سینیٹ انتخابات، مائینڈ سیٹ بدل رہا ہے؟

تحریر: راحت ملک
کئی بیتے برسوں سے مرکزی مقتدرہ اور اب موجودہ حکمران جماعت آئین میں صوبوں کو تفویض کئے گئے اختیارات پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر چکی ہے واقفان حال جانتے ہیں کہ مقتدرہ 18ویں ترمیم سمیت پارلیمانی جمہوری نظام کو لپیٹ کر مضبوط مرکزی حاکمیت قائم کرنے کی شدید خواہش رکھتی ہے کہ مرتکز شدہ مرکزی حاکمیت ان کی بالادستی کو مستحکم تر کرنے میں مزید معاون ہوگی پی ٹی آئی حکومت علی الاعلان 18ویں ترمیم پر تنقید کر چکی اس کا ” واہمہ ” یہ ہے کہ اس ترمیم کے نتیجے میں اور خاس طور این ایف سی ایوارڈ کے طے شدہ فارمولے کے بعد وفاق کے پاس ترقیاتی منصوبہ بندی کیلئے وسائل نہیں بچتے۔ یہ ادھورا سچ ہے وفاقی حکومت اگر وفاقیت کے اصول پر چلے تو چار کے علاوہ اسکے پاس کوئی محکمہ ہونا ہی نہیں چاھیے چہ جائیکہ لاتعاد سیمی گورنمنٹ۔ دوھرے محکمے کارپوریشنز اور نیم سرکاری ادارے بھی اسکی چھپر چھایہ تلے چلیں بھوجل اور غیر ضروری اخراجات میں پرامن ہمسائیگی پرامن بقائے باہمی سے تنازعات کا آبرومندانہ حل نکال خطے میں امن استحکام اور ترقی کے دیرینہ خواب کو عملی تعبیر دی جاسکتی جس سے وفاقی حکومت پر پڑنے والی بیتحاشہ دباو، میں کمی سے دستیاب وسائل عوامی فلاح و بہبود یا بینادی ترقیاتی منصوبوں پر صرف کرکے غربت بے روزگاری اور مہنگائی کا نوثر سدباب یقینی ہو سکتا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ مرکزی خزانے میں جو وسائل جمع ہوتے ہیں وہ مرکزی حکومت کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں جبکہ در حقیقت تمام وسائل صوبوں کی معاشی صنعتی و تجارتی سرکمے سے جمع ہوتے ہیں پھر قابل تقسیم آمدن کے پول میں جمع ہوکرایک فارمولے کے تحت صوبوں کو ل واپس لوٹائے جاتے ہیں تقسیم کا فارمولا آبادی کے تناسب پر استوار ہے جو صوبوں کی پیدا کردہ دولت اور رقبے کو نظر انداز کر دیتا ہے نیز پسماندہ علاقوں کی ترقی کو اولیت نہیں دیتا پھر بھی وفاقی اکائیوں نے 18ویں ترمیم کے تحت وسائل کی تقسیم کے ایسے فارمولے پر اتفاق کر کے ملک کو وحدانی مرکزیت کے چنگل سے نکالنے اور وفاقیت کی سمت ایک پیشرفت کے طور پر اٹھارہویں ترمیم پر اکتفا و صاد کیا تھا مرکزی مقتدرہ اس کے حاشیہ نشین سیاسی و دانشور حلقے اور موجودہ حکومت جس طرح اٹھارہویں ترمیم کو ہدف تنقید بناتے ہیں جناب وزیراعظم بھی چین کے صرف سیاسی نظام کو قابل تقلید مثال بنا کر پیش کرتے ہیں تو اس سے وفاقی اکائیوں اور وفاقیت پر سیاسی یقین رکھنے والوں میں تحفظات کا ابھرنا فطری بات ہیموجودہ ہائی برڈ نظام قائم کیے جانے وفاقیت پسندوں کے خدشات بہت شدید طور پر بڑھے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ سینیٹ میں حزب اختلاف کی عددی اکثریت مقتدرہ حکومتی حلقے کے مذکورہ عزائم کا اب تک دفاع کرتی رہی ہے بلوچستان اسمبلی میں 2018ئمیں سینیٹ کے انتخابات کیلئے جو کچھ ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں بلوچستان جیسے وفافیت پسندی کے سوال پر انتہائی حساسیت رکھنے والے صوبے سے جس پس منظر رکھنے والے افرادکو سینیٹرز بنوایا گیا وہ صوبے کے سیاسی مافیے اور سیاسی ثقافت سے قعطی ہم آہنگ نہیں بلکہ اس کے مخالفین تھے سینیٹ میں موجودہ جماعتی عددی صورتحال نے اب تک مرکزی مقتدرہ کے خوابوں کی تعبیرمیں مزاحمتی کردار ادا کیا ہے لیکن وفاقیت پسند جمہوری حلقوں میں اگلے ماہ ہونے والے سینیٹ کے نصف ارکان کے موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے انتخاب کے سوال اور اس کے امکانی اثرانداز اور اندیشوں کے ساتھ سراسمیگی پیدا ہوگئی ہے پی ڈی ایم کی تشکیل انہی امکانی خدشات و اندیشوں کو رفع کرنے کی ایک بہتر امید یوں بھی تھی کہ اس کی اساسی پالیسی دستاویز میں سینیت میں آنے والی مکمنہ مرکزیت خواہ تبدیلیوں کا تدارک کرنے کیلئے سیاسی اتفاق رائے پایا گیا تھا –
پی ڈی ایم کی تحریک اور جلسوں میں پس پردہ سیاسی مداخلتوں کی نشاندہی کرنے والے بیانات نے بہر حال ایک اعصابی ہیجان بالائی سطح پر مرتب تو کیا تھا جس کی نشاندہی صحافتی ذرائع ابلاغ کے مباحث میں ظائر کئے گئے اس خیال سے بخوبی ہوتی ہے کہ سینیٹ انتخابات کے طے شدہ آئینی طریقے کار کو بدلنے کیلئے مطلوب ترامیم کے لیے حکومت کی خواہش و اپیل کے باوجود طاقتور مقتدرہ نے اس بار ماضی کی طرح تعاون سے انکار کیا ہے یہ اطلاع درست ہو سکتی ہے کیونکہ حکومت چاروں شانے چت ہوتی نظر آ رہی ہے پہلے اس نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ سینیٹ کے انتخابی طریقہ کار کو آئین کی بجائے انتخابی قوانین کے ذریعے منعقد کرانے کی اجازت دے مگر قانونی و سیاسی حلقوں کے مضبوط اختلافی موقف سے آئین کی شق 226 کے برخلاف کسی فیصلے کی امید کم ہوئی تو حکومت نے پارلیمان سے آئینی ترمیم کرنے کی ٹھانی یہ جانتے ہوئے بھی کہ پارلیمان میں اسے تین چوتھائی اکثریت حاصل نہیں پھر بھی پارلیمان میں بل پیش کرتے ہوئے حزب اختلاف سے حمایت حاصل کرنے کی کوشس کرنے کے برعکس اسے دباو میں لانے کے لیے کرپٹ چوروں کا ٹولہ کہہ کر تذلیل اور سیاسی درجہ حرات میں شدت پیدا کی گئی یہ تو جناب مودی ملتانی تھے جنہوں نے ترنگ میں آ کر کاٹھ کی حکومتی ہنڈیا کو یہ کہہ کر بیچ چوراہے پھوڑ دیا کہ حکومت ترامیمی بل پارلیمان میں لائی تو ہے لیکن اس کا مقصد و مطمع نظر اسے منظور کرانا نہیں بلکہ صرف حزب اختلاف کو ایکسپوز کرنا تھا یعنی اس پر کیچیڑ اچھال کر اپنی ہر طرح کی نااھلی کی پردہ پوشی کرانا تھا ”کیونکہ ہمارے پاس تو مطلوبہ عددی تعداد موجود ہی نہیں جو ترمیم کیلئے ضروری ہے” حکومت حزب اختلاف کو این آر او نہ دینے کے طعنے دے دے کر اڑھائی سال ضائع کر چکی ہے تاہم اگر سینیٹ انتخاب کے طریقہ کار اور اس کے نتیجے میں لاحق داخلی خوف کو نظر اندازنہ کریں تو بھی دراصل حکومت اپوزیشن اتحاد پر گالی گلوچ کرکے اصلا اس سے ایک مختلف طرز کا این آر او ہی مانگ رہی ہے –
سینیٹ انتخابات میں پیسے کے استعمال اور ارکان کے بکنے کی باتیں حکومت کر رہی ہے اور شفافیت جیسے عمدہ الفاظ کی جگالی کرتی ہے کیونکہ اس نے صدارتی آرڈیننس میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کو شو آف ہینڈ سے مستثنیٰ ہی رکھا ہے –
اب جبکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جسے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کر کے نافذ کیا گیا ہے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ
الف – حکومتی اراکین ہی وہ گھوڑے ہیں جن کے بارے میں ہارس ٹریڈنگ کی بات کی جا رہی ہے
ب- طاقتور حلقے نے شاید فی الواقع ماضی کے برعکس پارلیمان کے ذریعے ترامیم کے مرحلے میں تعاون سے معذرت کرلی ہے
متذکرہ سطور میں بیان کردہ قیاس آرائی کو درست تسلیم کر لین تو بحث کا بنیادی رخ و موضوع بدل جاتا ہے –
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مرکزی مقتدرہ نے وفاقیت اور اٹھارہویں ترمیم کے متعلق اپنا روائتی منافی ذہنی رجحان بدل لیا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو تو سطور بالا میں بیان کردہ ”تمام بدلتے رجحانات کو رد کرنا ہوگا بصورت دیگر بدلتی صورتحال کا خیر مقدم کرنا لازم ہے
یہاں ایک پہلو مزید غور طلب بھی ہے کہ جسے مکرر عرض کرنا چاہتا ہوں
کہیں ایسا تو نہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد اس میں مداخلت اور غیر شفافیت کے عنوان سے وارد ہونے والے سیاسی قانونی اعتراضات کی نوعیت (کیفیت) و مقدار (کمیت) میں روز بروز بڑھتے اضافے کو ملحوظ رکھتے ہوئے بالائی قوت نے یہ طے کیا ہو کہ ان کے تعاون کے بغیر بھی اگر پی ٹی آئی سینیٹ کی ایک بڑی جماعت بن رہی ہے تو اس عمل میں دخل دے کر مزید بدنامی کیوں مول لیں؟ کہ ان کی اتحادی یا منظور نظر جماعت پی ٹی آئی مستقبل قریب میں سینیٹ کے اندر وہی کردار ادا کرے گی جو اب تک اپوزیشن نے کیا ہے فرق یہ ہوگا کہ آج کی پی ٹی آئی اگر ان کی من پسند آئینی ترامیم یا سیاسی ڈھانچہ منظور نہیں کراسکی تو آنے والے دنوں میں بھی یہ جماعت —-اگر عام انتخابات قبل از وقت ہو جائیں تو —– نئی حکومت یا قومی اسمبلی کے مقابل ان آئینی و قانونی ترامیم کی مدافعت کرے گی جو پارلیمان کی بالادستی اور وفاقیت کو مستحکم تر کرنے کیلئے کی جا سکتی ہیں!!! اسی تسلسل میں یہ بھی ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کے راستہ میں اکاوٹ بنے کی بجائیاس کے بڑھتے عوامی دبا? کے نتیجے میں قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کی” خاموش تائید” کر کے اپنے خلاف ہونے والے عوامی اعتراضات و تنقید کا سلسلہ روک دیا جائے پھر بے خطر ہو کر شفاف انتخابات کرائیں جن میں مداخلت نہ کی جائے کیونکہ اپوزیشن انتخاب جیت گئی تو ان پر لگے سارے الزامات بھی دھل جائیں گے لیکن اسے ملنے والا اقتدار پھربھی منقسم و مجہول ہی ہو گا کہ پارلیمان کا ایوان زریں ان کے مفادات کا نگہبان ہوگا اور حکومت کا ناطقہ بند رکھنے کا بہترین آئینی و سیاسی بندوبست بھی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں