تجزئیات میں تضادات کا مخمصہ۔۔

راحت ملک
سیاسی تسلسل اور ہم وار طرز عمل جب ہوتا ہے اولاً اگر کسی ملک میں آئینی نظم وضبط ہو یا آئینی مثالیٹ پسندی کی روایت کے فکری رویے رجحانات سماج میں گہرائی تک سرایت شدہ ہوں۔
دوم۔ سیاسی جماعتیں معروف معنوں میں نظریاتی اٹھان رکھتی ہوں۔محض کھوکھلے نعروں کی بجائے ریاست کے مالی سیاسی سماجی امور کی نوعیت وسمت کے متعلق واضح دو ٹوک نظری بیانیہ رکھتی ہوں جو دیگر جماعتوں سےکلیتا َ۔نہیں تو جزوی طور پر سہی مختلف ٹونظر آتا ہو۔موقف بیانیہ اور لائحہ عمل کی تفہیم واظہار کا پیرائیہ کسی بھی جماعت کو دوسری جماعتوں سے الگ یا ممتاز کرتاہو۔ ان کی شناحت افراد کے برعکس تنظیمی نظم ونسق وسیاسی منشور سے معروف ہو۔افراد کی اہمیت سے انکار نہیں کررہا میرا اصرار یہ ہے کہ افراد اپنے فکر وعمل سے پارٹی کے نظریات کی عملی تصویر و توضیح کرتے ہوں ان کی اپنی شناحت بھی پارٹی کے پروگرام کا عکس ہو نہ کہ افراد کا عکس پارٹی کی شناحت وخدوخال کا ترجمان دکھائی دے۔
مذکورہ بالا صورتحال عملاً موجود ہوتو کسی بھی شخص کے لئے جو سیاسی شد بد کا مالک ہو یہ قیاس کرنا سہل ہوتا ہے کہ کل کلاں ملک میں آئینی طور پر کیا ہونا ممکن بلکہ واجب ہے اور کسی جماعت کا درپیش مسئلہ پر کیا موقف ہوگا؟
پاکستان روز اول سے ہی آئین اور غیر مبہم دو ٹوک نقطہ ہائے نظر رکھنےوالی سیاسی قیادت وجماعتوں سے محروم رہا ہے۔آئین کی متفقہ تشکیل ملک کو دو لخت کرنے کی قیمت چکانے کے بعد ممکن ہوئی بھی تو محضساڑھے چار سال کے مختصر سے عرصہ کے لئے!! 5جولائی 1977ءکی سیاہ شب نے آمریت کے روپ میں ملک پر ایسی تاریکی مسلط کی کہ اب تک صبح پرنور کا جلال وجمال پوری آب وتاب سے طلوع ہونے سے قاصر نظر آتا ہے۔بظاہر آئین اور جمہوریت بحال ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ آئین سے ماوراءفیصلہ سازی کا مرکز کہاں ہے ؟۔جموریت کی بنیاد آزادانہ عوامی حق رائے شمار کی ہوتی ہے۔یہاں عوام کی اس مقدس امانت کو چرایا جاتا ہو وہاں جمہوریت کے علاوہ وہ سب کچھ رائج ہوتا ہے جسے عوام کی حاکمیت اعلیٰ کے منافی سمجھا جاتا ہے چنانچہ لمحہ موجود میں بھی ابہام کی گہری چادر ہر طرف تنی ہوئی ہے۔
آئین میں سینیٹ کے انتخابات کا ٹائم فریم اور طریقہ کار واضح طور پر درج ہے لیکن حکومت جمہوری رائے کے تقدس کو طشت ازبام کرنے کے درپے ہے اور سپریم کورٹ میں چلی گئی ہے کہ سینیٹ کے آمدہ انتخابات کے لئے خفیہ رائے شماری کے آئینی طریقے کو بدل کراسے اوپن اظہار کے ساتھ منسلک کردیا جائے۔یہ ابہام آئین کی کسی شق کا عطائ کردہ تو نہیں نہ ہی آئین کی مختلف دفعات کے تضاد کا شاخسانہ ہے جس کے لئے آئین پاکستان میں سپریم کورٹ کو تصریح وتوضیح یا تشریح کا اختیار دیا گیا ہے مذکورہ صدارتی ریفرنس حکومت کے ذہنی خلجان یا داخلی انحراف وعدم اعتماد کا مظہر ہے اور اب بھی صدر مملکت نے ریفرنس عدلیہ کو بجھواتے ہوئے اپنا ذہن استعمال نہیں کیا قبل ازیں جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی سپریم جوڈیشنل کونسل کو بجھوائے گئے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ کرتے ہوئے ایوان صدر نے اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کی تھی جس کا اظہار سپریم کورٹ کے لارجر بینج کے فیصلے میں واشگاف الفاظ میں ہوا تھا۔
مبہم اور غیر واضح مقاصد کی مسلسل موجودگی کا عکس موجودہ بحرانی عمل میں ذرائع ابلاغ پر اہل دانش کے تجزیات میں بھی صاف چھلکتا نظر آتا ہے۔حالیہ مہینوں میں جبکہ قومی جمہوری تحریک(پی ڈی ایم )احتجاجی تحریک منظم کررہی ہے۔متضاد خیالی اور غیر مستقل پسندی بلکہ نظریاتی بصیرت کی تنہائی جیسی بے ربطگی و اضمحلال اور ذہنی خلجان سامنے آرہا ہے مختلف آلخیال آرا کے اظہار کی آزادی کے علی الرغم یہ اصول بھی منسلک ہے کہ ظاہر کی گئی کسی بھی رائے سے اختلاف کرنے اور اختلافی رائے بیان کرنے کی ناقابل تنسیخ اجازت ہوگی اس نوعیت کے اختلافی اظہار رائے کو مباحثہ سمجھا جائے گا کسی کی تضحیک نہیں۔
20ستمبر کو ہوئی اے پی سی کے بطن سے نمو دار ہونے والی پی ڈی ایم نے جب اپنا ایجنڈا۔پالیسی اور۔حکمت عملی جاری کی حکومت کے خلاف اس کی لائی ہوئی معاشی سیاسی تباہ حالی پارلیمان جمہوریت سیاست اور وفاقیت کو لاحق خطرات کے تدارک اور معاشی سماجی انحطاط پذیری کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔حکومت کے فی الفور خاتمے اور ازسر نو منصفانہ شفاف مداخلت سے پاک عام انتخابات کے مطالبات پیش کئے تو ذرائع ابلاغ میں پی ڈی ایم کی پالیسی کے اہداف و دلائل کو یکسر نظر کرتے ہوئے اس کی احتجاجی حکمت عملی پر اعراضات وارد ہونے شروع لگے۔
اعتراضات کا سب سے بنیادی مگر غیر جمہوری وآئینی اعتراض جو نمایاں ہوا وہ تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے اسے آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دے۔کسی بھی معزز تجزیہ کار نے البتہ ملکی آئین کی کسی شق کا حوالے دیئے بغیر اپنے مندرجہ بالا استدلال کی حقانیت پر اصرار کیا۔آئین میں منتخب اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ مدت بیان ہوتی ہے لیکن وہ بھی لازمی طور پر محفوظ و طے شدہ نہیں رکھی گئی۔وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو جبکہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک پیش نہ ہوئی ہوں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا استحقاق تفویض کیا گیا ہے یہ پہلو پارلیمانی اداروں کی معینہ مدت کی ناگزیریت کی مکمل نفی کرتا ہے۔ثانوی طور پر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ معینہ مدت پارلیمانی ادارے کی طے ہے حکومت کی نہیں۔حکومت کے تسلسل وبقاکا انحصار ہاﺅس میں اسکی عددی اکثریت پر ہے اراکین اسمبلی کی اکثریت عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے کسی بھی وقت حکومت کو رخصت کرنے کا آئینی حق رکھتی ہے یہ نقطہ بھی حکومت کے لئے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے استدلال کے منافی ہے تاہم سوال یہ ہے کہ قومی جمہوری تحریک احتجاجی جلسوں کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہ رہی تھی؟۔
سینیٹ میں چیئرمین جناب صادق سنجرانی کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کیسے اور کن ذرائع سے ناکام بنائی گئی تھی یہ سب جانتے ہیں اور نادیدہ کردار سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے کے لئے اچانک نمو دار نہیں ہوا تھا۔2018ءکے عام انتخابات اور قبل از، انتخابات جوکچھ ہوا تھا وہ ملکی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے کردار وطریقہ کار کی جزئیات کے ساتھ۔چنانچہ حزب اختلاف کا یہ خیال ٹھوس حقائق کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب تک متذکرہ صدر نادیدہ قوت (احتراماً یہ لفظ لکھا ہے وگرنہ اب کچھ بھی مخفی ہے نہ ہی نادیدہ) خود کوسیاست سے علیحدہ کر کے اپنے آپ کو آئینی منصب داری کے فرائض تک محدود نہیں کرتی یرغمال شدہ پارلیمان میں آئینی ذرائع بروئے کار لاکر ان ہا?س تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ سادھ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ مسلط شدہ حکومت پر جب تک ہائی برڈ حکومت لانے والی چھتری کا سایہ موجود ہے آئینی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اس نااہل حکومت سے نجات ممکن ہے نہ ہی عوام کی زندگیوں کو لاحق بے روز گاری مہنگائی اور معاشی افراتفری کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔
پی ڈی ایم نے پرامن سیاسی جہد کے ذریعے پارلیمانی آزادی عمل کی بازیابی کی پالیسی اپنائی احتجاجی جلسوں نے بہت نمایاں طور پر اقتدار ٍایوان وحلقہ اختیار میں سراسیمگی نما ھل چل پیدا کی کچھ واضح اشارے اس متوقع فاصلے کی نشاندہی کرنے لگے جن سے یرغمال پارلیمان کی آزادی کا امکان روشن ہواچنانچہ پی ڈی ایم نے واشگاف کہا کہ حکومت دسمبر20تک گھر چلی جائے گی آر وپار کی آواز بھی سنائی دیی۔لانگ مارچ اور استعفوں کی بات بھی کی گئی یہ سب کچھ ان حالات پر منحصر تھا جسے سطور بالا میں فاصلے کی نشاندہی کرنے والے اقدامات سے تعبیر کیا گیا ہے۔بد قسمتی سے فاصلوں کے متعلق قیاس وامکان خوش گمانی وسراب نکلا اس پر مستزاد یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات سر پر آگئے یہ واضح دکھائی دینے لگا کہ تبدیلی کا وقت مارچ کے بعد نمو دار ہوسکتا ہے لہذا سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا کہ آئین کی ساخت وخدوخال کو لاحق خدشات کا موثر سدباب کیا جائے سینیٹ کی موجودہ عددی صورت سرے دست حکمرانوں کے لیے آئین میں من پسند تبدیلیوں کی راہ میں دیوار بنی ہوئی ہے اور اگر بہ عجلت پی ڈی ایم صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائے تو کیا یقین کیا جاسکتا ہے کہ وسیع طور پر سامنے آنے والے آئینی وپارلیمانی بحران کی حیاسیت کو قبول کرتے ہوئے حکومت(اور اس کے سرپرست)ضمنی انتخابات سے گریز کرینگے؟ یہ وہ تاریخی مرحلہ تھا جب پی ڈی ایم کو اپنی اعلانیہ حکمت علمی میں ترامیم پر مجبور ہونا پڑا۔اس سیاسی عملیت پسند بصیرت کو میڈیاتجزیات میں تحریک کی شکست۔۔باہمی داخلی اختلافات۔۔موقع پرستی اور تحریک بکھر جانے کے الفاظ سے پکارا گیا۔کیا تجزیہ کار حضرات پی ڈی ایم سے توقع رکھتے اور پسند کرتے تھے کہ وہ پرامن ذرائع ترک کر کے پر تشدد ذرائع اپنالے اور ایران جیسی شاہ مخالف جدوجہد پر کار بند ہو جائے۔؟کیا اہل قلم وحکمت سمجھتے ہیں کہ ملک پر تشدد سیاسی جدوجہد کے مظاہرے مثلاً شاہراہوں پر شہریوں اور ریاستی مشنیری کے مابین مسلح تصادم انارکی و افتراق کا متحمل ہوسکتا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہی ہوناچاہئے تو پھر پی ڈی تحریک کی حکمت عملی میں تغیر وتبدیل کو معروضی حقائق وضروریات کے تناظر میں سمجھتے ہوئے اس کا جائزہ لینا چاھیے اس پر تبرے کی بجائے تحسین کی نظر ڈالی جائے تو اس کے کثیر الجہت فوائد ملک وعوام کو ملیں گے پرامن سیاسی جمہوری جدوجہد پراعتمادبڑھے گا تو اختیار واقتدار کی تقسیم ختم ہوپائے گی پارلیمان بازیاب ہوگی تو ریاست پر عوام اقوام کا بھروسہ واعتماد اور عوامی خود مختاری کے تصورات مستحکم ہوںگے۔
