بے سرور وبے حضور

تحریر: جمشید حسنی
میانمار،برما پھر فوجی انقلاب آگیا آنگ سان سوچی کو نظر بند کردیا گیا ہے فوجی لیڈر من الونگ ہنگ نے اقتدار سنبھال لیا ہے اور اسے ملک کا داخلہ معاملہ قرار دیا ہے۔آنگ سان سوچی نے بڑی جدوجہد کے بعد جمہوری حکومت بحال کی تھی اسے نوبل انعام ملا وہ اس سے پہلے بھی قید تھیں ان کے والد کو قتل کیا گیا۔میانمار بدھ مذہب کا ملک ہے۔وہاں پچھلے دو تین سالوں سے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے مجبو ر ہو کر انہوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی۔عالمی دباؤ کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور انہیں برمی شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔نئی حکومت میں بھی مسلمانوں کے لئے خیر کی توقع نہیں برمااور کولمبیا منشیات کی عالمی اسمگلنگ میں سر فہرست ہیں وہاں قیمتی پتھر نیلم پیدا ہوتا ہے یہاں کے لوگ مشرق بعید کے دوسرے لوگوں سے شکل وشہابت میں ملتے ہیں چٹنی ناک سیاسی مائل گندمی رنگ۔
پنجاب حکومت نوکروڑ روپیہ سے رائے عامہ کا سروے کریگی تا کہ حکومت بارے عوام کی رائے معلوم ہو ایک ہی واویلا ہے مہنگائی کرپشن میڈیا صبح وشام چیخ رہا ہے تیل ہر ہفتہ مہنگاہوتا ہے۔روز گار کے مواقع ناپید کرونا بہانہ ہے۔حکومت نے سومحکمے سات ہزار اسامیاں ختم کردی ہیں اسٹیل مل ریلوے پی آئی اے خسارہ کہا ایک کروڑ نوکریاں دیں گے حیرت تو یہ ہے کہ صنعتکار حکومت سے مہنگی بجلی خریدنے کو تیار نہیں جبر عام آدمی برادشت کررہا ہے۔چین سے پانچ لاکھ ویکسین آگئی ہیں ایک انار صد بیمار برطانیہ کی دو اساز کمپنی آسٹرنیکا سے ویکسین آئیگی غنیمت ہے کچھ تو ہوا امریکہ میں تین کروڑ لوگوں کو ویکسین لگ چکی سندھ میں 5768والوں کو کرونا ہوا تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں۔
حکومت اور حزب اختلاف کی کلامی نورا کشتی جاری ہے عام آدمی کو کچھ نہیں ملنا البتہ ان کے ایک دوسرے کو ننگا کرنے سے عوام کو حقائق معلوم ہورہے ہیں ورنہ ہم کہا جان سکتے حکومت سینیٹ کے کھلے انتخاب کے لئے قانون سازی کررہی ہے سپریم کورٹ سے بھی مشورہ مانگا ہے جو بھی ہوا نہی لوگوں نے آنا ہے اقتدار کا کھیل ہمیشہ طاقتور کے حق میں ہوتا ہے۔ہماری جمہوری اقدار زیادہ مستحکم نہیں حکومت بدلے بر سر اقدار طبقہ نہیں بدلتا۔
ملک میں جو نام نہاد جمہوریت ہے اسی پر قاتابع ہونا ہے کم از کم ہماری جیسی طمع گیر قومیں انقلاب نہیں لاسکتیں وزیراعظم کہتے ہیں اندرون سندھ دورہ کروں گا فی الحال تو پنجاب کے ترقیاتی پیکجوں سے فارغ نہیں معلوم نہیں معمول کے ترقیاتی عمل کی بجائے کیا پیکیج ضروری ہے پھر کہتے ہیں اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے مرکز کے پاس کچھ نہیں بچا لیا پچاس کروڑ ترقیات کے لئے ہے
ناروال میں ڈھائی ارب سے سپورٹس کمپلیکس بنا پھر کہتے ہیں چوری ہوئی کنفیوشس نے کہا یہ تو ایسا ہے کہ آپ کہیں مچھلی پانی میں رہے اور پانی نہ پیے۔شیر گوبھی گاجر شلجم نہیں کھاتا۔
آپ شاید کہیں میں آپ کا وقت ضائع کررہا ہوں جب کچھ لکھا نہیں جائے گا پڑھنے کو بھی کچھ نہیں ہوگا تمام الہامی کتابیں پڑھنے کے لئے ہیں آج بھی علم یکھت بڑھت ہے۔مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی نہیں سمجھ نہیں آئی اسٹیبلیشمنٹ سے ان کی مراد کیا ہے فوج بیورو کرسی،اقتدار میں تو آپ بیورو کریسی کو استعمال کرتے ہیں۔فوج آپ کو استعمال کرتی ہے آپ نے کب فوج کا ساتھ نہیں دیا ایوب خان یحییٰ خان جنرل ضیاء مشرف آپ ہی تو ایک دوسرے کو جی ایچ کیو کے محلوں کے پودے کہتے ہیں۔اقتدار میں پولیس بیوروکریسی آپ کی تابعدار ہوتی ہے۔فواد راؤانور دیگر بیوروکریسی حکومت وقت کے احکامات سے کیسے در گزر کرسکتی ہے وہاں بھی تو پھر آپ عوامی مینڈیٹ اور اکثریت کے دعویدار ہوتے ہیں مولانا فضل الرحمن بھائی کو ڈی سی لگوائیں گے مولانا شیرانی ایڈہاک لیکچرار بھائی کو ممبر انسپکشن ٹیم۔
حزب اختلاف لانگ مارچ استعفے آزاد کشمیر الیکشن،سینیٹ الیکشن پنجاب سرحد بلدیاتی الیکشن کچھ واضح نہیں کیا ہونے جارہا ہے عمران خان نے مانا نہیں خارجی طور پر نئی امریکی حکومت پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے کشمیرہے افغانستان ہے۔ایران امریکی کشیدہ تعلقات ہیں کل امریکہ ہمیں ایران کے معاملہ میں افغانستان کی طرح استوار کرنا چاہیے جیسے افغانستان میں ہم چالیس سال سے مسئلہ میں الجھے ہیں۔ہمارا کیا ہوگا ایران ہمسایہ اسلامی ملک ہے امریکہ ہندوستان کو ہمارے مقابلہ میں ترجیح دیتا ہے۔ہم بیرونی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں حکمرانوں کو میگا پراجیکٹس کا شوق۔
فی الحال تو زبانی گرماگرمی ہے سینیٹ کا الیکشن ہو بلدیات کے الیکشن ہوں تو صورت حال واضح ہو جلسے جلوس لانگ مارچ ہے حکومت جانی نہیں حزب اختلاف کا اپنا وضو بھی صحیح نہیں۔اقبال نے کہا
تیرا امام بے حضورتیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزرا ایسے امام سے گزر

اپنا تبصرہ بھیجیں