افغانستان میں قیام امن دور نظر آتا ہے

افغافغانستان میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے کو پاکستان سمیت دنیا بھرمیں میں سراہا گیا تھا، امید پیدا ہوگئی تھی کہ چالیس سالہ جنگ کا خاتمہ ہوجائے گاطالبان رہنماؤں بشمول سراج حقانی بڑی دانشمندانہ گفتگو کی جارہی تھی،ان کا کہنا تھا امریکا سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو افغان رہنما ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کیوں نہیں کر سکتے؟تمام معاملات طے کر لئے جائیں گے۔ لیکن معاہدے پر دستخطوں کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ افغانستان کے نومنتخب صدر اشرف غنی نے معاہدے کویہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دیا:”طالبان سے حکومت نے کوئی معاہدہ نہیں کیا یہ معاہدہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیا ن ہوا ہے حکومت طالبان قیدی رہا کرنے کی پابند نہیں“۔افغان صدر نے جو کچھ کہا حقیقت پر مبنی تھالیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ امریکا نے جنہیں 20سال قبل دہشت گرد ڈیکلیئر کیا اورعالمی امن کے لئے شدید خطرہ قرار دیاتھا انہی کے ساتھ نہ صرف طویل مذاکرات کئے بلکہ ان مذاکرات کا اختتام ایک دستایز کی صورت ہوا۔امریکی حکومت اپنے معاہدے پر عمل درآمد کے لئے مالیاتی ہتھیار استعمال کر سکتی ہے،افغان حکومت امریکی امداد کے بغیر نہیں چل سکتی کل مجبور ہو جائے گی بہتر ہے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی اختیار کرے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ مگر بدقسمتی سے حکومت اور افغان طالبان کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے گئے اور کوئی تصفیہ تاحال نہیں ہو سکا۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔جسے موقع ملتا ہے دوسرے کو جانی و مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔داعش بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔سکھوں کے قدیم گرودوارے پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اگلے روز ایک جھڑپ میں 7عسکریت پسند مارے گئے جبکہ کمانڈر سمیت متعدد زخمی بھی ہوئے اس سے پہلے سرکاری اہلکار مخالفین کے حملے کاشکارہوئے تھے۔اب حکومت نے کورونا سے بچاؤ کے لئے افغان طالبان نے ہزاروں قیدی رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ان میں افغان طالبان شامل نہیں،جواب طالبان نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کرنیسے انکار کردیاہے۔طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ مذاکراتی ٹیم میں تمام افغان دھڑوں کی نمائندگی نہیں ہے۔الغرض یہی دیکھا جا رہا ہے کہ امریکی معاہدہ بے نتیجہ ہوتا جا رہا ہے۔بالآخر امریکہ مالیاتی ہتھیار استعمال کر ے گا اور حکومت اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی۔حکومتی رٹ افغانستان کے بڑے حصے میں موجود نہیں حکومت امریکی سہارے کے بغیر نہیں چل سکتی۔اسے معلوم ہونا چاہیئے امریکاتمام حقائق سے باخبر ہے۔امریکا جانتا ہے کہ اشرف غنی افغانستان میں اپنے بل پر تمام ذمہ داری نہیں سنبھال سکتے؛یہ توکورونا وائرس کا بھلا ہو جس نے تمام دنیا کو اپنے پیچھے لگا رکھا ہے،صدراشرف غنی عوامی اور عالمی دباؤ سے بچے ہوئے ہیں۔عام آدمی کا ذہن کورونا وائرس کے حوالے سے فکر مند ہے برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے ڈائریکٹر اسٹیفن پووس نے خبردار کیا ہے کہ اگر برطانیہ میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں 20ہزار تک رہیں تو یہ اس وبا کے خلاف بہت بڑی کامیابی ہوگی۔عالمی بینک 160ارب ڈالرجبکہ آئی ایم ایف5000ارب ڈالر کورونا سے متأثرہ ممالک میں امداد کے طور پر تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی میں لگا ہوا ہے۔صرف بیماری مسئلہ نہیں رہی، عالمی معیشت بھی تبا ہو چکی ہے۔ منافع بخش ایئر لائنز مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔ تمام کاروبار تہس نہس ہو چکا ہے۔امریکا 2ہزار ڈالر کورونا کے نقصانات پورے کرنے کے لئے مختص کر چکا ہے۔مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 17ہزار سے تجاوز کر چکی ہے،2ہزار سے زائد ہلاکتیں بھاری بوجھ ہیں۔ایسے حالات میں افغانستان کے معاملات کے لئے نہ اس کے پاس وقت ہے اور ہی اس میں اسے کوئی دلچسپی رہی ہے۔یہ جنگ میں اسے بیش بہا نقصان ہوا ہے۔جانی و مالی نقصان کے علاوہ اس کی ساکھ کو بھی دھچکہ لگا ہے۔صدراشرف غنی خود کو امریکی صدر کی جگہ رکھ کر سوچیں کیا وہ ان مسائل کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے یا افغانستان کے ناز نخرے اٹھاتے؟ پوری دنیا پریشان ہے۔ ہر ملک اپنی لاشیں اٹھا رہا ہے۔اس تباہ کن بیماری کا تاحال کوئی علاج کسی ملک میں دریافت نہیں ہو سکا۔ نئی بیماری سب کے لئے یکساں طور پر پریشان کن ہے۔ویسے بھی ہر ملک کو اپنے مسائل خود حل کرنا ہوتے ہیں۔افغان حکومت کو چاہیے کہ امریکی مشکلات میں اضافہ نہ کرے افغان طالبان سے کئے گئے امریکی معاہدے کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھیں امریکی مشکلات میں کمی لائیں ورنہ ان کی اپنی مشکلات اس قدر بڑھ جائیں گی کہ عزت بچانے کا یہ موقع بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔امریکا افغانستان میں مزید نہیں رکے گا۔ افغان عوام نے گزشتہ 40 برسوں میں بہت دکھ جھیلے ہیں، 30لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ افغانستان میں امن قائم ہونے دیں تاکہ لاکھوں مہاجرین اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔معمولی باتوں پر آپس میں لڑائی نہ کریں عوام کے مصائب کم کرنے کا راستہ نکالا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں