ایک نظرادھر بھی
تحریر: انور ساجدی
عمران خان جب رموز سیاست سے ناآشنا پاکستانی طرز حکمرانی سے نابلدتھے تو بار بار کہتے تھے کہ وہ حکومت میں آکر اراکین اسمبلی کے فنڈز بند کردیں گے کیونکہ اسمبلی ممبران کا کام قانون سازی ہے ترقیاتی کام ان کی ذمہ داری نہیں ہے یہ بلدیاتی اداروں کا فریضہ ہے چنانچہ اپنے اس اعلیٰ اصول کو انہوں نے ڈھائی سال تک قائم رکھا لیکن سینیٹ کا الیکشن قریب آتے ہی انہوں نے اپنے اس اصول کولپیٹ دیا اور ہر رکن اسمبلی کیلئے 50کروڑ فنڈز کی منظوری دیدی غالب امکان یہی ہے کہ اس رقم سے اپوزیشن اراکین کو محروم رکھاجائے گااور یہ فنڈصرف تحریک انصاف کے اراکین کو ملے گا یااپوزیشن کے ان اراکین کو نوازا جائیگا جو سینیٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف سے تعاون کریں گے اگر اپوزیشن میں جان ہوتی تو وہ اس مسئلہ کو ہارس ٹریڈنگ کی شروعات قراردے کر آسمان سرپر اٹھالیتی لیکن اپوزیشن اپنے تضادات حکمت عملی میں ابہام اور حکومت مخالف تحریک پراختلافات کی شکار ہے اس لئے وہ شائد زیادہ زوردار احتجاج نہیں کرسکتی جہاں تک آصف علی زرداری کا تعلق ہے تو وہ حکومت کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کے عزائم پر خوش ہیں اور انہیں یہ صورتحال بہت بھاتی ہے کیونکہ گزشتہ انتخابات میں وہ اپنے حصہ سے تین نشستیں زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے یہی وجہ ہے کہ حکومتی حلقوں نے عمران خان پرزور دیا ہے کہ وہ آصف زرداری پرخاص رکھیں جہاں تک ن لیگ کا تعلق ہے سینیٹ الیکشن میں وہ حکمران جماعت کی خاص ٹارگٹ ہوگی حکومت اس کے ممبران توڑنے کی کوشش کرے گی اگرالیکشن خفیہ بیلٹ سے ہوئے تو حکومت کئی اراکین خریدے گی سب کو یاد ہوگا کہ سینیٹ چیئرمین کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ن لیگ کے 10سے زیادہ اراکین نے سرکاری امیدوار صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ دیا تھا انہی ووٹوں کی وجہ سے میرحاصل خان کو شکست ہوئی تھی چونکہ ن لیگ کی سینیٹ میں اس وقت اکثریت ہے اس لئے حکومت اپنی اکثریت کو مضبوط بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی وہ دن گئے جب ناتجربہ کار عمران خان کہتے تھے کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کو حتمی طور پر ختم کردیں گے جس طرح انہوں نے اراکین اسمبلی کے فنڈز کے بارے میں یوٹرن لیا اسی طرح وہ ہارس ٹریڈنگ کوروکنے کی بجائے فروغ دیں گے اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ حکومت کا جو آئندہ پلان ہے اس کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ وہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرے ورنہ وہ آئین میں ترمیم لانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی جبکہ قوانین کو اعلیٰ ریاستی اداروں کے حق میں بنانے کیلئے ضروری ہے کہ حکمران جماعت سینیٹ میں اپنی پوزیشن مستحکم بنائے اور قومی اسمبلی میں فارورڈ بلاک تشکیل دے جب تک اسے دوتہائی اکثریت حاصل نہیں ہوگی حکومت اپنے اہداف پورے نہیں کرسکے گی اہداف کیاہیں 1،18ویں ترمیم کاخاتمہ 2،صوبوں کے اختیارات میں مزید کمی 3،این ایف سی ایوارڈ کی ازسرنو تشکیل جس کے تحت زیادہ وسائل مرکز کو منتقل کرنے اور سمندری حدود اور خشکی پروفاق کااختیار شامل ہیں اگرچہ کام تومشکل ہے لیکن حکومت اور اس کے سرپرست چاہتے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام لایاجائے عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں نے اپنے اس مقصد کو کبھی نہیں چھپایا بلکہ کئی مواقع پروزیراعظم نے ایوب خان کے سنہرے دور کویاد کیا اور فرمایا کہ ایوب خان کے 10سالہ دور میں پاکستان جنوبی ایشیاء کا تیزی سے ترقی کرنے والا ملک تھا اور اسی دور میں صنعتی ترقی کاآغاز ہوا تھا عمران خان بھول جاتے ہیں کہ ایوب خان کے دور میں تمام اشیائے خوردونوش وافرمقدار میں موجود نہیں تھیں بلکہ کنٹرول سسٹم کے تحت ملتی تھیں گندم اور چینی کی ہمیشہ قلت رہتی تھی۔
اس زمانے میں امریکہ اپنے پروگرام پی ایل480کے تحت پاکستان کو گندم بطور امداد فراہم کرتا تھا۔لوگ یہ باسی اور سڑی ہوئی گندم کھانے پر مجبور تھے ایوب خان نے زراعت پرزیادہ توجہ نہیں دی۔
پاکستان پہلی مرتبہ بھٹو کے آخری دور میں خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہوگیا تھا جبکہ گزشتہ تین دہائیوں میں زراعت کے تمام شعبے میں اس نے نمایاں ترقی کی البتہ نوازشریف نے اپنے دور میں صنعتوں پر زیادہ توجہ دی اور زرعی شعبہ کو نظرانداز کئے رکھا اشیاء کی جو آج قلت ہے اس کی وجہ وہی پالیسی ہے جبکہ موجودہ حکومت کی کوئی زرعی پالیسی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ چینی،گندم اور روئی باہر سے درآمد کرنا پڑرہی ہے۔نوازشریف نے صنعتوں اور پاور پلانٹس کو گیس سے چلنے کی اجازت دی تھی جبکہ گیس وافرمقدار میں موجود نہیں تھی اس سے یہ ہوا کہ گھریلو صارفین بھی گیس سے محروم ہوگئے۔
موجودہ حکومت چینی،گندم اورانرجی چورمافیا کے ہاتھوں یرغمال ہے اور یہ اتنا پاورفل مافیا ہے کہ وزیراعظم اسکے ہاتھوں مجبور ہیں یا دوسرے الفاظ میں اس کے ساتھ مل چکے ہیں۔
سیاسی ناقدین اورتجزیہ کار بارہا اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ عمران خان کواس لئے لایا گیا ہے تاکہ پارلیمانی نظام کو لپیٹ کر ایک وحدانی طرز کا نظام لایاجائے پی ڈی ایم بے شک موثر اتحاد نہ ہو لیکن اتنا تو ہے کہ اسکی موجودگی میں حکومت اپنے عظیم مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتی اس میں اتنی طاقت نہیں کہ یہ1973ء کے آئین کو یکسر تبدیل کردے اور ریاست کو دوبارہ1960ء کی دہائی میں دھکیل سکے۔
حالیہ دنوں میں ایک یورپی ٹورسٹ کا بلاگ نظر سے گزرا جو اسکے سفر جافنا کی روداد پرمشتمل ہے جافنا جوسری لنکا کی تامل آبادی کا صدرمقام ہے 1983ء اور2009ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی سے مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا جب لبریشن ٹائیگر آف تامل ایلم نے اس پرقبضہ کیا تھا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے یہاں سے نقل مکانی کی تھی خاص طور پر اکثریتی سنہالی باشندے تو تمام کے تمام چلے گئے تھے کیونکہ یہاں پر جنگ کی وجہ سے بجلی،گیس اوردیگرسہولیات ناپید ہوگئی تھیں ایک مرحلہ پرانڈیا اورسری لنکا نے مل کر جافنا کا محاصرہ کیا تھا تاکہ اسلحہ اور اشیائے خوردونوش کی رسدناممکن ہو۔
تامل جنگ آزادی کی تو طویل کہانی ہے ہمارا موضوع یہ جنگ نہیں ہے موضوع یہ ہے کہ جنگ کے بعد تامل علاقوں کی کیا صورتحال ہے2009 میں جب سری لنکا اور ہمسایہ ممالک نے جافنا کاطویل محاصرہ کیا اور ایل ٹی ٹی کیلئے ممکن نہ رہا کہ وہ جنگ جاری رکھ سکے آخری مزاحمت کے بارے میں اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ ایل ٹی ٹی کے سربراہ ”ولو پلے پربھاکرن“ نے خودکشی کی تھی لیکن تازہ تجزیہ یہ کہہ رہے ہیں کہ سری لنکا کی فوج نے پربھاکرن کو ایل ٹی ٹی کے ہیڈکوارٹرمیں قتل کیا تھا یا مقابلے میں مارا تھا کمانڈوز اسکی لاش ایک مرتبہ کولمبو لے گئے تھے اور وہاں پر تفصیلی معائنہ کے بعد اسے واپس لاکر ہیلی کاپٹر سے نیچے گرایاگیا۔
سری لنکا نے تاملوں کوشکست دینے کیلئے ہرطرح کی امداد حاصل کی یہ بات سب جانتے ہیں کہ انڈیا پہلے ایل ٹی ٹی کی حمایت کررہا تھا بلکہ پربھاکرن کودہلی میں پناہ دی گئی تھی اس نے ٹریننگ بھی وہیں پر حاصل کی۔راجیوگاندھی نے ایک معاہدہ بھی کروایا جس کے تحت تمام تامل علاقوں کو ملاکر ایک صوبہ بنایا جاتا تھا اور جسے مکمل خودمختاری دینی تھی لیکن سری لنکا نے تاملوں کے ایک گروہ کواپنے ساتھ ملایا جس نے جافنا میں ایل ٹی ٹی مخالفین کاقتل شروع کردیا اس کاالزام پربھاکرن پرعائد کیا گیا اور کہا گیا کہ معاہدہ توڑنے کے ذمہ دار وہی ہیں اس بہانے سے جنگ دوبارہ شروع کردی جب راجیوگاندھی ایک تامل خاتون خود کش حملہ آور کے حملہ میں مارے گئے تو سری لنکا حکومت کے وارے نیارے ہوگئے اور انڈیا نے سری لنکا کا بھرپورساتھ دیا حتیٰ کہ جب اوسلو میں جنگ بندی کامعاہدہ ہوا تو اس پر ایک دن بھی عملدرآمد نہ ہوسکا کیونکہ سری لنکا کی سنہالی حکومت تامل آبادی کو حقوق دینا نہیں چاہتی تھی حالانکہ انگریزوں کے قبضہ سے قبل تامل آبادی کو مکمل خودمختاری حاصل تھی لیکن انگریزوں نے متحدہ سیلون ریاست بنائی اس کی بلا سے کہ اس سے کس کوفائدہ اور کس کو نقصان ہوتا ہے۔1948ء کو جب سری لنکا کوآزادی ملی تو اس وقت تمام اہم عہدوں پر تامل فائز تھے کیونکہ وہ تعلیم میں آگے تھے اور انہوں نے اپنے ہاں انگریزی زبان رائج کی تھی 1970ء میں جب آئین بنا تو تامل اقلیت میں چلے گئے اس آئین کی رو سے سنہالی اکثریت جوبدھ مت تھی اس کا غلبہ قائم ہونا شروع ہوگیا حکومت نے جبراً سنہالی زبان کوقومی وسرکاری زبان قراردیا جس کی وجہ سے تامل شدید احساس محرومی کاشکار ہوگئے اور بالآخر انہوں نے بندوق اٹھالی۔
خانہ جنگی کے خاتمہ کے بعد صدرراجا پکسے نے جافنا کی ازسرنو تعمیر شروع کردی لیکن اس نے بھاگ کر اور علاقوں میں جانے والے تاملوں کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی سرکاری اداروں اور ملازمتوں کی آڑ میں سنہالی باشندے بڑی تعداد میں لاکر آباد کےء گئے تعمیر نو کے بہانے ڈیموگرافک تبدیلی لائی گئی جبکہ پورٹ میں بھی سنہالی ملازمین رکھے گئے آج جافنا میں امن ہے اور سیاح بڑی تعداد میں اس کا رخ کررہے ہیں لیکن سارے بزنس پرسنہالی اکثریت کا قبضہ ہے حتیٰ کہ10فیصد مسلمانوں کو بھی نکال دیا گیا ہے پوری ٹورازم انڈسٹری پرسنہالیوں کاقبضہ ہے۔جوتامل حکومت کے ساتھ مل گئے تھے وہ روز اپنی وفاداری کااظہار کرتے ہیں لیکن بدھ سنہالی اکثریت کو ان پر یقین نہیں ہے تامل خانہ جنگی کی وجہ سے سری لنکا کے بدھ بھکشو اور لامے بھی بہت انتہا پسند ہوگئے ہیں گزشتہ سال کولمبو کے قریب کینڈی میں سارے مسلمانوں کے گھر اور املاک کو جلاکر خاکستر کردیاگیا۔
رام کے دور میں ایک ہنومان نے سارا لنکا ڈھایاتھا لیکن رام کے جانشین انڈیا نے اپنی ہی آبادی کو ڈھاکرزمین بوس کردیامعلوم نہیں کہ جافناکی ہندوتامل آبادی اسی طرح افتادگان خاک کی طرح زندگی بسر کرے گی یااسے دوبارہ لڑنا پڑے گا کیونکہ اس وقت تامل ایک ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں