یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

تحریر: ڈاکٹر محمد اسماعیل
آج وطن عزیز میں یوں لگتا ہے کہ انسانی جان بھی سب سے سستی اور ہیچ ہو گئی ہے جس کی قدر نہ خود کی جا رہی ہے نہ ہی صنعتوں کی طرف سے انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں ملک خداداد کے مختلف حصوں میں قتل و غارت کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں جن میں ہونے والی انسانی جانوں کا نقصان ناقابل تلافی ہے ہم ایک ایسے سماج میں رہ رہے ہین جہاں ہماری روایات بہت خوبصورت ہیں مگر آج ہمارا معاشرہ ایک جرائم پیشہ معاشرہ بن چکا ہے جس کے ہاتھ میں قانون ہے وہی طاقت بن جاتا ہے آج ہم دخل اور تنقید برائے تعمیر برداشت نہیں کرتے ہم نے اپنے آپ کو کچھوے کے خول میں بند کر دیا ہے جہاں تازہ ہوا اور اچھے موسم کا گزر مشکل سے ہوتا ہے ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے قانون شکنوں کے سامنے حکومت عدلیہ مفلوج ہیں لوگ دھڑلے سے قتل کرتے ہیں ڈکیتیاں کرتے ہیں بچوں اور معصوم بچیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں تمام جرائم پیشہ لوگوں کے پولیس، انتظامیہ وکلاء سے رابطے ہیں جو ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔
آج پولیس انتظامیہ، لیویز اور عدلیہ خوش فہمی کا شکار ہیں یہ ادارے اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں یہ ادارے چاہے جو کرتے پھریں ان کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے پاکستان میں اس قسم کے خیالات کے حامی لیویز، پولیس انتظامیہ، عدلیہ بیک وقت اختیارات کی تقسیم پر لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں وجہ یہ ہے ان اداروں کی پرورش اور تربیت ایک ہی انداز میں ہوئی ہے پاکستان میں ایسے اداروں کی ایک لمبی قطار دیکھی جا سکتی ہے قانون ان کے سامنے سر جھکا لیتا ہے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے وہ خود بھی اعلان کرتے ہیں کہ کسی میں ہمت ہے تو ہمیں گرفتار کرے ہمیں نوٹس بھیجے، ہمیں کٹہرے میں لائے جن کے بھیجے ہوئے نوٹس مجرموں کی رہائش گاہوں کا طواف کرتے ہیں آج وطن عزیز میں قاتلوں نے نسل انسانی کا جو حال کیا ہے اس کے بعدضرورت ہے کہ انسانیت کے سارے رویوں پر غور کیا جائے معاشرہ اپنی ہی حرکتوں سے عبرت حاصل کرتا ہے سزا و جزا کی مثال ہمارے سامنے ہے سسٹم کے بگاڑ کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ گیارہ افراد کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر ڈالنا رونگٹھے کھڑے کر دینے کا واقعہ ہے مگر ہم پھر بھی کرسی سے چمٹے رہے اس سے زیادہ انسانیت کی تذلیل کیا ہوگی کہ محمد ؐ کے امتی کے گلے میں کتے کی زنجیر ڈال کر اسے کتے کی طرح بھونکنے پر مجبور کیا گیا اسے بندوق کی نوک پر بند ناچ کرایا جاتا ہے جاہلوں کو ہم نے حفاظت کے نام پر کلاشنکوف تھما دیئے ہیں اور اختیارات دے کر سڑکوں پر ناکے اور لیویز اور پولیس کی چیک پوسٹیں بنا دی جاتی ہیں ہم نے ہمارے ہی ملک کے دارالحکومت میں ایک معصوم بچے پر 22گولیاں برسا دیں امیر المومنین اسامہ کے گھر جا کر تعزیت تک نہ کی بلکہ اسامہ کے والد کو بنی گالہ بلوا کر اس کے غم میں شریک ہوئے قانون کے رکھوالے مجرموں کو گولیاں چلانے کی بجائے گدھوں پر گولیاں چلاتے ہیں پھر اس کی ویڈیو بنا کر وائرل کر دیتے ہیں یہ اسلامی جمہوریت پاکستان میں کیا ہو رہا ہے جہاں قانون نہ ہو وہاں لاقانونیت کا راج ہوتا ہے ریاست کمزور سے کمزور ہو چکی ہے ہمارے منتخب نمائندے بھی اپنی انا کے اسیر زیادہ نظر آتے ہیں آج قاتل ملک میں اتنے پاور فل ہوچکے ہیں کہ کسی بھی بے گناہ کو اس کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کی شناخت کو زمین بوس کر دیتے ہیں ملک میں چار عدالتیں کام کر رہی ہیں قاتل کو سزا دینے کا رسک کوئی بھی عدالت نہیں لیتی ہے 1947ء سے اس ملک میں کیا نہیں ہوا ملک دولخت ہوا اشرافیہ کے علاوہ عوام کیلئے مسائل ہی مسائل ہیں اشرافیہ کیلئے صرف تفریح ہے گیارہ گیارہ لوگ ایک دن ذبح ہو رہے ہیں ملزم واردات کر کے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں چیک پوسٹ پر لیویز پولیس کے ہوتے ہوئے وہی پرانی کارروائی پولیس کے وہی روایتی سوالات عدلیہ میں گواہ نہ ہونا زیر التواء تفتیش عدلیہ، پولیس لیویز کے ہوتے ہوئے جرائم بڑھ رہے ہیں
