ایک کٹورا پانی۔ سوسال وفا

تحریر: انور ساجدی
قاضی فائز عیسیٰ جب تک بلوچستان میں تھے اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ایک مختلف آدمی تھے سپریم کورٹ جاکر اور اسلام آباد میں رہ کر وہ یکسر بدل گئے بلوچستان میں انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کونافذ کروایا خاص طور پر میڈیا پر کالعدم تنظیموں کی خبروں پربندش ان کا سخت حکم نامہ تھا وہ کوئٹہ میں اداروں سے اچھا خاصا تعاون کررہے تھے بلکہ انہوں نے ہمیں اپنی عدالت میں بلاکر کٹہرے میں کھڑا کردیا اور سرزنش کی کہ آپ لوگ بے حمیت تنظیموں کی خبریں کیوں شائع کرتے ہو۔طویل بحث کے بعد جب وہ لاجواب ہوگئے تو دریافت کیا کہ خبروں کی اشاعت کیسے روکی جاسکتی ہے ہم نے کہا کہ جمہوری نظام اور بنیادی حقوق کی بحالی کی صورت میں یہ ممکن نہیں اس کی صرف ایک صورت ہے کہ سنسر شپ نافذ کردی جائے معزز چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے علاوہ اور کیاراستہ ہے ہم نے کہا کہ جناب آپ کافی عرصہ تک روزنامہ ڈان میں مضامین لکھتے رہے ہیں یعنی ایک طرح سے خود صحافی ہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جمہوری نظام میں خبروں پر پابندی ناممکن ہے ان وضاحتوں کے باوجود فاضل چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جن واقعات کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے ان کے شائع کرنے کی اجازت ہے تاہم جن خبروں میں کالعدم تنظیموں اوراسکے لیڈروں کی ستائش کا پہلو نکلتا ہو وہ شائع نہ کی جائیں اس حکم کے بعد بلوچستان کے میڈیا پر سخت ترین سنسر شپ کاآغاز ہوا مختلف اداروں کے لوگ زبانی ایڈوائس اور ہدایات دے کر اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ کوئی حساس نوعیت کی خبر شائع نہ ہو اس سے قبل ان خبروں کی اشاعت پر روزانہ مختلف اخبارات کیخلاف سٹی پولیس اسٹیشن میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے جاتے تھے ان مقدمات کی تعداد بڑھ کر کئی درجن ہوگئی تمام تر پابندیوں کا اطلاق دواخبارات پرزیادہ کیاجاتا تھا جبکہ ان کی معاشی ناکہ بندی بھی کی گئی صوبائی حکومت کے اشتہارات بند کردیئے گئے جبکہ وفاق نے بھی اچانک اپنے اشتہارات کا اجراء روک لیا یہ نوازشریف کا دور تھا جو اپنے آپ کو ایک منتخب اورجمہوریت پسند وزیراعظم کہتے تھے ہم نے بڑی فریادیں کیں آسمان سرپر اٹھالیا لیکن اے پی این ایس نے ہماری کوئی بات نہیں سنی البتہ سی پی این ای نے آواز اٹھائی قراردادیں منظور کیں لیکن اس کی آواز بھی اتنی توانانہیں تھی جو ملک کے دیگر حصوں کے اخبارات کیلئے ہوتی تھی جب قاضی فائز عیسیٰ نے پہلا فیصلہ دیا تو وہ زرداری کا دور تھا اس دور میں بلوچستان میں 40سے زائد صحافی قتل ہوچکے تھے ہرطرف خوف کا سایہ تھا اداروں کی دھمکیاں تھیں حکومتوں کی زیادتی تھی لیکن کسی نے بات نہیں سنی۔
آج جبکہ جسٹس عیسیٰ کیخلاف حکومتی ریفرنس دائر ہے اور ایسا تاثر موجود ہے کہ انہیں انتقامی کارروائیوں کانشانہ بنایاجارہا ہے کوئی نہیں جانتا کہ خبروں کی اشاعت روکنے کے ذمہ دار وہی ہیں۔انہوں نے گزشتہ روز سماعت کے دوران معرکۃ الآرا ریمارکس دیئے جس کی پورے ملک میں واہ واہ ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ جب صحافت تباہ ہوتو ملک بھی تباہ ہوجاتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ صحافت کو کنٹرول کیاجارہا ہے اور اصل صحافیوں کواٹھاکر پھینک دیا جاتا ہے فاضل جج نے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو توڑنے کے ضمن میں فرمایا کہ پنجاب کومشرقی پاکستان بنایاجارہاہے۔
اگرجسٹس عیسیٰ میں خداترسی ہو اور وہ سچ کا بول بالا کرنے کے حق میں ہیں تو عوام کوصاف بتادیں کہ انہوں نے کس وجوہات پر صحافت پر پابندی کاآغاز بلوچستان سے کیا اور وہ کیا اسباب وعوامل تھے کہ وہ پاکستان کے پایہ تخت پہنچ کر بدل گئے اگرچہ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ جو عناصر حکومت کی حمایت کریں وہ محب وطن اور جومخالفت کریں انہیں غدار کہاجاتا ہے غالباً غالباًفائز عیسیٰ سے پہلا قصور اس وقت سرزد ہوا جب انہوں نے نوازشریف کیخلاف حدیبیہ پیپر ملز کامقدمہ ہمیشہ کیلئے خارج کردیا اگرایسا نہ ہوتا تو یہی کیس نوازشریف کو سزادینے کیلئے کافی تھا کیونکہ اس کیس میں نوازشریف پرکیس ثابت تھا اور لندن ہائی کورٹ نے میاں صاحب کے پارک لین والے فلیٹ ایون فیلڈ کواٹیچ کردیا تھا بعدازاں فریقین کے درمیان صلح ہوئی تو یہ فلیٹ واگزار ہوگئے تھے لیکن قاضی صاحب نے قراردیا کہ چونکہ ٹائم بار ہوچکاہے لہٰذا یہ مقدمہ دوبارہ نہیں چل سکتا اس فیصلے سے طاقتور عناصر کافی پریشان ہوئے اور بالآخر انہیں میاں نوازشریف کوسزا دینے کیلئے اقامہ کا سہارا لینا پڑا حالانکہ اقامہ متعدد سیاستدانوں،بیوروکریٹس اورخودحکومتی وزرا کے پاس بھی موجود تھا۔
حدیبیہ کیس کی وجہ سے ہی بڑے فائز عیسیٰ سے ناراض ہوئے اور ان کا خیال تھا کہ انہوں نے نوازشریف کا بڑا فیور کردیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خاندان کاتعلق اگرچہ بلوچوں سے گہرا تھا لیکن ان میں علاقائی اور لسانی احساسات مفقود تھے انکے دادا قاضی جلال دین کو خان آف قلات نے قندھار سے بلواکر اپنا وزیراعظم مقرر کیا تھا خان قلات کی وجہ سے ہی ان کے فرزند قاضی عیسیٰ لندن جانے اور بیرسٹر بننے میں کامیاب ہوگئے اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے وہ بانی پاکستان کے قریب ترہوگئے اور ان کے چند قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے قلات کے آخری باقاعدہ خان میراحمد نے بتایا کہ قاضی عیسیٰ نے ہمارے احسانوں کابدلہ اس طرح چکایا کہ مسلسل ریاست قلات کیخلاف سازشوں میں مصروف رہے۔مسٹر محمدعلی جناح بلوچستان کے حوالے سے صرف قاضی عیسیٰ کی باتوں پر یقین رکھتے تھے حالانکہ مسلم لیگ صرف کوئٹہ شہر اور پشین تک محدود تھی اور کوئٹہ کے چند تاجر اس میں شامل تھے جن میں سرفہرست سیٹھ اعظم بلوچ تھے لیکن وہ اتنے قدآور نہ ہوسکے جتنے کہ قاضی صاحب ہوئے قاضی عیسیٰ کے بڑے بھائی قاضی موسیٰ تھے انکی صاحبزادی ممتاز بلوچ لیڈر نواب خیربخش مری کی اہلیہ تھیں قاضی موسیٰ کی دوسری اہلیہ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا جن کا نام جنیفرموسیٰ تھا اور وہ بھٹو کے دور میں نیپ کے ٹکٹ پر ایم این اے تھیں۔
ریاست قلات میں مسلم لیگ سرے سے وجود نہیں رکھتی تھی کیونکہ انگریزوں نے انڈیا کی سیاسی جماعتوں کی ریاستوں میں تنظیم کاری پرپابندی عائد کررکھی تھی۔
اگر آل انڈیا مسلم لیگ کاریکارڈ دیکھاجائے تو ہراجلاس ہرتقریب میں قاضی عیسیٰ مسٹر جناح کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں پاکستان کے بعد اگرچہ انہیں ایک بار سفیر بنایا گیا لیکن ان کی خدمات کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا جس طرح کہ مسلم لیگ کے دیگر زعما کی خدمات کوتسلیم نہیں کیا گیا۔
ایک دن کیا ہوا کہ وہ ٹکٹ لینے پی آئی اے کے دفتر گئے نشست دستیاب نہیں تھی انہوں نے عملہ پر زور دیا کہ وہ قاضی محمدعیسیٰ ہیں وہ پاکستان کے بانیوں میں شامل ہیں اس لئے انہیں نشست دی جائے اس پر نوجوان اہل کار نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ آپ کون ہیں جایئے نشست نہیں مل سکتی اس پرقاضی صاحب کووہیں پردل کا دورہ پڑا اور وہ رحلت کرگئے۔
قاضی صاحب کے بھتیجے اشرف جہانگیر مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیررہ چکے ہیں۔
ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جب وہ امریکہ میں سفیر تھے تو پاکستانی میڈیا سے ان کی ملاقات تھی ان دنوں بلوچ تحریک کے حوالے سے امریکہ میں کچھ چرچا تھا پاکستانی صحافی سفیر سے پوچھ رہے تھے کہ اس تحریک کے سرغنہ خیربخش مری ہیں اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے غدار ہیں ان بے چاروں کو معلوم نہیں تھا کہ سفیر صاحب نواب خیربخش کے برادرنسبتی تھے اس لئے انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا
قاضی فائز عیسیٰ شائد بلوچوں کے اس لئے خلاف تھے کہ ان کی اہلیہ بلوچ ہیں اور جن کی وجہ سے انہیں نصیر آباد میں سینکڑوں ایکڑ اراضی ملی یا انہیں جوخاندانی ورثہ ملا وہ کروڑوں میں تھا اور اس سے انہوں نے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں لیکن انہوں نے جہاں ساری عمر وفاداری رکھی وہ ہوا کے جھونکے کے ساتھ بے اعتباری یاغداری میں تبدیل ہوگئی۔
یہ صرف بلوچستان میں ہوتا ہے کہ ایک کٹورے پانی کی قیمت سو سال وفا ہے
خدا کرے کہ جسٹس فائز عیسیٰ مشکلات سے نکل آئیں لیکن راولپنڈی کا دستور ہے کہ اگر کوئی ان کے نزدیک نامعتبر ٹھہرا وہ کبھی دوبارہ معتبرٹھہرنے کااعزاز حاصل نہیں کرسکے گا شائد قاضی صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں