براڈ شیٹ ………… نہیں چارج شیٹ

تحریر: راحت ملک
نئے سال کی شروعات پاکستان میں سیاسی چپقلش اور صف بندی و طریقہ کار میں اتھل پتھل سے ہوئی ہے متعدد اسکینڈل سامنے آئے بجلی کا بریک ڈاؤن، ایل ین جی کی قلت، مہنگے داموں خریداری مقدار اور طلب میں عدم توازن، براڈ شیٹ اور پھر ملائیشیاء میں پی آئی اے کے طیارے کی ضبطگی۔
لیکن میں بحث کا آغاز آئین ملکی سیاسی ڈھانچے میں وسیع المعنی گہری اثر پذیری کے حوالے سے کرونگا حکومت نے بعض دلائل کی بناء پر سینیٹ کے مجوزہ انتخاب شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کا لائحہ عمل اختیار کرنے کیلئے عدالت سے رہنمائی لینے کا انوکھا فیصلہ کیا ہے کہا جا رہا ہے کہ اراکین اسمبلی ہارس ٹریڈنگ میں مبتلا ہو کر پارٹی فیصلوں کے برعکس ووٹ کاسٹ کرتے ہیں وفاقی حکومت جو سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی بنیادی درخواستگار ہے اتحادی حکومت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت ہی کہلاتی ہے اتحادی تو مطلوب عددی اکثریت پوری کرنے والے اضافی تاہم اگر کردار ہیں جو بنیادی فیصلہ سازی میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتے مردم شماری کے سوال پر ایم کیو ایم کا نقطہ نظر احتجاج اس کی عمدہ مثال ہے علاوہ ازیں پنجاب کے پی اور بلوچستان کی حکومتوں نے عدلیہ میں اس ریفرنس کی حمایت کی ہے تینوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی واحد یا بذریعہ اتحادی جماعتیں حکومتیں ہیں بلوچستان حکومت میں اہم عددی حیثیت باپ کے پاس ہے جس کی ساخت اور سیاسی ثقافت مشکوک اطاعت گزار اور گروہی مفادات کے گرد گھومتی ہے چنانچہ صورتحال سے نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور باپ اپنے اراکین صوبائی اسمبلی پر عدم اعتماد اور تحفظات کی شکار ہیں تین سال قبل بھی کے پی میں پی ٹی آئی اراکین نے پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کی تھی اس بار بھی ایسے ہی تحفظات کا نمایاں خدشہ ہے سادہ الفاظ میں کہا جائے تو دونوں جماعتیں زیادہ واضح اور ببانگ دھل یہ تسلیم کر رہی ہیں کہ ان کے اراکین صوبائی اسمبلی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہو سکتے ہیں گویا کہ وہ کردار اور سیاسی انداز و پیوستہ مفادات کی وجہ سے آئین کی دفعات 62 اور63 کے معینہ معیار پر پورے نہیں اترتے یہ شبہ پی ٹی آئی کے صدارتی ریفرنس کا ایک انسانی منطقی نتیجہ ہے کسی کی ذاتی رائے نہیں الیکشن کمیشن نے ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں تحریری طور پر اپنا موقف جمع کرایا ہے بادی النظر میں یہ موقف آئینی مطابقت سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے عدلیہ آئین ابہام و تضاد کے متعلق تشریحی وضاحت کی مجاز ہے واضع آئینی احکامات و دفعات کو بدل سکتی ہے نہ ان کو ختم کرنے کی مجاز ہے قانونی حلقے بھی حکومتی موقف کو کمزور قرار دے رہے ہیں فرض کریں کہ سپریم کورٹ نے یہ صدارتی ریفرنس مسترد کر دیا تو اس کے کیا نتائج ہونگے؟ قانونی سطح پر کچھ نہیں بدلے گا لیکن حکومت کی قانونی ماہرین کی ٹیم کی ساکھ ملیامیٹ ہو جائیگی اس ریفرنس کی صلاح دینے والے بذریعہ عدلیہ اپنے کاندھوں پر لادا ہوا بوجھ اتارنے کی سعی تو نہیں کر رہے تھے؟ صدارتی ریفرنس کے استرداد سے حکومت ختم نہیں ہوگی کیا اس کی ساکھ ایسی جماعت کے طور پر اس کے سرپرستوں کیلئے سوالیہ نشان نہیں بنے گی جو معاشی سیاسی قانونی اور سفارتی اموار کی درست انجام دیہی سے قطعاً قاصر ہے؟ اگر یہ خیال غلط نہیں تو کیا یہ گمان ترین قیاس ہوگا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور سیاست اختتام پذیر ہونے کے خدشے کی زد میں ہے؟ اور فارن فنڈنگ کیس اس مقصد کیلئے تیر بہدف نسخہ ثابت ہوگا جسے چھ سال تک بچا بچا کر رکھا گیا تھا؟ یہ بھی واضح رہے کہ الیکشن کمیشن اس کیس میں حقائق کی چھان پھٹک کے بعد جو نتائج اخذ کرے اگر ان میں کسی جماعت پر خلاف قواعد غیر ملکی فنڈ وصول کرنے کی تصدیق کرے تو بھی مذکورہ جماعت کے خلاف مزید تادیبی کارروائی کرنے کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہے شاید یہ صوابدیدی اختیار نہ ہو یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے خلاف فائینڈنگ سامنے آئیں تو مرکزی حکومت اپنی جماعت پر قدغن کیلئے کارروائی نہیں کرے گی لیکن ایسا ہونا بعید از قیاس ہے اولا ً تو یہ کہ تادیبی کارروائی کا صوابدیدی اختیار نہیں ثانیاً الیکشن کمیشن سے غالفانہ فیصلہ آنے سے حکمران جماعت کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ پر بہت دبا? آئے گا دریں حالات جہاز کے ڈوبنے کا احساس کرتے وہی جمع کرائے گئے موسمی سیاسی پرندے جان بچانے کیلئے جہاز چھوڑنے میں پہل کاری کر سکتے ہیں جس کا اثر قومی اسمبلی میں دستیاب معمولی اکثریت پر پڑے گا اکثریت تحلیل ہو جائے گی ثالثاً مخالف سیاسی جماعتیں وکلاء اور دیگر مشینری حکومتی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتے ہیں قصہ کوتاہ الیکشن کمیشن سے منفی فائینڈنگ یا فیصلہ حکومت کیلئے ضرر رساں ہو گا اور حکومت بہت دنوں تک نہ برقرار رہ پائے گی نہ ہی لعل ولیت سے کام چلا سکے گی بعید نہیں کہ دریں حالات طاقتور حلقے بھی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں۔
بروز منگل شائع ہونے والے کالم، تجزئیات میں تضادات کا مخمصہ۔ میں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے تیززوابھار اور پھر اس میں آنے والے ٹھہراؤ کے وقفے کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ نہ لینے پر مبنی اقدامات کی خامی کی نشاندہی کی تھی 14دسمبر2020ء کو شائع ہوئے صحافتی سروے /فیچر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے سینیٹ انتخابی عمل کو حکمران حلقے کیلئے کھلا میدان مہیا کرنے کی مخالفت کی تھی۔
گزشتہ کالم میں طوالت کے باعث تجزئیوں میں موجود تضاد کی ضمناً نشاندہی کی تھی مناسب ہوگا اس کی ذرا تفصیل بھی لکھ دی جائے ایک نمایاں تاثر بحوالہ ذکر کالموں میں جناب عمران خان کے بارے ابھر کر یوں سامنے آتا ہے کہ وہ منتخب شدہ نہیں بلکہ کسی کی کٹھ پتلی ہیں ساتھ ہی ساتھ انہی تجزئیوں میں عمران خان کو ہٹ دھرم طاقتور وزیراعظم کی صورت میں بھی بیان کیا جاتا ہے بے بسی اور کٹھ پتلی بیان کرنے والے دلیل کے طور پر جناب میاں نواز شریف کی بیرون ملک برائے علاج روانگی سے لے کر جناب شاہد خاقان عباسی کے حالیہ دروہ امریکہ کا حوالہ دیتے ہیں کہ وزیراعظم کی منشاء و رضا کے برخلاف ان فیصلوں پر عملدرآمد ہوا تھا اسی ضمن میں چند ماہ پیشتر لاہور جیل میں جناب شہباز شریف کے ساتھ محمد علی درانی کی ملاقات کا بھی ذکر کیا جاتا ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب ہر حال میں مذکورہ ملاقات کو روکنا چاہتے تھے مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہے بیان کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کئی مواقع پر وزیراعلی پنجاب جناب عثمان بزدار کو بدلنے کیلئے دباؤ ڈال چکی ہے مگر اس حوالے سے وزیراعظم اپنے عزم پر قائم رہے باوجود دباؤ اتحادیوں کی خفگی اور ناقص کارکردگی جناب بزدار کی رخصتی ممکن نہیں ہو پا رہی کہتے ہیں کہ ان کا کلہ بہت مضبوط ہے جو شاید راونیت جیسے کسی روحانی رشتے سے بندھا ہوا ہے تو سوال یہ ہے کہ ایک کٹھ پتلی وزیراعظم ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیونکر کر پاتا ہے؟ واقعاتی مثالیں مزید رقم کی جا سکتی ہیں تھوڑے کو ہی حوالے کیلئے مناسب سمجھنا چاہئے۔
براڈ شیٹ کیس جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے یہ کیس ہمارے نظم حکمرانی کی بوسیدگی کو عمدگی سے نمایاں کرتا ہے جسے ذاتی گروہی محکمانہ جاتی مفادات اور کوتاہیوں نے مزید کمزور کر رکھا ہے۔
کہا گیا ہے کہ براڈ شیٹ کو کی گئی ادائیگی میں 1.5 ملین ڈالر کی رقم نواز شریف کے ایون فیلڈ فلیٹس کے زمن میں ادا ہوئے ہیں یہ بہت طرصدار دروغ گوئی ہے نیب اور براڈ شیٹ کے درمیان کسی پاکستانی کی مخفی شدہ جائیداد و اثاثوں کی نشاندہی پر رقوم کی تقسیم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا بلکہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک موجودہ اثاثوں کی ضبطگی سے حاصل ہونے والی دولت کی باہمی تقسیم کی شراکتداری کا فیصلہ ہوا تھا چنانچہ اگر جناب شہزاد اکبر کے اس دعوے کو تسلیم کیا جائے کہ کاوے موسوی کو دی گئی 28ملین ڈالر کی رقم میں نواز شریف کے اثاثہ جات کی نشاندہی کرانے پر 1.5 ملین ڈالر بطور فیس و جرمانہ ادا کیا گیا ہے تو پھر بتایا جانا چاہئے کہ نواز شریف و دیگر افراد جن کے نام خود نیب نے براڈ شیٹ کو دیئے تھے ان کے غیر قانونی اثاثہ جات سے پاکستان کے قومی) نیب نہیں (خزانے کو 80فیصد شراکت کے اصول پر کتنی رقم موصول ہوئی ہے؟ حالانکہ ایون فیلڈ کے فلیٹس 1999سے شریف فیملی کے زیر استعمال ہیں چونکہ نیب نے جو 200ا فراد کی جو فہرست دی تھی ان میں نواز شریف فیملی کا نام موجود تھا لہذا براڈ شیٹ نے اس معلوم شدہ اثاثے کو نیب کے بیان کے مطابق کرپشن سے بنایا گیا اثاثہ تصور کیا تو لندن کی عدالت میں ایون فیلڈ فلیٹس کو اٹیچ کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا کہ اول تو یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ مذکورہ فلیٹس کرپشن یا بد عنوانی کی رقم سے خریدے گئے ہیں ثانیاً یہ فلیٹس میاں نواز شریف کے نہیں بلکہ ان کے بچوں کی ملکیت ہیں جو برطانوی شہری ہیں میاں نواز شریف نے اسی پس منظر میں عدالتی فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دیا تھا لیکن ہمارے درباری وزراء اور ترجمانوں نیز میڈیا مدیرین نے اس پر میاں نواز شریف پر تنقید کی جو قانونی اور عقلی تقاضوں سے قطعاً ہم آہنگ نہ تھی۔
19جنوری کو کابینہ کی تشکیل دی گئی سہ رکنی وزراء کمیٹی نے براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات اور حقائق کی کھوج لگانے یا مانیٹرنگ کے غیر جانبدارانہ فرائض بجا لانے کی بجائے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں معاملہ کا سارا گند اور بوجھ نواز شریف پر ڈالنے کی کوشش کی ہے یہ پریس کانفرنس وزارتی مانیٹرنگ کمیٹی کی جانبداری کی بڑی مثال ہے چنانچہ اس کمیٹی کی رپورٹ مرتب ہونے،کرپشن کئے جانے سے قبل ہی مشکوک و متنازعہ ہو گئی ہے۔
اگر براڈ شیٹ کو کی گئی ادائیگی اگر بقول حکمران اس این ار آو کی قیمت و تلافی ہے جو نواز شریف و دیگر کو دیا گیا اس دعوے سے جو بات ثابت ہوتی ہے کہ متذکرہ صدر این آر او کا بڑا ملزم آمر پرویز مشرف تھا جس نے مخصوص200افراد کی فہرست دی پھر اس میں سے اطاعت اختیار کرنے والے پناہ مانگنے والوں کے معاملات ختم کر کے انہیں آمریت کا مفموا ساتھی بنا لیا یاد رہے اس وقت جناب عمران خان اور پی ٹی آئی آمر پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار سنگھاسن پر موجود تھی جسے پرویز مشرف کے فیصلوں سے بری الذمہ کئے سمجھ لینا چاہئے؟