بھوکی ننگی مخلوق

تحریر: انور ساجدی
کلفٹن کے علاقہ میں واقعے عبداللہ شاہ غازی کے مزار والی سڑک پر روزانہ گزرنا پڑتا ہے کل میں نے کیا دیکھا کہ ایک طرف سیلانی والوں کی گاڑی کھڑی تھی اسکے سامنے لوگوں کی لمبی قطار تھی جن میں مرد،خواتین اوربچوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کافی عرصہ سے غربا میں مفت کھانا تقسیم کرتا ہے دوسری جانب مزار کے احاطہ میں خیرات کی دیگیں تقسیم ہورہی تھیں یہاں پر بھی مرد وذن کی کوئی تخصیص نہیں تھی کچھ دیر بعد میں اپنے دفتر کے قریب پہنچا تو خیرآباد ہوٹل کے سامنے ایک گاڑی کھڑی تھی جس پر لکھا تھا”مفت موبائل ریستوران“
میں نے آکر پوچھا کھانا کتنے کا ملے گا تو ایک نوجوان نے کہا کہ بالکل مفت یہ حسینی دستر خوان ہے۔
اس نے مجھے ایک تھیلا پکڑایا دفتر آکر دیکھا تو اس میں کالی مسور کی دال اور دوروٹیاں تھیں بڑے مزے کی دال تھی اور میں نے سیرہوکرکھایا کراچی میں خیراتی کھاناکھانے کایہ پہلا تجربہ تھا سنا ہے کہ اور کئی خیراتی ادارے بھی مفت کھانا تقسیم کرتے ہیں ایسی سہولت لاہور میں داتا دربار اور دیگرشہروں میں بھی دستیاب ہوگی مفت خیراتی کھانا کھانے کے بعد میں سوچ میں پڑگیا کہ یہ ریاست کہاں پہنچ گئی ہے اور مزید کہاں جائیگی کیونکہ اس کی آبادی کنٹرول سے باہر ہے روزگار کاروبار اوردیگرسہولتوں کافقدان ہے گزشتہ فراڈ مردم شماری میں اسکی آبادی 22کروڑ دکھائی گئی لیکن عالمی اداروں کو اس کا یقین نہیں ہے بعض ذرائع اس ریاست کی آبادی کاتخمینہ25اوربعض26کروڑ لگاتے ہیں کراچی شہر کو دیکھ کر اس مردم شماری کا پول کھل جاتا ہے اس میں اس میگاسٹی کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ دکھائی گئی ہے جبکہ اس کی اصل آبادی کاتخمینہ کم از کم ڈھائی تین کروڑ ہے اتنا گنجان آباد شہر شائد دنیا میں کہیں اور ہو سوال یہ ہے کہ جب ایک حکومت زیادہ آبادی کی بجائے کم آبادی کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتی ہے تو اس ملک کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
معلوم نہیں کہ زیادہ آبادی کو کم دکھانے میں کیامنطق ہے ضرور اس کی کوئی وجہ ہوگی جو حکمرانوں نے پوشیدہ رکھی ہے اور یقینا اس میں کوئی سیاسی مصلحت کارفرما ہوگی میراذاتی خیال ہے کہ اس قضیہ کی وجہ1973ء کاآئین ہے اس میں وسائل کی تقسیم کا پیمانہ آبادی کوقراردیا گیا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے جب آئین بنایا تھا تو وہ اس وقت پنجاب کے نمائندہ اور لیڈر تھے اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کی مدمقابل کوئی جماعت موجود نہیں تھی۔اس لئے بھٹو صاحب نے پنجاب کے نمائندہ کی حیثیت سے سوچا اور اس کے فائدے کیلئے آبادی کوواحد پیمانہ قرار دیا حالانکہ1951ء اور1961ء کی مردم شماری میں مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ نکل آئی تھی 10کروڑ میں سے پانچ کروڑ چالیس لاکھ بنگالی تھے جبکہ4کروڑ ساٹھ لاکھ مغربی پاکستانی تھے سانحہ مشرقی پاکستان کے باوجود موجودہ پاکستان میں آبادی برق رفتاری سے بڑھی اگر1972ء میں پنجاب کی آبادی چار کروڑ تھی وہ کیسے دوگنی سے زائد ہوگئی سندھ میں شہری آبادی کی شرح زیادہ ہے لیکن یہاں آبادی اس شرح سے کیوں نہیں بڑھی۔متحدہ پاکستان میں مغربی پاکستان کا قابض گروہ زیادہ آبادی کوتسلیم نہیں کرتاتھا اس نے قانون سازی کے ذریعے بنگالیوں کی اکثریت اور مغربی پاکستان کی اقلیت کو برابرقراردیاتھا اس غیرمنصفانہ عمل کانام ”پیریٹی“ رکھا گیا تھا لیکن جونہی مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا پنجاب کے نمائندہ ذوالفقار علی بھٹو نے آبادی کو پیمانہ بنالیا حالانکہ پرانے اصول کے تحت چاروں صوبوں کوبرابر قراردیاجاتا لیکن چونکہ پارلیمانی نظام نافذ کیا گیا اس لئے اکثریت کی اہمیت بڑھ گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے آئین بناتے وقت تین کم آبادی والے صوبوں کے مفادات کو پیش نظر نہیں رکھا 1973ء کے آئین میں یہ ناانصافی بھی کی گئی کہ تمام قدرتی وسائل بشمول سمندر کو وفاقی اثاثہ قراردیا گیا جس کی وجہ سے سندھ اپنی گیس اور تیل سے محروم ہوگیا جبکہ بلوچستان کے سارے ساحل وسائل پروفاق کا قبضہ ہوگیا۔
اگرآئین میں لکھ دیا جاتا ہے کہ ہرصوبہ اپنے قدرتی وسائل کا مالک ومختار خود ہوگا تو جوناانصافی اور تضادت آج دکھائی دے رہا ہے اس کا وجود نہ ہوتا مثال کے طور پر80فیصد گیس سندھ اور بلوچستان میں پیدا ہوتی ہے لیکن دونوں صوبے گیس کی سہولت سے محروم ہیں اس قدرتی وسیلہ کا معمولی حصہ دونوں صوبوں کو دیا جاتا ہے آئین کے تحت این ایف سی ایوارڈ طے کیاجاتا ہے لیکن وفاق نے یہ اصول کبھی نہیں مانا زرداری نے18ویں ترمیم منظور کرکے صوبوں کا حصہ بڑھایا جس پر اسلام آباد کے حکمران نالاں ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ 18ویں ترمیم کرکے مرکز کا حصہ بڑھایاجائے۔اسلام آباد میں یہ خیال موجود ہے کہ صوبوں کے وسائل بڑھ جانے سے ”مضبوط مرکز“ کمزور ہورہا ہے یہ مضبوط مرکز کاپہلا تصور پاکستان کے ابتدائی سالوں میں وضع کیا گیا تھا اور اس کو ہتھیاربناکر بنگالیوں کو انکے حقوق سے محروم رکھا گیا حالانکہ مملکت کی اکثریتی آبادی بنگال میں تھی تو مرکز بھی وہیں ہونا چاہئے تھا لیکن مغربی پاکستان کے اقلیتی حکمرانوں نے مرکز راولپنڈی میں رکھا اور اسی کی مضبوطی کیلئے سارے وسائل جھونک دیئے۔
صوبے اور ان کی خودمختاری حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لئے عمران خان کو ”شوبوائے“ کے طور پر لایا گیا تاکہ اسکے ذریعے18ویں ترمیم ختم کردی جائے اور اگر بات نہ بنی تو1973ء کے آئین کو ہی لپیٹ دیاجائے۔
عمران خان نے دودن قبل منٹگمری میں واضح طور پر کہا ہے کہ ریاست کی ترقی کیلئے جس طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس کیلئے پانچ سال تھوڑے ہیں انہوں نے اپنا باطن ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ چین کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں حکمرانوں کی مدت زیادہ ہے موصوف نے اس خواہش کااظہار کیا کہ پاکستان میں حکومتوں کو 10یا20سالہ کی مدت ملنی چاہئے۔
حالانکہ پارلیمانی جمہوریت اور1973ء کے آئین کے تحت ایسا ہونا ممکن نہیں ہے اگرچین اور روس والا نظام اپنایا جائے تو زیادہ مدت مل سکتی ہے لیکن چین اور روس میں یک جماعتی آمریت ہے وہاں پر دونوں صدور نے اپنی مدت تاحیات کردی ہے تاحیات حکمرانی بادشاہت عرب اور افریقی آمریتوں ہی میں ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ جناب عمران خان بادشاہ تو نہیں بن سکتے اور نہ ہی صدربشارالاسد اورجنرل عبدالفتح سیسی کی طرح تاحیات حکمران بن سکتے ہیں زیادہ مدت کی واحد مثال فرانس کی ہے جہاں صدارتی نظام رائج ہے اور صدر سات سال کیلئے منتخب ہوتا ہے اگرعمران خان اور انکے سرپرست صدارتی نظام لائیں اور صدر کی میعاد سات سال رکھیں تو ان کی خواہشات پوری ہوسکتی ہیں۔دراصل وزیراعظم اپنی ناکامیوں سے گھبرائے ہوئے ہیں انہیں سمجھائی نہیں دیتا کہ وہ کیا کریں اس لئے وہ کبھی کچھ اورکبھی کچھ کہتے ہیں کبھی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں جہاں بادشاہت ہے اور کبھی چین کی مثال دیتے ہیں جہاں روئے زمین کا بدترین یک جماعتی نظام چل رہا ہے نہ بادشاہ عوام کے سامنے جواب دہ ہے اور نہ ہی چین اور روس کے صدر کو عوامی مواخذہ کاڈر ہے ذہن تو اپنے کپتان کا بھی شدید آمرانہ ہے لیکن وہ پارلیمانی نظام کی موجودگی میں اپنی دلی مراد پوری نہیں کرسکتے بجائے کہ وہ گورنس پرتوجہ دیں عوامی مسائل حل کریں وہ سطحی باتیں کرکے عوام کاذہن الجھانے کی کوشش کررہے ہیں وہ آٹا،چینی،تیل،گیس اور بجلی مہنگائی کی بات کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ان کی قیمتیں وہ ہر ماہ بڑھا رہے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا ہے ان کے انصاف کا یہ عالم ہے بنی گالا کااپنا غیر قانونی محل12لاکھ جرمانہ دے کر جائز قراردلواتے ہیں جبکہ لاہور کا کھوکھر پیلس ناجائز قراردے کر مسمار کرتے ہیں جی تو ان کا چاہتا ہے کہ فوری طور پر صدربن جائیں لیکن آئین راستے میں حائل ہے وہ وحدانی طرز حکومت لانا چاہتے ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں چنانچہ صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کسی ماورائے آئین اقدام کے ذریعے1973ء کے آئین کو منسوخ کیاجائے اور ایوب خان طرز کا نیا آئین بنایاجائے۔
آئین اور مدت انتخاب کاعذربناکر وزیراعظم اپنی ناکامیوں کو نہیں چھپاسکتے وہ روزایمانداری کاراگ الاپتے ہیں اور این آر او نہیں دوں گا کہ نعرہ لگاکر کرپشن کیخلاف جہاد کااعلان کرتے ہیں لیکن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کرپشن میں اضافہ ہوگیا ہے وزراء اور مشیران یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ گزشتہ حکومت کے اعدادوشمار ہیں حالانکہ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ موجودہ حکومت کے بارے میں ہے سوال یہ ہے کہ اگر کرپشن بڑھ گئی ہے تو کس کی وجہ سے کون لوگ لوٹ مار کررہے ہیں؟ایماندار وزیراعظم کی موجودگی میں کس کی جرأت ہے جو کرپشن کرے ضرور دال میں کچھ کالا ہے بلکہ بہت کچھ کالاہے۔
عمران خان یہ تبدیلی لائے ہیں کہ شہروں کی ہر گلی میں خیراتی دارے بھوکے ننگے لوگوں میں کھانا بانٹ رہے ہیں نہ جانے آئندہ ڈھائی برسوں میں کتنے سیلانی کتنے عالمگیر کتنے حسینی دسترخوان اور کتنے عبداللہ شاہ غازی اور داتا درباروں کی ضرورت پیش آئے گی کروڑوں بیروزگار لوگ جائیں تو کہاں جائیں خود کشیاں بڑھ گئی ہیں آئندہ چل کر لوگ گھروں اور بڑے بڑے اسٹوروں کو لوٹنا شروع کردیں گے شہروں میں تو خیراتی کھانا مل جاتا ہے لیکن دیہات کے لوگ کیاکریں وہاں تو خیراتی ادارے کام نہیں کرتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں