بلاول کی تجویز تھپکی یا پھکی!

تحریر:راحت ملک
پی ڈی ایم کے اساسی اعلامیہ میں اتفاق رائے کے بعد کسی ابہام کے بغیر کہا گیا تھا کہ اتحاد موجودہ حکومت سے نجات کے لئے رائے عامہ منظم کریے گا اس مقصد کے لئے ملک بھر میں جلسے ہونگے پھر ریلیاں نکالی جائے گی اور حکومت پر عوامی جمہوری دبا? ڈالا جائے گا کہ وہ اپنی ناقص کارکردگی بے انتہا مہنگائی،بے روز گاری اور ملکی معیشت کو تباہ کردینے والی اپنی نااہلی کا اعتراف کریے اور خود مستعفی ہوجائے بصورت دیگر اپوزیشن اتحاد لانگ مارچ کے ذریعے سلام آباد کے گھیرا? کے علاوہ اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر حکومت سے نجات کی کوششیں کرے گا (لانگ مارچ کی سمت بارے ایک امکانی بیان نے روالپنڈی کو گویا نڈی بھٹیاں بنا دیا تھا). حکومت کے خاتمے کے بعد از سر نو شفاف منصفانہ آزادانہ عام انتخابات ہوں پھر جو جماعت عوام کی حقیقی آزادانہ رائے سے مینڈیٹ حاصل کرے وہ حکومت بنائے۔متذکرہ صدر حکمت عملی میں کسی بھی مرحلے پر غیر آئینی ذرائع بروئے کار لانے کی حمایت کی گئی تھی نہ ہی اس کا اظہار ہوا تھا۔پی ڈی ایم نے سینیٹ انتخابات رکوانے کے لئے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو جانے تک کی دھمکی بھی دی تھی لیکن بنیادی طور پر عوامی رائے عامہ منظم کرتے ہوئے عوامی سیاسی دباؤ بروئے کار لانے پر کامل اتفاق سیاعلانیہ جاری ہوا تھا۔27دسمبر 2020ئکو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے محترم آصف زرداری نے اپنی جادوئی ذہانت وکرامت کا حوالہ دیا اور پی ڈی ایم کو اعلانیہ مقاصد کے حصول کے لئے اپنا طریقہ کار بدلنے کی بات کی نیز اپنی ماہرانہ بصیرت سے استفادہ کرنے کی پیشکش کی اس جلسہ کے بعد پی ڈی ایم میں اختلافات کی باتیں ذرائع ابلاغ پر سامنے آنے لگیں۔بلاشبہ جناب زرداری کا یہ کہنا درست تھا کہ سینیٹ انتخابات کا بائیکاٹ (اسمبلیوں سے استعفی کی صورت)نہ کیا جائے اس سے 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ جیسی صورتحال کا اعادہ ہوگا سیاسی جماعتوں کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ (اس موضوع پر میں تفصیل سے لکھ چکاہوں) لہذا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں بات یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں شرکت اور اب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نجات کی حکمت عملی کا عوامی جلسے میں اظہار سیاسی معقولیت اور اتحاد کے نظم ونسق کے مسلمہ تقاضوں کے منافی تھا جسے حکومتی ترجمانوں سمیت ذرائع ابلاغ نے قومی جمہوری تحریک میں اختلافات کے عنوان سے پیش کرنا شروع کردیا۔جناب بلاول کا طرز عمل غلط اور پی ڈی ایم کی بیانیہ حکمت عملی کو نظر انداز کر کے نتائج اخذ کرنے کی جائز کوششیں بھی نہیں تھا
