گڈ نیوز

تحریر : جمشید حسنی
کافی دنوں کے بعد ایک خبر اچھی لگی گیس کے لئے بیس نئے کنوؤں کی کھدائی کے لئے BIDہوگئی ہے 71ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی سمندر میں کھدائی ہوئی کچھ نہ ملا گیس کے لئے بس الزامات ہیں سندھ کہتا ہے گیس پیدا کرتا ہوں ملتی نہیں وفاق کہتا ہے ہم صرف 200ملین کیوبک فٹ لیتے ہیں زیادہ کھپت پنجاب کی ہے جو ملکی پیداوار کا 53فیصد حصہ استعمال کرتا ہے۔نیپال کے کوہ پیماؤں نے K-2کی8611میٹر اونچی چوٹی سر کر لی ہے ہماری موت پر اثر نہیں پڑا کہتے ہیں سیاحت کو فروغ ملے گا سیاحت کو فروغ امن وامان کی بہتر سہولیات کی فراہمی سے حاصل ہوگا خطے میں آج ہمارا ملک مہنگا ہے۔لوگ سری لنکا،مالدیپ،نیپال،بھوٹان کا رخ کرتے ہیں آج کل ویسے بھی کرونا ہے عالمی فضائی ٹریفک 67فیصد کم ہوگئی ہے پی آئی اے کے طیارے کو اقساط کی عدم ادائیگی پر ملائیشیا میں روک دیا گیا۔مختلف ممالک نے کرونا کی وباء کے خطرے کے پیش نظر داخلہ پر پابندی کررہی ہے اس بار حج بھی نہ ہوسکا 20لاکھ نوکریوں کا اجتماع ہوتا ہے۔شمالی علاقے خوبصورت ہیں مگر سڑکیں بین الاقوامی معیار کی نہیں یورپ امریکہ میں سرمائی کھیل ہوتے ہیں۔ہم بس ایک کرکٹ وہ بھی روبہ زوال مانی ہوں گے،سیٹھی ہوں گے،سیٹھی صاحب عالم شباب میں ترقی پسند تھے وہ اور طارق عزیز بلوچستان میں گوریلا جنگ کے لئے بلوچ آج بھی خوار ہے۔طارق عزیز لندن چلے گئے 1954میں گیس پید اہوئی کوئٹہ کو گیس ضیاء الحق کے فوجی دور حکومت میں کویت فنڈ سے ملی گیس پنجاب کے لئے ہے۔ترقی پنجاب کی اب شیخو پورہ ہے۔گوجرانوالہ موٹر وے بنے گی یہاں کچھ نہیں انگریز کے دور کی کوئٹہ تفتان ڈیرہ اسماعیل خان کوئٹہ اور بس تارکول کا پلستر کردیا جاتا ہے۔کہتے ہیں مزدوروں کے لئے کارڈ بننے جارہے ہیں مہنگائی تو بدستور قائم ہے پہلے احساس کارڈ ہے صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ ہے اسی کی تصویر بنا کارڈ کو تحریک انصاف کاجھنڈا بنادیا گیا۔ملک میں کرونا ویکسین نہیں آئی وزیروں مشیروں کے متضاد بیانات فواد چوہدری اور اسد عر کہتے ہیں آگئی صحت کے مشیر ڈاکٹر فیصل کہتے ہیں کسی ملک سے خرید نہیں ہوئی۔سندھ حکومت کہتی ہے اسے ویکسین خریدنے کی اجازت دی جائے ویکسین آبھی جائے قیمت طے ہونی ہے۔صوبوں کو فراہمی کا مسئلہ ہوگا یہاں تو عشروں سے پولیو مہم کامیاب نہ ہوسکی امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں واویلا ہے کہ ریاست گورنر ویکسین کی فراہمی میں سستی برت رہے ہیں۔حکومت ویکسین کی مفت فراہمی کے بارے میں خموش ہے۔حزب اختلاف کہتی ہے حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو فائدہ دینا چاہتی ہے۔حکومت نے اسکول کھولنے کا اعلان کردیا ہے بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہوا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ تعلیمی ادارے کھولنے سے اگر ہدایات پر عمل نہیں ہو ا تو خدانخواستہ دباؤ بڑھ نہ جائے
کراچی میں دوبارہ مردم شماری کا واویلا ہے۔حکومت پہلے مردم شماری چھ سال دیر سے کروائی مردم شماری پر بھاری اخراجات اٹھتے ہیں اگر کراچی کی آبادی واقعی تین کروڑ ہے تومطلب ہوگا پارلیمنٹ میں نمائندگی بڑھانی ہوگی۔فاٹا اور کے پی کے کے بھی تحفظات ہیں رہا بلوچستان ہم صابر لوگ ہیں خرگوش نے کہا یہ کیا کہ شیر بادشاہ ہے شیر نے کہا اپنے ناخن اور دانت دکھاؤ۔ہاتھی اور چوہے کا بچہ کھیل رہے تھے چوہے نے پوچھا تمہاری عمر کیا ہے ہاتھی کے بچے نے بتلایا چھ ماہ چوہے کے بچے سے اس نے پوچھا تمہاری عمر کیا ہے اس نے کہا عمر تو میری بھی چھ ماہ ہے مگر صحت خراب رہتی ہے۔
بلوچستان کوئلہ کی کانیں بند ہیں۔وزیراعظم فوج کے سربراہ نے لواحقین کے سر پر ہتھ رکھا تسلی دی اور کیا چاہیے۔کہتے ہیں ملزم پکڑے گئے یہ مت پوچھیں۔
وزیراعظم فرماتے ہیں امریکہ میں نو منتخب صدر کو حلف سے پہلے فوجی معاملا ت پر بریفنگ دی جاتی ہے۔محترم کس نے گلہ کیا وہ تو حزب اختلاف کہتی ہے نالائق نااہل اب تو آپ کو کابینہ کی میٹنگیں کرتے کرتے ڈھائی سال گذر گئے معلوم نہیں اب انتظامی امور کی انجام دہی میں کیا کمی ہے۔وزیراعظم صدر کے پاس فیصلہ کے لئے معاملات بادشاہی انداز نہیں ہوتا۔نیچے سے اوپر قواعد کے مطابق فائل چلتی ہے سیکرٹری سمری تیار کرتا ہے اس میں معاملہ کا ہر پہلو سے نچوڑ ہوتا ہے۔پھر قومی اسمبلی سینیٹ میں قومی معاملات پر بحث ہوتی ہے سپریم کورٹ ہے بیورو کریسی اپنی جگہ جوابدہ ہوتی ہے سب کچھ کن فیکون نہیں ہوتا۔بیورو کریسی سیکرٹری پچیس سال کی ملازمت تجربہ کے بعد اس عہدہ تک پہنچتا ہے وہ مقابلہ کے امتحان کے بعد بھرتی ہوتا ہے وہ سیاستدانوں کی طرح عارضی نہیں ہوتا اسے اپنی غیرت ملازمت کا خیال ہوتا ہے۔
بہر حال ڈھائی سال گذرگئے اب کم از کم آگے کے لئے تو احتیاط کریں کل پھر ووٹ کے لئے عوام کے پاس جانا ہوگا اس وقت نواز شریف خاقان عباسی پرویز اشرف یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم ہیں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی جمعیت پشتونخواہ انتخابات نہ جیت سکی بلوچستان میں جان جمالی ذوالفقار مگسی اسلم رئیسانی ڈاکٹر مالک ثناء اللہ زہری سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔جمہوریت میں شخصیات سے زیادہ پالیسی کا عمل دخل ہوتا ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔حکومت رہے نہ رہے عوام رہے گی۔