ایک لیڈر کی رخصتی

تحریر: انورساجدی
بانک کریمہ کی شہادت اور تدفین میں رکاوٹوں کے حوالے سے دو طرح کا ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے ایک ردعمل سیاستدانوں یا پارلیمانی رہنماؤں کا ہے جنہوں نے پارلیمانی اداروں میں شدت کے ساتھ آواز اٹھائی ہے لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ حکومت نے اس کا کوئی خاص اثر نہیں لیا ہے دوسرا ردعمل غریب عوام کا ہے ان کے محسوسات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کریمہ کی شہادت کے سانحہ نے بلوچ گلزمین کے طول و عرض کو متاثر کیا ہے بلکہ دنیا میں جہاں جہاں بلوچ آباد ہیں انہوں نے ایک خاص شدت اور دکھ کے ساتھ اس سانحہ کو اپنے دلوں کی گہرائی سے محسوس کیا ہے۔
اگرچہ نواب صاحب اور واجہ غلام محمد کے سانحات کے بعد جذبات ایسے ہی تھے جو آج کل ہیں لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ کریمہ کی ناگہانی موت نے لوگوں کو زیادہ صدمہ دیا ہے ہر گھر کو متاثر اور ہر آنکھ کو اشکبار کیا ہے اس درد کو صرف بلوچ ہی محسوس کرسکتا ہے۔
فیض صاحب نے کہا تھا کہ
جز ترے اورکو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
پاکستانی مقتدرہ نے جس طرح نواب صاحب کو شہید کرکے اس سانحہ کو ہلکا لیا تھا لیکن آج 15 سال بعد بھی احتجاج اور مزاحمت جاری ہے اسی طرح اس نے بانک کریمہ کی شہادت کو بھی ہلکا لیا ہے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ اس سے جو شعلے بھڑکیں گے وہ کبھی ختم نہیں ہوں گے ہوسکتا ہے کہ حکمران یہ سمجھ رہے ہوں کہ انہوں نے جس طرح ان کے جسد خاکی کو اپنی تحویل میں لیکر تمپ پہنچایا تو کوئی خاص مزاحمت نہ ہوئی اس لئے وہ آنے والی صورتحال کو بھی سنبھال لیں گے لیکن کریمہ محض ایک خاتون نہیں تھی وہ بلوچ جدوجہد کی علامت تھی بی بی بانٹری کے بعد آج تک کسی خاتون نے اپنی قوم کی اس طرح رہنمائی نہیں کی جس طرح کریمہ نے کی بلوچ سرزمین نے شاید ہی آج تک کریمہ جیسی نڈر اور بہادر خاتون کو جنم دیا ہو اسی لئے انہیں مادر بلوچ کا خطاب دیا گیا ہے۔
بلوچستان کے عمومی حالات تو سب کے سامنے ہیں لیکن اسلام آباد میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تشویش کی کوئی بات نہیں یہ کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں ہے۔ یہ ریاست کے تضادات ہیں کہ اس کے مختلف علاقوں کے عوام اپنے ہی ملک کے دوسرے حصہ کے معاملات سے واقف نہیں‘ ڈیجیٹل دور میں بھی میڈیا وہی کردار ادا کررہا ہے جو گزشتہ صدی میں کالُونی دور کا گماشتہ میڈیا ادا کررہا تھا ریاستی میڈیا جسے اسلام آباد میں قومی میڈیا کا نام دیا جاتا ہے آزادی اظہار حق و انصاف کو کچلنے اور مظلوموں کی آواز دبانے کے حوالے سے نہایت مجرمانہ کردار ادا کررہا ہے میں یقین سے کہتا ہوں کہ جو بھی مین اسٹریم میڈیا ہے وہ اپنے ملک کی تاریخ اور جغرافیہ سے واقف نہیں ہے اس میڈیا سے وابستہ لوگ منشیوں اور پی آر اوز کا کردار ادار کررہے ہیں۔ 1935ء کے انڈیا ایکٹ کے بعد ہندوستان میں جو پرنٹ میڈیا تھا اس کا کردار آج کے میڈیا سے زیادہ جاندار اور بامقصد تھا 90 سال بعد جب کہا جارہا ہے کہ ریاست میں آئین نافذ ہے جس کے تحت اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے اور جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت بھی دی گئی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے حکمرانوں نے خود آئین کو مذاق سمجھ رکھا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اس آئین کا خالق پھانسی نہ چڑھتا جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف آئین کو ردی کی ٹوکری میں نہ ڈالتے دراصل آئین کو مخصوص مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے جب مارشل لاء کی ضرورت ہو آئین کی حیثیت ختم کردی جاتی ہے اور جب نام نہاد سویلین رول کی ضرورت ہو تو جعلی انتخابات کے ذریعے جعلی جمہوری نظام مسلط کیا جاتا ہے چنانچہ اس ریاست میں آئین کی بالادستی اور اس کی حکمرانی ہمیشہ خواب رہے گی یہی وجہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کو بے دردی کے ساتھ پامال کیا جاتا ہے اور آئندہ بھی کیا جاتا رہے گا ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکمرانوں کے پاس مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کا کوئی سلیقہ نہیں ہے یہاں پر ہر مسئلہ کا حل طاقت کے بے جا استعمال کو سمجھا جاتا ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ اپنے ہی عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کا چلن دنیا کی اور کن ریاستوں میں ہے یہ تو گزشتہ ادوار کا امپیریل طریقہ ہے ہمارے حکمران شروع دن سے ہر معاملہ کو اپنے حق میں کیش کرنے کے عادی ہیں وہ ہر مسئلہ کا حل غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے میں سمجھتے ہیں حتیٰ کہ موجودہ دور میں یہ القاب خود اصل حکمران خطہ کے لوگوں میں اب بھی بانٹے جارہے ہیں۔
حکمرانوں نے کبھی کسی مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے اور اس کے بنیادی اسباب و عوامل کا کھوج لگانے کی زحمت نہیں کی اگر وہ یہ زحمت کرتے تو انہیں بار بار طاقت کے بے رحمانہ استعمال کی ضرورت نہ پڑتی۔
حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ آج تک یہ معلوم نہ کرسکے کہ وزیرستان کے حالات کیوں خراب ہیں دونوں وزیرستان ملاکر ان کا رقبہ بلوچستان کے ایک تحصیل کے برابر بنتا ہے لیکن پے در پہ آپریشنوں کے باوجود وہاں پر امن قائم نہیں ہوسکا اگر ایم این اے علی وزیر ملک دشمن ہے غدار ہے غیر ملکی ایجنٹ ہے تو ان پر کھلی عدالتوں میں مقدمات کیوں نہیں چلائے جاتے انہیں سندھ پولیس کے ذریعے حراست میں لیکر بدترین سلوک کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے ان کے ساتھ وہ سلوک کیوں نہیں کیا جاتا جو باقی ایم این ایز کے ساتھ کیا جاتا ہے اس تذلیل کا کیا نتیجہ نکلے گا کیا اس سے دیرپا امن قائم ہوسکے گا۔
جنرل مشرف نے بلاوجہ پیرانہ سالی کے باوجود نواب اکبر بگٹی کو بمباری کرکے شہید کردیا کیا بلوچستان میں حکومتی مقاصد پورے ہوسکے؟ نواب صاحب کی شہادت کے بعد جو شعلے بھڑکے انہیں اب تک بجھایا نہ جاسکا‘ حکمرانوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت نہیں کی کہ بلوچستان کے اصل حالات کیا ہیں اور اس کا حل کیا ہے اسلام آباد میں میڈیا پر آکر کہا جاتا ہے کہ سردار ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں یہ لوگ یہ کہتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اول تو سرداری نظام باقی نہیں رہا جو سردار ہیں وہ سارے کے سارے حکومت کے ساتھ ہیں۔ 1972ء سے اب تک یہ سردار ہر حکومت کی زینت بنتے چلے آرہے ہیں غالباً یہ ریاست کی ضرورت ہیں اور ریاست نے ہی انہیں عہدے اور وسائل دے کر برقرار رکھا ہے عظیم لیڈر نواب خیر بخش مری نے اپنے آخری کلمات میں یہ کہا تھا کہ بلوچ آئندہ کسی سردار کو تسلیم نہیں کریں گے ان کی بات کی وجہ یہ تھی‘ 1948ء سے لیکر 1973ء تک دو تین سرداروں نے ریاست کے خلاف مزاحمت کی لیکن اس کے بعد تحریک عام نوجوانوں کے ہاتھوں میں چلی گئی خاص طور پر نواب صاحب کی شہادت کے بعد جو تحریک شروع ہوئی ان میں سرداروں کا کوئی کردار نہیں بلکہ بیشتر نامی گرامی سردار نظام کا حصہ بن کر اور اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی زینت ہیں وہ عوامی جذبات کے مطابق مختلف ڈائیلاگ مارتے رہتے ہیں تاکہ کسی بھی خاص موقع پر عوامی غیض و غصب کو کم کیا جاسکے۔
بانک کریمہ کی میت جب سخت پہرے میں سات سو کلو میٹر دور جارہی تھی تو اس کے استقبال کے لئے کوئی سردار موجود نہیں تھا بلکہ عام گڈرئیے چھوٹے بچے اور غریب لوگ کہیں کہیں کھڑے تھے ایک جگہ تین بچے سڑک پر آنے میں کامیاب ہوگئے جنہوں نے میت کو سیلوٹ مارا جبکہ ایک چھوٹے بچے نے میت گاڑی کو بوسہ دیا کریمہ کے جسد خاکی کو ان کی ماں اور تین دیگر خواتین نے کاندھا دے کر لحد تک پہنچایا اگر سردار ہوتے یا لیڈر ہوتے وہ اپنی بیٹی کے جسد خاکی کو یوں لاوارث چھوڑ دیتے وہ سڑک پر آکر گھروں سے نکل کر حکمرانوں سے تکرار نہ کرتے کہ آپ ایک ماں اور بیٹی کی میت کی بے حرمتی کیوں کررہے ہیں آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کا کوئی لینا دینا نہیں تو آپ کا عملی رویہ کیا ثابت کررہا ہے؟ کریمہ تو چلی گئی لیکن وہ ایک روشن علامت بن کر گئی ہے ان کی شہادت نے تحریک اگلی نسلوں کو منتقل کردی ہے چوپانوں کو گلہ بانوں کو ماہی گیروں کو کسانوں کو محنت کشوں کو یہی لوگ اجتماعی صورت میں مل کر بلوچ کہلاتے ہیں۔