تجزٰئبات میں ابہام اور تجزیہ کار کی ذہنی وفکری بے سمتی عوام کی درست رہنمائی او سمت تعین کرنے میں حائل ہوجاتی ہے
” سرو اور گھاس ” کے عنوان سے لکھے گئے خوبصورت مرصع و مرقع کالم میں علامتوں کے ذریعے جس وضاحت کے ساتھ صورتحال بیان ہوئی ہے وہ قابل داد ہے جس تضاد خیالی کی جانب میں اشارہ کررہاہوں اس کی جھلک بھی مگر اسی تحریر میں موجود ہے۔
یوں کہئے کہ محترم ومکرم کالم نگار نے خالص دودھ سے برتن لبا لب بھرنے کے بعد اس میں دو مینگنیاں بھی ڈال دی ہیں لکھتے ہیں
”آیا ایسے میں ضروری نہیں کی اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان فیصلہ کن طاقتیں ملک وقوم کی بہتری کیلئے کوئی کردارادا کریں؟ کیا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے پارلیمان کی ناکامی کا حشردیکھتے رہیںگے“
محترم سوئے ادب کی معذرت۔۔گزارش ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان عہدیداران کس بھرتے یا آئین وقانون کے تحت فیصلہ ساز قوتیں قرار پاتی ھیں ؟اعلیٰ عہدوں پر براجمان اہلکارآفیسران یاحاکم نہیں عوام کے ملازم ہیں سول سرونٹس۔۔۔ جبکہ فیصلہ و حاکمیت کا حق صرف پاکستان کے عوام کے پاس ہے جس کی صراحت و وضاحت دستور پاکستان کے دیباچے یا تمہید میں بیان کردی گئی ہے
”اظہرمن الشمس اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کابلاشرکت غیرے حاکم کل ہے اور پاکستان کی قوت جمہوریہ کو جواقتدارواختیارکی مقررہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق حاصل ہے وہ ایک مقدس امانت ہے یہ پاکستان کے عوام کی منشائ ھے کہ ملکی انتظام وانصرام کی خاطر حکمنامہ مرتب اور جاری کرے۔ ایک ایسا جمہوری ڈھانچہ قائم کیاجائے جس میں ملک کے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو ہی اقتدار واختیارات حاصل ہونگے“
پارلیمان کی ناکامی کاحشر!! تو جناب یہ سراسر لغو بات ہے اصل مسئلہ پارلیمان کی سلب شدہ آزادی عمل کی بازیابی کا ہے آپ جناب نے جن سے کردارادا کرنے کا مطالبہ کیاہے اگر وہ اصل فیصلہ کن قوت ہیں تو پھر سرو کے درخت سے گلہ کیسا؟ بہ نظر دقت جائزہ لیں تو آپ کی تحریر اور معروضی حقیقت نامہ بتانا ہے کہ پارلیمان کو مفلوج بنا کر اس کا حشر دیکھنے کیلئے ہی توسیاست میں مداخلت اور انتخابات میں انجینئرنگ کی جاتی ہے "سرو اور گھاس” والے کالم کا، اختتامیہ زیادہ تشویشناک وتوجہ کاحامل ہے۔
”پاکستانی اقتدار اعلیٰ نے اگر تاریخ میں اپنا نام روشن رکھنا ہے تو انہیں سیاسی نظام کو چلانے کیلئے ایڈوائیس اور مدد دینا ہوگی “
مجھے مرتقی یاد آگئے۔
میر کیا سادھ ہیں ہوئے جس سے بیمار
اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں۔
شاید ہم نے نئے سال کے ابتدائی پندرواھڑے میں رونماءہوئے ملکی واقعات اور واشنگٹن میں ٹرمپ کے انجام میں پینٹاگون کے کردار سے کچھ سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اسی لیے مبہم پسندی کے جنگل میں بھتکتے ہویے منزل پر پہنچے کے سپنے جاگتی آنکھوں دیکھ رہے ہیں۔