جناب بلاول کو اپنے خیالات کا اظہار اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں کرنا چاھیے تھا۔ اوراحتجاجی جلسے ترک کرکے تحریک عدم اعتماد کی طرف لے جانے کے لئے اس کی کامیابی کے متعلق منطقی دلائل اور عددی حساب کتاب کے ذریعے قائل کرناچاہیے تھا۔کیونکہ سردست کوئی ایسے واضح اثرات سامنے نہیں آئے جن سے اندازہ لگایا جاسکے کہ حکمران اتحاد قومی اسمبلی و پنجاب میں اپنی اکثریت کھوچکا ہے گو کہ یہ اکثریت درجن بھر ووٹوں سے زیادہ پر مشتمل نہیں لیکن بہر حال عددی اکثریت موجود ہے۔کیوں ہے؟ کیسے ہے؟ اور اس کے پشتہ بان کون ہیں؟ان سوالات کے جواب ڈھکے چھپے نہیں۔چنانچہ اچانک ایک تقریب سے خطاب کے دوران احتجاجی جلسوں کی حکمت عملی کو ناکام قرار دینا اور تحریک عدم اعتماد کی لائن کا مشورہ دینا مختلف یا متضاد خیال تو ہر گز نہیں لیکن پارلیمانی سیاسی امور کے مطلوب تقاضوں سے مربوط سوالات کے جواب دینے سے ہم آہنگ بھی نہیں
چنانچہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ جناب بلاول بھٹو اس مشورے کے ذریعے اپنے والدگرامی کی تھپکی پر انحصار کررہے ہیں یا انہیں کسی دوسری جانب سے تھپکی ملی ہے؟ ایسے سوالوں کے معقول جواب نہ ملنے سے پی ڈی ایم تحریک بکھرنے یا پی پی کے اس سے علیحدہ ہوجانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ پی پی پر تنقید ہورھی ہے معترضین اسے ناقبل بھروسہ ثابت کرنے میں جتے ہیں یہی سبب ہے کہ آج 24 جنوری کو جناب آصف کو کھل کر کہنا پڑا کی پی ڈی ایم متحد ہے اور ہم اپنے مختلف آپشنز کے ذریعے ملکر عمران حکومت سے نجات ائینگے انہوں نے مکرر اس حکومت کی موجودگی کو ملکی مفاد کے منافی بھی قرار دیا ہے تاہم اس بیان سے وہ ابہام مکمل طور پر دور نہیں ہوا جو جناب بلاول کی تجویز و اعتراض سے ابھرا تھا ن کے موقف کی بنیاد پر اب بھی یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ 20ستمبر2020 کے بعد مختلف ذرائع سے تحریکی بیانیہ کے روح رواں جناب نواز شریف کے ساتھ معالات طے کرنے کی کوششوں کی ناکامی کے بعد اب جناب بلاول کے ساتھ رابطے کئے گئے ہیں؟
ٍ جناب بلاول بھٹو کو ممینہ طور پر یہ یقین دہانی کرائی گئی ہو کہ اگر وہ پی ڈی ایم کی عوامی احتجاجی تحریک کا رخ پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک کی جانب موڑ دیں تو اولاً
(قیاس کے مطابق)اس بار تحریک عدم ا عتماد کی کامیابی کی راہ میں مزاحمت نہیں کی جائے گی۔ یہاں یاد دھانی کے لیے جناب شیخ رشید کا آج بروز اتوار طنزیہ بیان بہت اھم ہے انہوں نے تحریک عدم اعتماد کی تجویز کا خیرمقدم کیا ساتھ ہی یاد بھی کرایا ہے کس طرح سینٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی تھی جب 66 میں سے گیارہ ارکان کو نظر لگ گئی تھی جناب شیخ نے نہ تو انکا نام لیا جن کی نظر لگی تھی نہ اس عمل کے اعادے سے انکار کیا ہے اور یہی وہ مخمصہ ہے جو جمہوری پارلیمانی سیاست کے امکانات معدوم کرتا ہے تو سیاسی جماعتوں کو مائل بھی کرتا ہے کہ وہ عوامی جمہوری احتجاجی تحریک کو منظم و مضبوط بنا کر آگے بڑھنے کا عمل جاری رکھیں بلکہ ان قوتوں پر بھی کھلی تنقید کریں جنہوں پارلیمنٹ کو ترغمال بنا رکھا ہے اور سیاسی آلودگی یا سیاسی انجینرنگ کر رھے ہیں۔۔۔ بحث کا دوسرا نکتہ ہے کہ
اگر جناب بلاول بھٹو کسی آسرے پر پی ڈی ایم کو ہمنوا بنانے میں ناکام رہتے ہیں تو بھی اگر وہ خود عدم اعتماد کی تحریک لائیں تو حکمران اتحاد کے اندر سے وہ مطلوبہ عددی حمایت مہیا کردی جائے گی جس سے سیاسی بحران ٹلنے کی بجائے مختلف نوعیت اپنالے گا اس طرح مائنس عمران خان ایک ایسی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے جس کی قیادت جناب بلاول بھٹو کریں اور پی ٹی آئی و دیگر اتحادی ان کی پارلیمانی حمایت کریں ایک متبادل تجویز امکانی طور پر یہ بھی زیر غور لائی گئی ہو کہ جناب عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے الگ کرکے ان کی جگہ پی ٹی آئی کے ہی کسی دوسرے رکن کو وزیراعظم بنایا جائے لیکن صدر جناب عارف علوی بھی مستعفی ہوجائیں اور ان کی جگہ جناب آصف علی زرداری براجمان ہوجائیں تو انہیں بطور صدر زیر سماعت مقدمات سے صدارتی استثنیٰ کے سہارے عبوری نجات دی جا سکتی ہے وہ پرسکون زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی صحت کے مسائل سے نبرد آزمائی کریں اسی تجویز کو اولین سطور میں خاکسار نے ابا کی تھپکی کہنے کی جسارت کی ہے۔
اس نئی حکومتی صف بندی کے نتیجے میں ایم کیو ایم سندھ حکومت کا حصہ بن سکتی ہے یوں پی پی کے لیے صوبے کے شہری حلقوں سے ابھرتی سیاسی مخالفت کی شدت کم ہو سکتی ہے۔ان تمام ممکنہ تجاویز کے ذریعے پی ڈی ایم تحریک کے تلخ بیانات اور تقاریر سے پیدا ہونے والی پیچیدہ ہیجانی کیفیت اور شدید تنقیدی فضا زائل ہوسکتی ہے ایک پہلو یہ بھی قابل توجہ رھنا چاھیے کہ اگر پی ڈی ایم اپنے اصولی موقف پر قائم رھے کہ حکومت کی تبدیلی آئینی ذرائع سے ہی لائی جائے گی تو اس صائب رائے کو بلاول بھٹو اپنے دلائل مع تھپکی و حمایت سے پء ڈی ایم کو واضح طور پر مطلع کردیں۔یعنی یہ یقین دلائیں کہ پی ڈی ایم کی عدم اعتماد کی تحریک کے راستے میں اب طاقتور حائل نہیں ہوں گے تو امکان ہے کہ پی ڈی ایم بھی بلاول بھٹو کے انداز فکر کو آزمانے پر آمادہ ہوجائے تو لانگ مارچ کے دباو اور اسکے امکانی رخ سے ابھرتے چیلنج کا تدارک ہوجایے گا تاہم اس صورت میں کھنڈت یہ آن پڑے گی کہ عدم اعتماد کے بعد نیا وزیراعظم کون ہو؟پی ڈی ایم میں شامل اکثریتی عددی حیثیت رکھنے والی مسلم لیگ اپنے کسی رکن قومی اسمبلی کو بطور وزیراعظم سامنے لانا چاھے گیاس صورت میں ملکی صدارت کا تاج جناب مولانا فضل الرحمن کے سر پر سج سکتی ہے جبکہ جناب آصف زرداری نئی صورتحال میں قدرے اطمینان کے ساتھ سندھ کی حکمرانی سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے جو مشکلات اس وقت سندھ حکومت کو درپیش زائل ہو جائیں گی اور راوی سواں کے کناروں کے آس پاس چین ہی چین کی کہانی سنائی دے گا۔کیا جناب میاں نواز شریف مجوزہ قیاسی صورتحال کو قبول کرلیں گے؟ ایسا ہوا تو مفاہمت کی لائن ان کے انقلابی عزم کو بے توقیر کرکے پاکستان میں ابھرتے ہوئے ملکی و قومی سیاسی اتحادکو بھی ختم کردے گی۔ جو مستحکم وفاقیت کے لیے ضرر رساں ہوگی۔ جناب بلاول اور تھپکی یا پھکی دینے والوں کے اس جانب مخلصانہ غور اشد ضروری ہے۔