میڈیا کی حد تک انصاف کے نام پر شخصی آمریت قائم ہے۔اقربا ء پروری لوٹ مار پر مخالف کے ساتھ پنجہ آزمائی کی جارہی ہے کوئی بھی نظام اپنے طور پر کچھ نہیں کر پا رہا ہے نظام اپنے طور کچھ نہیں ہوتا اس کا نکھار اور کارکردگی کا انحصار لوگوں کے کردارپر ہوتا ہے جو اسے چلاتے ہیں جو کچھ ادھر ہورہا ہے وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے ہم جو ایک دوسرے کے ساتھ کررہے ہیں یہ کوئی راز نہیں ہے۔آج برقی دور ہے سب کچھ برق رفتاری سے تابناک سورج کی شعاؤں کے طرح دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہا ہے آج انصاف کے بازوؤں میں بگتے بگتے بال بیوپاریوں آڑھیوں اور انصافی منڈیوں کو چلانے والوں کا درشن گھر بیٹھے کرسکتے ہیں ہم نے آج فرقہ واریت،تعصب،لسانیت اور انتہا پسندی کے بیج بوئے ہیں جس نے قتل وغارت کا روپ دھا رلیا ہے۔سزا وجزا کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے پرتشدد گردہ قتل وغارت دہشتگردی منشیات فروشی ڈکیتی اسلحہ کے کاروباری طاقتور بن گئے ہیں۔قانون کے حکمران اور ادارے کمزور ہوتے ہوتے اب لنگڑانے لگے ہیں ریاست کے لاکھ جتن کے باوجود بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جو جنت کے پھول ہیں کا جن قابو ہی نہیں آرہا ہے۔
مچھ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے گیارہ افراد ذبح ہو ئے ہماری کان پر جون تک نہیں رینگی ذمہ داران دبئی چلے گئے کوئی اپنے کتوں کے ساتھ مشغول رہا بچے یتیم ہوئے ماؤں کے گھر بر باد ہوئے بہنوں کے سہاگ اجڑ ے کمزور کو پاؤں تلے روندنا حقوق غصب کرنا حیثیت پامال کرنا قانون کو گھر کی لونڈی لیویز انتظامیہ اورمنصفوں کا کام ہے یہ لائسنس یافتہ مافیا ہے جو سرکاری تنخواہ لے کر وردی اور اسلحہ کے بل بوتے پر انسانوں کی تذلیل کرتے ہیں انہیں اپنے محاسبے اور قانون کا رڈز نہیں انسان کو کتا بننے پر مجبور کرتے ہیں۔یہ ادارے اور قانون ایک دوسرے کو راستہ دیتے ہیں۔اشرافیہ کو چھٹی والے دن بھی ضمانت مل جاتی ہے موٹر وے پر زیادتی کا شکار ہونیوالی خاتون کی تشہیر کی جاتی ہے ملزمان کا پتہ نہیں۔
ہم گیارہ افراد کو ذبح کرنیوالی لرزہ خیز واردات زینب کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل عاصمہ رانی کے قتل شہزاد مسیح اور اس کی بیوی کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلانے سانحہ ساہیوال طیبہ پر تشدد شاہ رخ جتوئی حسام نیازی ڈیرہ اسماعیل خان کی عریان کے مجرموں کو سرعام پھانسی دوکے نعرے لگا کر یہ انسان نہیں درندے ہیں وغیر وغیرہ کہہ کر دو تین دن کے لئے اپنے ضمیر کو دھوکہ دیتے ہیں پھر وہی ہمارے پیارے ملک میں انسانوں کے ہاتھوں میں انسانوں کا قتل کا سلسلہ ایک روایت بن چکا ہے۔آج انصاف والوں نے ہماری زندگی کی جزئیات کو کنٹرول کرنا شروع کردیا ہے انصافی نظام پر تنقید ایک فوجداری جرم بنادیا ہے کہ ہمارے خلاف کوئی شخص زبان نہ کھولے کارپوریٹ دنیا کے یہ ذی اثر لوگ بلند جگہوں پر کھڑے ہو کر غریب اور ناانصافی کے پسے ہوئے عوام پر حیرت کی نگاہ ڈالتے ہیں۔
ریاست مدینہ کا نعرہ بھی کہیں نعرہ ہی نہ رہ جائے
خدا کا فرمان تو یہ ہے کہ میں کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