کشمیر،چین اور امریکہ

تحریر: انور ساجدی
یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے کشمیر سے متعلق وزیراعظم عمران خان کی بات اچھی لگی ان کا یہ کہنا کہ ایک دفعہ رائے شماری ہوجائے تو اسکے بعد یہ فیصلہ کرنا کشمیری عوام کاحق ہے کہ انہوں نے دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ ضم ہونا ہے یا آزاد رہنا ہے جہاں تک گریٹر کشمیر کی آزادی کا تعلق ہے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف نے یہ خیال پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ دونوں کشمیر کو ملا کر پہلے10سال کیلئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں دی جائے اسکے بعد رائے شماری کروائی جائے اگرکشمیری عوام نے آزاد مملکت کافیصلہ کیا تو انکی رائے کااحترام کیاجانا چاہئے۔
ویسے اس وقت انڈیا اور پاکستان کی جوصورتحال ہے کشمیری عوام کی اکثریت ضم ہونا نہیں چاہے گی خاص طور پر نریندر مودی نے سیکولر بھارت کا حلیہ بگاڑ کروہاں پر برہمن آمریت نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور جس کے نتیجے میں جوکروڑوں لوگ اپنے بنیادی حقوق بلکہ جینے کے حق سے محروم ہوگئے ہیں یا مودی نے بھارتی آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کردیا ہے اور وہاں کے80لاکھ لوگوں کو عملاً قیدی بنالیا ہے اس کے بعد کشمیری بھارت کا حصہ بننا پسند نہیں کریں گے کچھ اس سے کمترصورتحال پاکستانی کشمیر بشمول گلگت بلتستان کی ہے اسلام آباد میں بیٹھے لوگ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن وہ کشمیری عوام کا رتبہ بڑھانے اور انہیں برابرکاشہری ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کہنے کو تو کشمیر ایک آزاد ریاست ہے اس کا اپنا آئین ہے پارلیمنٹ ہے سپریم کورٹ ہے لیکن یہ آزاد ریاست اسلام آباد کے ایک جوائنٹ سیکریٹری کے ماتحت ہے آزاد کشمیر کے عام انتخابات بھی برائے نام ہوتے ہیں مرکز میں جو حکومت آتی ہے اسی پارٹی کو انتخابات میں جتوایا جاتا ہے حالانکہ یہ طریقہ غلط ہے اگر آزاد کشمیر الگ ریاست ہے تو پاکستانی سیاسی جماعتوں کا وہاں پر کیا کام اصولاً پاکستانی سیاسی جماعتوں کووہاں پرمداخلت نہیں کرنی چاہئے اور وہاں کی مقامی جماعتوں کو یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ الیکشن لڑیں اور کسی دخل اندازی کے بغیر حکومت قائم کریں لیکن کہاں شروع سے ہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ وہاں کی سیاست میں دخل دیتی آرہی ہیں بلکہ زیادہ ترحکومتیں انہی کی رہی ہیں شائد ایک دوبار مسلم کانفرنس کی حکومت رہی ہے ایک اور مسئلہ گلگت بلتستان کا ہے بنیادی طور پر یہ کشمیر کا حصہ ہے لیکن پاکستان نے اسے ہمیشہ کشمیر کا حصہ نہیں سمجھا بلکہ اب تو اسے مستقل طور پرپاکستان میں ضم کرنے کاارادہ ہے حالانکہ اس سے کشمیر کا مسئلہ کمزور ہوگا یعنی بھارتی زیرقبضہ کشمیر ہمیشہ کیلئے بھارت کا حصہ بن جائیگا جبکہ گلگت بلتستان پاکستان کا اٹوٹ انگ بن جائیگا آخر کار ایک دن آزاد کشمیر کو بھی پاکستان کے اندر ضم کردیاجائیگا اس طرح مسئلہ کشمیر ہمیشہ کیلئے حل ہوجائیگا۔
آزاد کشمیر کے لوگ اس لئے بھی مایوس ہیں کہ 73سال سے اس کی پسماندگی برقرار ہے پوری ریاست کے ترقیاتی فنڈز لاہور شہر کے ترقیاتی بجٹ سے 5گناہ کم ہیں وہاں پر جو بھی ترقی ہوئی ہے وہ ان لوگوں کی وجہ سے ہے جو1960ء کی دہائی میں منگلا ڈیم کی وجہ سے ولایت ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے لندن شہر میں کم از کم پانچ لاکھ کشمیری آباد ہیں جو ہر سال اربوں روپے کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں پاکستان کی مرکزی سرکار اتنے پیسے بھی نہیں دیتی جو باہر رہنے والے کشمیری بھیجتے ہیں۔
میراخیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ بھارت اور پاکستان کوکشمیر کی وجہ سے جوجنگی صورتحال درپیش ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ شملہ معاہدہ کے بعد یہ بات طے ہے کہ اس مسئلہ کا حل جنگ کے ذریعے نہیں ہوگا بلکہ گفت وشنید کے ذریعے ہوگا اگرچہ مودی نے اپنے زیر قبضہ کشمیر کو ہڑپ کرکے بات چیت کے ذرائع بند کردیئے ہیں شائد ان کے بعد جو بھارتی قیادت آئے وہ دوبارہ بات چیت کا آغاز کرے۔
مسئلہ کشمیر پرانڈو پاکستان آخری جنگ 1998ء میں جنرل مشرف نے لڑی تھی اور اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے مطابق انہیں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے انہیں امریکہ جاکر صدرکلنٹن سے درخواست کرنا پڑی تھی کہ وہ جنگ بندی کروائیں۔
1998ء کی کارگل جنگ سے قبل1971ء اور1965ء کی جنگیں ہوئی تھیں 1971ء کو سقوط مشرقی پاکستان کے سانحہ نے کشمیری عوام کو سخت اذیت پہنچائی تھی کیونکہ وہ سوچتے تھے کہ پاکستان بزور شمشیر انہیں آزادی دلوائے گا لیکن پاکستان خود دولخت ہوگیا۔
وزیراعظم عمران خان گزشتہ ڈھائی سال کے واقعات سے جنگ کے احکامات کو ٹالتے رہے ہیں وہ معاشی حالات کے پیش نظر جنگ سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ معیشت جنگ کے قابل نہیں ہے وہ جانتے ہیں کہ انڈیا نے جو کچھ حاصل کرنا تھا کرلیا نہ اسکے ہاتھ کچھ آئیگا اور نہ ہی پاکستان کچھ حاصل کرسکے گا وہ ہرحال میں امن چاہتے ہیں اسی لئے انہوں نے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو قیدی بنانے کی بجائے خیرسگالی کے طور پر چھوڑدیا سکھوں سے پیار،محبت اور الفت کے جذبہ کے پیچھے بھی امن کی خواہش ہے عمران خان نے بابا گرونانک کے آخری ایام کے مسکن کرتارپور کو اسی لئے کھول دیا جہاں سکھ زائرین آزادی کے ساتھ آجارہے ہیں اگرقادیانی کے لوگ چاہیں تو وہ بھی اپنے رشتہ داروں سے ملنے کیلئے اسی راہداری کے ذریعے آسکتے ہیں۔
عمران خان اورکچھ جانیں نہ جانیں یہ جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ماضی کی جنگیں ہیں اورمستقبل کے بے تحاشہ اخراجات ہیں کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیاء میں اسلحہ کی دوڑ جاری ہے اور اسی وجہ سے بھارت اورپاکستان صرف ایٹمی اسلحہ بنانے پرمجبورہوئے بلکہ انکے دور مارمیزائل بھی تنازعہ کشمیر کا شاخسانہ ہے اگر پاکستان اور بھارت امن قائم کرکے اپنے وسائل ایٹم بموں،نائٹروجن بم اور میزائلوں پرخرچ نہ کریں تو وہ اپنے عوام کی غربت کم کرکے معاشی میدان میں تیز رفتار ترقی کرسکتے ہیں۔
کتنا بڑاالمیہ ہے کہ بھارت میں 60کروڑ اور پاکستان میں 10کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں دوسرے لفظوں میں وہ دووقت کی روٹی کیلئے محتاج ہیں کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور کروڑوں لوگ ہی علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
پاکستان نے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سی پیک کا منصوبہ منظور کیا ہے تاکہ وہ چین کے ذریعے ترقی کرسکے لیکن نئے امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ چین بھاری سود پردیئے گئے قرضوں کے ذریعے پاکستان کو اپنے نیچے لارہا ہے اگر یہ بات درست ہے تو کل کلاں چین نے سعودی عرب کی طرح اپنے پیسے مانگ لئے تو پاکستان 26ارب ڈالر کیسے واپس کرے گا ایسا نہ ہو کہ پاکستان کو اپنے قیمتی اثاثے چین کے حوالے کرنے پڑیں قیمتی اثاثے زمین کے سوا اور کچھ نہیں ہے وہ بھاری قرضوں کے عوض گوادر کا قیمتی ساحل ریکوڈک میں کھربوں ٹن سونے کے ذخائر اور شمالی علاقہ جات کامطالبہ کرسکتا ہے یاد رکھنے کی بات ہے کہ چین موجودہ استعماری طاقت امریکہ کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی سابق استعماری ملک برطانیہ عظمیٰ کی طرح ہے جو اپنے قرضوں کے بدلے میں ملکوں کے قیمتی اثاثے طلب نہیں کیاکرتے تھے۔
چین جدید دور کا پراسرار پیچیدہ اور مشکل ترین استعماری ملک ہے جس نے اپنی ذہانت اور ساری دنیا کو تجارت کے ذریعے لوٹ کر جو پیسہ جمع کیا ہے وہ اس کے ذریعے وہ دنیا پر اپناتسلط چاہتا ہے بلکہ اس نے قرن،افریقہ،ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں اس کا آغاز کردیا ہے بحرہند کے چھوٹے سے ملک جیبوتی میں اس کا پہلا نیول اڈہ کام کررہا ہے اس نے کینیا،یوگنڈا اور سری لنکا کے پورٹس اپنے قرضوں کے بدلے حاصل کرلئے ہیں اگر وہ کل گوادر میں اپنا اڈہ قائم کرے تو اسے کون روکے گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ اتنے بھاری قرضوں کے بعد اسے کیا چیز ادا کرکے جان چھڑائیں گے امریکی اور انگریز تو سلیقہ کے آقا تھے وہ ابتدائی ادوار میں غلاموں سے بدترین سلوک کرتے تھے لیکن19ویں صدی میں انہوں نے غلاموں کوساتھ ملالیا لیکن چین ایسا نہیں کرے گا اس نے جس طرح اپنے عوام کو روبوٹ اور جانور سمجھ کر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کررکھا ہے وہ اپنے ماتحت ممالک یعنی 21ویں صدی کی کالونیوں کوالگ انداز میں رکھے گا۔
چین آج ٹیکنالوجی میں امریکہ کا ہم پلہ ہے وہ بھی سمندروں اور خلاء کو مسخر کرنے میں لگاہوا ہے تاکہ اپنے خطرناک اسلحہ کے ذخائر وہاں پر محفوظ رکھ سکے اور مخالف ممالک پرخطرناک کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرسکے چین سے فائیوجی ٹیکنالوجی میں امریکہ پرسبقت حاصل کرلی ہے اور وہ7جی ٹیکنالوجی بنارہا ہے مستقبل میں ان دونوں سپرپاورز کے درمیان ٹکراؤ لازمی ہے جبکہ پاکستان جیسا کمزور ملک بلاوجہ سینڈوچ بن رہا ہے پاکستان کوایسی قیادت کی ضرورت ہے جو سی پیک منصوبہ کو ترک کردے چین کا قرضہ واپس کرے اور خطے میں امن قائم کرکے اپنے وسائل سے ترقی کا منصوبہ بنائے ورنہ بڑے ہی نامساعد حالات پیداہوجائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں