تحریک انصاف کو معجزے کا انتظار

تحریر: انور ساجدی
راولپنڈی ایک تاریخی شہر ہے اور گزشتہ تین ہزار سال سے آباد ہے اس لئے وہاں کے تھنک ٹینک اسکالرز اور تھیوری ٹیشن بہت دور کی سوچتے ہیں اورزیادہ ذہین ہیں اسکے برعکس اسلام آباد ایک نیا شہر ہے جو قدیم دور کے ہندو کھنڈرات اور بن مانس لینے والے پروتہوں کے آثار پر آباد کیا گیا اس لئے یہاں پر جو سیاسی حکمران ہیں ان کی سوچ محدود اورمقابلہ کی صلاحیت سے عاری ہے چنانچہ جب تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں رنگے ہاتھوں پکڑی گئی توراولپنڈی کے بہت دور سوچنے والوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ دیگرجماعتوں کو بھی اسی طرح کے کیس میں پھنسا کر الجھایا جائے تاکہ اگران کی پسندیدہ جماعت آؤٹ ہوجائے تو باقی جماعتیں بھی اپنا وجود برقرارنہ کرسکیں۔
ہم نے بچپن میں پڑھا تھا کہ عظیم حکمران چندرگپت موریہ کے مشیر اعلیٰ چانکیہ ایک شیطان صفت چالاک آدمی تھا ہماری درسی کتب لکھنے والوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اصل نام چناکیہ تھا چانکیہ نہیں چندرگپت کے دور میں ٹیکسلا پورے خطے کا دارالحکومت تھا اور راولپنڈی صرف مذہبی عبادات کیلئے مخصوص تھا دونوں شہروں کے درمیان صرف40کلومیٹر کافاصلہ ہے انگریزوں نے جب افغانستان پرحملہ کرنا تھا تو انہوں نے اس کے لیے راولپنڈی کاانتخاب کیا یہیں پر انہوں نے گریژن بنایا اور افغانستان پر کئی حملے کئے جس کے نتیجے میں موجودہ صوبہ پشتونخوا کوافغانستان سے کاٹ کر ہندوستان کاحصہ بنایا۔میراخیال ہے کہ اپنے عہد کے عظیم اسکالر چناکیہ کے ہردور میں راولپنڈی پراثرات رہے ہیں شائد آج بھی ہوں لیکن شائد ان کے افکار اور حکمران کی حکمت عملی فی زمانہ کارگر نہیں ہے۔
ان کا ایک مقولہ ہے کہ
آپ معصوم یا بے گناہ لوگوں کو بلاوجہ
سزادے کر اپنادشمن بناتے ہیں اوریہی لوگ
آپ کی شکست کا باعث بن جاتے ہیں
6سال قبل جب اکبرایس بابر نے تحریک انصاف کو ملنے والی غیر ملکی عطیات کی خردبرد کا کیس عدالتوں میں دائر کیا تو عمران خان انکو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں تھے اور انہیں پارٹی کا ایک معمولی ابتدائی ممبر سمجھتے تھے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بابر نے ایسا کام کیا کہ شکست عمران خان سے بس چند قدم دور ہے انہیں اس کیس سے صرف راولپنڈی کا کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے اگرکسی معجزے نے عمران خان کو نہیں بچایا تویہی معجزہ دیگرتمام یااکثرجماعتوں کوگرداب میں پھنسا دے گا اس کے نتیجے میں ایک آئیڈیل صورتحال جنم لے گی یعنی خود بخود ایوب خان کاایبڈو قانون نافذ ہوجائے گا جس سے تمام سکہ بند جماعتیں نیست ونابود ہوجائیں گی ایک دوست نے تو جہاں تک لکھا ہے کہ اگر یہ مفروضہ سچ ثابت ہوا تو اگلے انتخابات1985ء کی طرح غیرجماعتی بنیادوں پرکرنے پڑیں گے لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ منصوبہ سازوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ تحریک انصاف،پی پی،ن لیگ،جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی آؤٹ ہوجائیں مولانا کیخلاف دیرینہ الزامات کے تحت تحقیقات شروع کردی گئی ہے غالباً یہ صلاح مولانا شیرانی نے دی ہوگی کئی سال پہلے یہ الزام لگا تھا کہ مولانا کو قذافی کویت کے امیر اور یو اے ای سے امداد ملتی ہے لیکن اس الزام کی کبھی تحقیقات نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی نے اسے سنجیدہ لیا لیکن اب جبکہ مولانا حکومت مخالف تحریک کو لیڈ کررہے ہیں تو سوچا جارہا ہے کہ انہیں سبق کیسے سکھایاجائے اس مقصد کیلئے نیب نے ان کا کھاتہ کھول دیا ہے ان پر اسی طرح کے الزامات ہیں جسے حکومت سے معزولی کے بعد ڈاکٹر مالک اور میرحاصل خان مرحوم پر لگائے گئے تھے اور پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ پنجاب میں ان کی اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ معاملہ دب گیا نیب کا الزام ہے کہ مولانا کی ڈی آئی خان ملتان،بنوں اور اسلام آباد میں اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں تحریک انصاف والوں نے حال ہی میں تڑکا ڈالا ہے یہ جائیدادیں مولانا نے فارن فنڈنگ سے بنائی ہیں اگرچہ زرداری پرطویل عرصہ سے نیب کے ریفرنس دائر ہیں لیکن تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو عرضی گزاری ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے بھی فارن فنڈنگ حاصل کی ہے لہٰذا ان کے خلاف بھی انکوائری کروائی جائے الیکشن کمیشن کی چابکدستی دیکھئے کے6سال سے زیرالتواتحریک انصاف کا کیس ابھی تک نہیں نمٹایا لیکن اعلان کیا ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی پرالزامات کی تحقیقات تیزی کے ساتھ جاری ہے حالانکہ جو کیس6سال سے التوا میں ہے اصولاً اس کا فیصلہ پہلے ہوجاناچاہئے لیکن لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک ساتھ یا یکے بعد دیگرنے تحریک انصاف کی حریف جماعتوں کاقلع قمع کرنا چاہتا ہے کئی سال پہلے کی بات ہے زرداری نے پیپلزپارٹی کے ساتھ پارلیمنٹرین کے نام سے ایک الگ جماعت بھی رجسٹرڈکروائی تھی وہ اس جماعت کے صدر اور راجہ پرویز اشرف سیکریٹری ہیں جبکہ بلاول پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور نیئربخاری سیکریٹری ہیں اب پتہ چلا ہے کہ زرداری نے ایسا کیوں کیا تھا ان کا خیال ہے کہ ان کی ایک جماعت بچ جائے گی ہوسکتا ہے کہ زرداری نے بھی راولپنڈی کا پانی پیاہو اور ٹیکسلا کے چناکیہ کی شہرہ آفاق کتاب پڑھی ہو ویسے بھی زرداری نے شاہ اللہ دتہ کے مقام پر جوہزاروں ایکڑ زمین حاصل کی تھی اسکی حدود ٹیکسلا سے جاکر ملتی ہیں کیونکہ شاہ اللہ دتہ کے قریب مارگلہ ہلز کاسلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور ٹیلوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اگرچہ راولپنڈی کے دانا ضرور عدالتوں میں یہ کہیں گے کہ دونوں جماعتوں کے سربراہ زرداری ہیں لہٰذا دونوں کو کالعدم قراردیاجائے لیکن زرداری بھی بھرپور قانونی مقابلہ کریں گے اور آسانی کے ساتھ ہارنہیں مانیں گے ویسے بھی الیکشن کمیشن جو بھی فیصلہ دے متاثر پارٹیاں اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گی اور آئندہ انتخابات تک زندہ رہنے کی کوشش کریں گی ان جماعتوں کا خیال ہے کہ صورتحال2023ء تک تبدیل ہوجائے گی جو بھی ہو اتنی دلچسپ صورتحال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی مولانا کا الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے لہجہ مزید سخت تھا جبکہ مریم بی بی نے براہ راست الزام لگایاکہ تحریک انصاف نے اسرائیل اور بھارتیہ جتنا پارٹی کے ایک لیڈر سے فنڈ وصول کئے ہیں جہاں تک ریلی کا تعلق ہے تو پیپلزپارٹی نے دل میں چور کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کی جبکہ مسلم لیگ ن تنظیمی کمزوری کی وجہ سے زیادہ لوگ نہیں لاسکی لاہور میں بھی اسکے ساتھ یہی ہواتھا مریم بی بی کو ان دوجلسوں کوسامنے رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا چاہئے راولپنڈی جو ن لیگ کا گڑھ ہے وہاں سے پارٹی کارکنوں کا نہ آنا اشارہ ہے کہ اس پارٹی کی قیادت میں کچھ گڑبڑ ہے اور اندر سے شکست وریخت کی شکار ہے کسی کو معلوم نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کن کا پیغام لیکر نوازشریف کے پاس گئے تھے اور کیا جواب لیکر واپس آئے اور کس کوپہنچایا میراخیال ہے کہ ن لیگ کے لیڈر مریم نواز کو اندھیرے میں رکھ رہے ہیں کئی لیڈروں کاراولپنڈی آنا جانا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ وہاں سے ہدایات لے رہے ہوں اور کوئی صلح وصفائی کا کام کررہے ہوں اسی طرح پیپلزپارٹی کی بھی دوغلی پالیسی ہے بلاول نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج میں حصہ نہیں لیا اور عمرکوٹ میں پارٹی کی جیت کا جشن منایا حالانکہ اس جشن سے زیادہ ضروری تھا کہ وہ اسلام آباد کے احتجاج میں شرکت کرتے سوال یہ ہے کہ یہ عمل وفاداری بشرط استواری تو نہیں تھا یعنی دونوں جماعتوں سے درپردہ رابطے جاری ہیں۔لیکن بچے گا کوئی نہیں جو سیاسی طاقتیں براہ راست چیلنج دے رہی ہیں ان سے تو بہت طریقہ سلیقہ سے نمٹنے کی تیار کی جارہی ہے کئی جلسوں اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے بعد دمادم مست قلندر کرنا پڑے گا ہوسکتا ہے کہ زرداری اس وقت عدم اعتماد کی تحریک لانے کا مشورہ دیں لیکن اگرتحریک انصاف کو سینیٹ کے الیکشن میں کامیابی ملے تو اس کے بعد تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان نہیں ہے اگرپی ڈی ایم کی قیادت میں دم خم ہے تو اسے صرف دمادم مست قلندر کاراستہ اختیار کرنا پڑے گا اس سے آریاپار ہوگا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بندر نچوانے والی ڈگڈگی بجارہے ہیں اور سیاسی رہنما سوچے سمجھے بغیر ناچ رہے ہیں تماشہ چونکہ دلچسپ ہے اسے جاری رہنا چاہئے اورتبدیلی کیلئے راولپنڈی سے آنے والے معجزوں کاانتظار کرنا چاہئے موجودہ حکمرانوں کا مقابلہ توصرف چنانکیہ کوٹلیہ جیسا چالاک آدمی ہی کرسکتا ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں