پی ڈی ایم دس فروری اور لانگ مارچ۔۔

تحریر: راحت ملک
ایک معروف صحافی نے تنقید کرتے ہوئے استد لال پیش کیا ہے کہ ” پی ڈی ایم حکومت کو گرانے کے لئے جو کوششں کررہی ہے وہ غلط ہے حکومت کو پانچ سال کے لئے منتخب کیا گیا ہے اگر اپوزیشن سٹریٹ پاور کت ذریعے حکومت گرائے گی تو وہ وہی کچھ کرے گی جس کے خلاف وہ جدوجہد کررہی ہے اور ماضی میں اس طرز عمل کی نقاد رہی ہے” کسی وقفے کے بغیر موصوف نے پھر فرمایا
” پی ڈی ایم سیاست اور انتخابات میں جس مداخلت کے خلاف بر سر پیکار ہے وہ درست نقطہ نظر ہے ”
۔عجیب نرالی منطق ہے اگر حکومت کے خلاف پرامن سیاسی جدوجہد کی جائے تو اسے سابقہ حزب اختلاف کے طرز عمل کی تائید سمجھا جائے لیکن جعلی اور غیر شفاف شدہ سلیکشن و مداخلت کے نتیجے میں مسلط ہونے والی حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے تو کیا یوں انتخابات اور سیاست میں غیر آئینی مداخلت جائز تسلیم نہیں ہوجائے گی؟ناجائز حکومت کو مدت پوری کرنے دو تو درست اور اگر مداخلت سے پاک سیاسی عمل کے لئے جدوجہد کرو تو یہ بھی درست طرز عمل۔ یعنی چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی۔ درست استدلال کے لیے منطق کا ایک بنیاد اصول مانع اجتما ٍ نقیضین ہے معروف اینکر نے اپنے اظہار ٍ خیال میں اسکی دھجیاں اڑائی ہیں چونکہ وہ معروف صحافی یا اینکر ہیں لہذا ان کی فرمودہ ہر بات درست سمجھی جائے۔ بھیا غیر شفاف طریقے اور ووٹ چوری کرکے بر سر اقدارلائی گئی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطلب غیر آئینی سیاسی مداخلت کی توثیق و تائید کرتا ہے۔چنانچہ شفاف اور آزادانہ طور پر منتخب حکومت کے قیام کے اصولی موقف سے وابستہ رہتے ہوئے اس کے حصول کی جدوجہد کا لازمی تقاضا غیر آئینی ذریعے سے لائی گئی حکومت کو پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے اقتدار سنگھاسن سے نکالنا درست ہی نہیں بلکہ آئینی اور سیاسی مثالیت پسندی کے عین مماثل ہوگا۔ برادرم سے التماس ہے کہ تنقید کر نے سے قبل اپنے موقف کا خود تنقیدی جائزہ لینا بری بات نہیں ہوگی۔ تو پہلے سوچو پھر بولو معقول محاورہ ذھن نشین فرمالیں
ادھر گیٹ نمبر چار کے پروردہ جناب شیخ رشید بھی یہی استدلال پیش کرتے ہیں کہ ” اسمبلیوں کو جعلی قرار دینے والے اب انہی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ انتخابات میں شریک ہوکر اپنے موقف سے دستبردار ہو رھے ہیں ” جبکہ عملی صورتحال بہت مختلف ہے حالیہ اسمبلیوں کی قانونی ساکھ روزاول سے ہی مشکوک رہی ہے کیونک ان کے قیام کے لیے اپنایا گیا طرز ٍ عمل۔ انداز اور نتائج کے وقت آر ٹی ایس کا خراب ہوجانا،پولنگ ایجنٹس کو ووٹوں کی گنتی کے مرحلے میں پولنگ سٹیشن سے باہر نکال دیا جانا، مرتب شدہ نتیجہ کی کاپی یعنی فارم 16 پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ ایسے واقعات میں جو اسمبلیوں کو غیر درست اور غیر شفاف طریقے سے ” منتحب ” کیے جانے کی شہادت دیتے ہیں بہ الفاظ دیگر رائے دہندہ گان کی مرضی اور خواہش کے منافی یا اسکے برعکس کسی کو کامیاب قرار دلانا جمہوریت آئین کی توہین ہے جو بذات خود اسمبلیوں کی ساکھ کے لئے زیر قاتل کے مساوہ ہے تاہم ان اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنے جائز تحفظات کا اظہار کرنا،بالکل دوسرا اور درست سیاسی اقدام تھا جو طاقتور گھمنڈی سوچ کے سابقہ تجربات سے اخذہ کردہ بھی ہے۔ جنرل ضیاء کی مارشل لاء کو بیشتر سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی جائز حکمران تسلیم نہیں کیا تھا حالانکہ سپریم کوڑٹ نے مارشل لاء جیسے آئین شکن اقدام کو قانونی جواز بھی مہیا کیا تھا لیکن آج بھی ملک میں کوئی صاحب فہم ذکا جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کو آئینی وقانونی حکمران تسلیم نہیں کرتا۔ مگر تمام منکرین ان ادوار میں جبراً و بیبسی سے جیتے رہے جبکہ تاریخ دونوں جنرلز کو غیر متنازعہ طور پر فوجی آمر ہی لکھ رہی ہے سو پی ڈی ایم کی جانب سے بہ امر مجبوری،سیاسی خلاٰ سے بچنے کے لئے موجودہ اسمبلیوں میں شریک ہونا اور سینیٹ کا انتخاب لڑنا،ان اسمبلیوں کی قانونی ساکھ تسلیم کرانے کا معیار قعطناٰ نہیں، اصلی معیار آئین میں درج عام انتخابات کے انعقاد کی شرائط ہی ہیں جو آزادانہ مداخلت سے پاک صاف شفاف پر امن رائے شماری کرانے اور رائے دہند گان کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے نتائج مرتب کر کے انہیں تسلیم کرنے اور مکمل طور پر تمام اختیارات منتخب حکومت کو منتقل کر نے کی ضمانت دیتا نیز پابندی عائد کرتا ہے حکومت کے وزراء جب اپوزیشن پر طنز کرتے ہوئے جعلی اسمبلیوں کے ذریعے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے پرپھبتی سکتے ہیں تو عین اسی لمحے وہ خود موجودہ اسمبلیوں کی قانونی اخلاقی و سیاسی ساکھ پر انگلیاں اٹھا دیتے!!!
4فروری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں جو فیصلے ہوئے ہیں وہ اسکے پالیسی نقاط کی تجدید ہیں، عملی اقدامات اور جزیات کی تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آسکتی ہیں تاہم یہ طے ہوگیا ہیکہ جناب بلاول بھٹو عدم اعتماد سے متعلق اپنی تجویز پر شرکاء مجلس کو مطمئن نہیں کرسکے جو اعداد وشمار کے ساتھ ساتھ سیاسی نزاکتوں پر مبنی سوالات کے تشفی بخش جواب کی متقاضی تھی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ اور حالات کا یہی مطمع نظر ہوسکتا تھا کہ اقتدار و اختیار کے اندونی حلقے میں امکانی انتبدیلیاں ملحوظ رکھتے ہوئے جناب بلاول کی تجویز کو یکسر رد نہیں کیا گیا بلکہ اسے زیر غور رکھنے کا معقول فیصلہ ہوا ہے بعید از قیاس نہیں کہ آنے والے چند دنوں میں حکمران جماعت کے اندر سے بہت سے ارکان سینیٹ انتخابات میں اپنی پارٹی کے امیدواروں میں سے چند کے خلاف علم بغاوت بلند کردیں تو اس کا بہت عمیق سیاسی اثر قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اراکین کے رویئے پر پڑ سکتا ہے بعید نہیں کہ وہ بیرون ملک سے آئے ہوئے خارجی غیر متنخب ارکان کی بالادستی کو اب مزید برداشت کرنے سے انکار کردیں۔ اس کا امکان سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار کے حتمی تعین پر منحصر ہوگا۔خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہویے معاملات تو انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعدکھلیں گے جبکہ اوپن رائے شماری کا فیصلہ سینیٹ انتخابات سے قبل عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے راہ ہموار کردے گا۔ حکومت نے صدارتی ریفرنس اور پارلیمنٹ میں ترامیم سے مایوس ہو کر صدارتی فرمان کے ذریعے سینٹ انتخابات کرانے کی راہ اپنائی ہے اس فیصلے سے حکومت کی قانونی ٹیم کی دانش پر سوال اٹھ گے ہیں کیا لاعلمی میں مبتلا ہیں یا ارادی طور پر حکومت کو گہری شرمندگی کی جانب دھکیل رہے ہیں؟
آئین کی شق 226 کسی ابہام کے بغیر سینٹ انتخابات خفیہ رایے شماری کے ذریعے کرانے کی پابند عائد کرتی ہے۔علاوہ ازیں شق 89 و ذیلی دفعات صدارتی آرڈیننس کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے مساوی قرار دیتی ہے مگر مشروط طور۔ آئین میں ترمیم کا سپریم کورٹ اور صدر مملکت کو اختیار ہی نہیں۔مجوزہ صدراتی حکم کا اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے سے مربوط کیا گیا ہے مگر 12 فروری کے سینٹ انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے کا بھی حکم میں عندیہ دیا ہے۔کیا حکومت سپریم کورٹ کو 12 فروری سے قبل صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سنانے کے لی دباؤ رہی ہے؟
اگر صدارتی حکم سے آئین میں ترمیم ممکن تھی تو حکومت سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں بل کیوں لے کر گئی تھی؟ حکومتی وطیرہ آئین شکنی کے مترادف اور اپنے خلف کی کھلی خلاف ورزی ہے جسے عدلیہ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے
پی ڈی ایم نے تو پارلیمان میں نئی آئین سازی یا ترامیم کے مروجہ طریقہ کار کو بلڈوز کئے جانے پر زیر بحث ترامیم مسترد کردی ہیں۔ اور صدارتی حکم کی بھرپور مزاحمت کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے سیاسی حالات میں کشیدگی تصادم کی طرف جاتی نظر آرہی ہے قبل ازیں بھی قیاس کیا جارہا ہے کہ دوھری شہریت کے حامل افراد کو پارلیمان کا رکن بنانے کی اجازت دینے کے ذاتی و شخصی مقاصد ہیں گویا آئین و قانون پر عمل پیرائی کو ترجیح دینے کے برعکس وزیراعظم اپنے ساتھیوں کو نوازنے کے لئے آئین وقانون کو موم کی ناک بنانے پر تل گئے ہیں دوھری شہریت میں ترمیم سے متعلق ایک قیاس آرائی جناب فیصل ووڈا کو نااہلی سے بچانے کے متعلق سامنے آئی۔ مگر شاید یہ خیال درست نہیں کیونکہ زیر بحث ترامیم میں آئین کی شق12 شامل نہیں جو موثر یہ ماضی قانون سازی کی ممانعت کرتی ہے۔
پارلیمان میں زیر غور آئینی ترامیم کی منظوری کے لئے حکومت نے ماضی قریب کی طرح (جیسا کہ فیٹف اور مدت ملازمت میں توسیع کے بلوں پر ہواتھا) طاقتوروں سے تعاون وکردار ادا کرنے کی گذارش کی تھی اطلاعات کے مطابق اس گذارش کو پذیرائی دینے سے معذرت کی گئی ہے اگر یہ اطلاع درست ہے تو پھر حکومت اتحاد یا پی ٹی آئی کے نالاں افراد کی جانب سے مجوزہ تحریک عدم اعتماد میں تعاون کئے جانے کے امکانات بڑھتے ہیں۔
گذشتہ تیس روز میں چیف ایگزیکٹو۔۔ آڑمی چیف اور آئی ایس آئی چیف پر مشتمل ٹرائیکا کی چوتھی ملاقات متذکرہ صدر اطلاع پر بھروسہ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
پی ڈی ایم کے فیصلے کے مطابق 26جولائی کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع ہوگا تو 28 مارچ تاریخ تک قافلے اسلام آباد یا فیض آباد چوک تک پہنچیں گے۔قافلے جن راہوں سے گزریں گے وہاں وہاں سیاسی ہلچل پیدا ہوتی جائے گی اگر اس سے قبل ملک گیر ہرٹال بھی کرائی گئی تو لانگ مارچ کے اثرات 26 مارچ سے قبل نمایاں ہونے لگیں گے بہر طور مارچ کی28اور بعدکے دن سیاسی درجہ حرارت میں اضافے اور فیصلہ کن لمحات ہونگے۔لانگ مارچ کو ہوشرباء مہنگائی کے خلاف عوامی احتجاجی کا عنوان دینے سے سیاسی تحریک کے عوامی اجتماع میں بدل جانے ممکن ہوگیا ہے اور اس تناظر میں دس فروری کو اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے مجوزہ احتجاج کے ساتھ بطور اظہار یکجہتی پی ڈی ایم کی شمولیت وحمایت بہت معنی خیز ہو گئی ہے۔ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کا یہ فیصلہ حکومت کو سرکاری ملازمین کے مطالبات فوری تسلیم کرنے پر مجبور کر دے بصورت دیگر دس فروری سے ہی لانگ مارچ کی ریہر سل شروع ہو جائے گی۔ اور اگر حکومت نے ملازمین کے مطالبات کے آگے سپر اندازی اپنائی تو اس کا سیاسی فائدہ بھی اب پی ڈی ایم کو ملے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں