑا کرکے ایک مرتبہ شفاف اور غیرجانبدرانہ الیکشن ہونے دیں تاکہ حقیقی لوگ پارلیمنٹ میں آسکیں اور ایک موثر حکومت تشکیل دے سکیں اگر سلیکشن نما انتخابات کے ذریعے لیڈروں کا انتخاب جاری رہا تو اس ملک کے سیاسی معاشی اور سیکورٹی بحران کبھی ختم نہیں ہوسکیں گے اب جبکہ کرونا کی وجہ سے دنیا کی معیشت زبوں حالی اور کساد بازاروں کا شکار ہے تو پاکستان کو ایک فعال اورمعاملہ فہم لیڈر کی ضرورت ہے گھمبیر مسائل کا ادراک کئے بغیر بچوں کی طرح ضد کرنا میں نہ مانوں میں نہ چھوڑوں،ماروں گا،تباہ کردوں گا کوئی سمجھداری نہیں ہے رفتہ رفتہ معاشی مسائل مزید بڑھ جائیں گے موجودہ حکومت کے دور میں کم از کم مزید دو کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں ٹیکس جمع نہیں ہورہے ہیں واحد سہارا اوورسیز پاکستانیوں کا ترسیل زر ہے جس میں کرونا کی وجہ سے کمی آنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے معاشی حوالے سے مزید پیچھے چلا جائیگا یہ جو اہم حلقوں نے گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پیش کی ہے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کوئی تو آئے اس معاملہ کو آگے بڑھائے اگرفوری طور پر نئے انتخابات ممکن نہیں تو ایک قومی حکومت قائم کی جائے تاکہ تمام قوتیں مل کر حالات کا مقابلہ کریں ملک کو بحرانوں سے شہزاد اکبر،شہباز گل،آپاں فردوس،مراد سعید،بابر ندیم اور انکے دیگر ساتھی نہیں نکال سکتے آئندہ چند ماہ کے دوران جب سیاسی ہنگامہ خیزی میں اضافہ ہوگا توزرداری کوملک میں ہونا چاہئے تھا کیونکہ نواز شریف تو پہلے سے باہر ہے لیکن کیا کریں زرداری کے ٹوٹے ہوئے دل کو تعمیرومرمت کی ضرورت ہے ویسے تو مخالفین کو باالکل یقین نہیں کہ زرداری کو کوئی سنگین بیماری لاحق ہے انکے بارے میں اتنا پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ لوگ ان کی کسی بات پر یقین نہیں کرتے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ نوازشریف سے زیادہ بیمار ہیں گزشتہ تین دہائیوں میں انہوں نے بڑے مصائب جھیلے ہیں نوازشریف اور مشرف نے 11سال تک انہیں قید سخت میں رکھا ان پر اتناتشدد کیا گیا کہ زبان تک کاٹ دی گئی اتنے مصائب سہنے کے بعد عوارض کا لاحق ہونا تو بنتا ہے خود میاں صاحب ایک سال بھی جیل نہ سہہ سکے اور بڑے ڈرامے کرکے ولایت پہنچنے میں کامیاب ہوگئے حکومت کوایک لحاظ سے خوشی خوشی زرداری کو بھی باہر جانے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ کوئی بڑا مدمقابل نہ رہے۔
اللہ جانے اگر زرداری باہر چلے گئے تو کب واپس آئیں گے اور یہ کہ ان کاٹوٹا ہوا اور روٹھا ہوا دل کب تک ٹھیک ہوجائے گا۔