خطروں کے کھلاڑی

تحریر: انور ساجدی
ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے ابتدائی مہینوں میں اپنی اپوزیشن کو درخوداعتنا نہیں سمجھتے تھے کیونکہ انہیں دوتہائی اکثریت حاصل تھی لیکن ایک سال گزرنے کے بعد جب انہیں پہلا جمہوری اور پارلیمانی آئین بنانے کی ضرورت پڑی تو یہ کام اپوزیشن کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا جب آئین کا مسودہ تیار ہوا تو اپوزیشن نے بڑی محنت کی بڑے بڑے سروقد رہنما اپوزیشن کا حصہ تھے خان عبدالولی خان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے جبکہ میر غوث بخش بزنجو پارلیمانی لیڈر مولانا مفتی محمود،نواب خیر بخش مری،مولانا شاہ احمد نورانی، سردار شیر باز خان مزاری، سردار شوکت حیات اور پروفیسر غفور احمد جیسے سرکردہ رہنما اپوزیشن کا حصہ تھے اگرچہ وزیر قانون و پارلیمانی امور عبدالحفیظ پیرزادہ کا دعویٰ تھا کہ آئین کا مسودہ انہوں نے تیار کیا ہے لیکن یحییٰ بختیار اس کی تردید کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ جب بھٹو صاحب نے پیرزادہ کا مسودہ پڑھا تو اسے مسترد کردیا اور مجھے ہدایت کی میں آئین بناؤں چونکہ آئینی مسودہ وزیر کی حیثیت سے پیرزادہ نے پیش کیا اس لئے کریڈٹ انہوں نے لے لیا جس طرح کہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیربھوپالی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایٹم بم انہوں نے بنایا تھا حالانکہ بم بنانے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا انہوں نے بھی یورنیم افزودہ کرکے دیا تھا ایٹم بم سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ڈیزائن کیا تھا اور اسی گروپ نے 28 مئی 1998کو راسکوہ کے مقام پر دھماکہ بھی کیا تھا لیکن ساری دنیا ڈاکٹر قدیر کو ایٹمی پروگرام اور ایٹمی دھماکے کا خالق مانتی ہے۔
جب بھٹو نے آئین سازی کے مسئلہ پر اپوزیشن سے مذاکرات شروع کئے تو انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ابتدائی مرحلے میں وزراء کی کمیٹیاں ناکام ہوگئی تھیں جس پر بھٹو نے خود مداخلت کی اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کو مذاکرات پر آمادہ کیا مولانا مفتی محمود کا اصرار تھا کہ قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنایا جائے یہ قرار داد پاکستان کی پہلی مگر غیر نمائندہ دستور ساز اسمبلی نے منظور کی تھی اور وزیراعظم لیاقت علی خان جویوپی کے حلقہ سے منتخب ہوئے تھے جن کی کوئی نشست کراچی سندھ میں نہیں تھی انہوں نے خود یہ قرار داد پیش کی جس میں قرار دیا گیا تھا کہ مملکت کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہوگا اور حاکمیت اللہ کی ہوگی قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کے معاملہ پر نورانی میاں اور جماعت اسلامی نے بھی مفتی صاحب کو سپورٹ کیا بلکہ اس شق میں اضافہ کروایا کہ مملکت میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون بنایا نہیں جائے گا۔
1973 کے آئین کے بنیادی مسودہ میں یہ شقیں شامل نہیں تھیں ذوالفقار علی بھٹو ایک لبرل اور سیکولر آئین بنانا چاہتے تھے لیکن دینی رہنماؤں نے ان کی کوشش ناکام بنادی چنانچہ ان کو قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بلکہ آغاز بنانا پڑا وہ اس بات پر دل گرفتہ اور رنجیدہ تھے جبکہ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید نے کافی مزاحمت کی تھی لیکن بھٹو کی مجبوری تھی کہ وہ ایک متفقہ آئین بنائیں اسی طرح صوبائی خود مختاری سے متعلق تجاویز نیپ نے میاں محمود علی قصوری کے تعاون سے تیار کی تھیں لیکن آج محسوس ہوتا ہے کہ نیپ کے رہنماؤں نے صوبائی خود مختاری کے مسئلہ پر اچھا ہوم ورک نہیں کیا تھا جیسے کہ وسائل کی تقسیم کا واحد فارمولہ آبادی کو رکھا گیا این ایف سی کے ذریعے صوبوں کے وسائل کو بھی آبادی کی بنیادپر طے کیا گیا جبکہ رقبہ اور پسماندگی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اسی طرح تیل گیس معدنیات اور ساحلوں کو وفاقی سبجیکٹ مانا گیا اگر نیپ کے پارلیمانی رہنما زیادہ زور لگاتے تو کافی مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجاتے یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ جوصوبہ جو وسائل پیدا کرتا ہے ان پر پہلا حق انہی کا ہے اس نقص کو آصف علی زرداری نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے دور کیا۔
طویل مذاکرات اور محنت شاقہ کے بعد بھٹو نے 1973 کا آئین متفقہ طور پر منظور کروایا۔
جونہی آئین منظور ہوا بھٹو صاحب کے تیور بدل گئے اور انہوں نے اپوزیشن پر اس طرح تنقید اور لعن طعن شروع کردی جس طرح آج کل عمران خان نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے آئین کے نفاذ کے فوری بعد بھٹو نے ایمرجنسی لگاکر بنیادی حقوق معطل کردیئے دو سال بعد جب پشاور یونیورسٹی کی ایک تقریب میں صوبہ سرحد کے گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ بم دھماکہ میں ہلاک ہوئے تو بھٹو نے سوچے سمجھے بغیر نیپ کو خلاف قانون قرار دے کر اس پر پابندی لگادی اس سے قبل وہ بلوچستان کی حکومت بھی برطرف کرچکے تھے۔
تاہم اس واقعہ کے بعد حیدرآباد سازش کیس تیار کیا گیا اور ایک ٹریبونل میں نیپ کے تمام سرکردہ رہنماؤں پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا بھٹو صاحب نے بلوچستان میں پہلے گورنر راج لگایا اس کے بعد اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرکے جام غلام قادر کو وزیر اعلیٰ بنایا جن کی کوئی اکثریت نہیں تھی بلکہ 1970 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی یہاں سے ایک نشست بھی نہیں جیت پائی تھی یہ آئین اور جمہوریت کو بلڈوز کرنے کا غیر معمولی اقدام تھا بلوچستان کے ساتھ صوبہ سرحد میں بھی پیپلز پارٹی نے زبردستی اپنی حکومت بنالی لیکن بھٹو کو اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ان کی کمزوری اسی وجہ سے شروع ہوئی انہوں نے زندگی کے آخری ایام اور خاص طور پر راولپنڈی جیل کے ڈیتھ سیل میں اپنی غلطی کو تسلیم بھی کیا خان ولی خان نے ایک دفعہ غصہ میں آکرکہا تھا کہ وہ زنجیر کھینچ کر اٹک پل پر لگادیں گے اس بات کو بنیاد بناکر بھٹو نے قیوم خان کشمیری کے مشورہ پر ولی خان پر پختولستان بنانے کی سازش کا الزام لگادیا بھٹو نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن یا فوج کشی غلط تھی۔
اس ساری تفصیل کا مقصد پرانی تاریخ بیان کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ عمران خان بھٹو سے بھی بڑی غلطی کررہے ہیں وہ اپنی اپوزیشن کا وجود سرے سے تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے مذاکرات کے روا دار ہیں کیونکہ وہ ن لیگ پیپلز پارٹی اور مولانا کو کرپٹ بے ایمان چور اور ڈاکو قرار دے کر ان سے ملنے اور جمہوری عمل کو چلانے کے روا دار نہیں ہیں بھٹو میں پھر بھی یہ وصف تھاکہ مارچ 1977 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد انہوں نے اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیابی حاصل کرلی اور جب دیکھا کہ پانی سر سے گزررہا ہے تو انہوں نے اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے مشترکہ معاہدہ پر دستخط ہونے والے تھے کہ 4 اور 5 جولائی کی درمیانی شب کو ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر پوری بساط ہی لپیٹ دی بے شک آج عمران خان رعونت اور غرورکا شکار ہیں لیکن یہ غرور ان کی اپنی سیاسی طاقت نے انہیں ودیعت نہیں کی ہے کیونکہ انہیں تو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے وہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے تمام اداروں کو اتنا متنازعہ بنادیا ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے وہ سخت قسم کی آمرانہ طبیعت رکھتے ہیں اور یک جماعتی آمریت کے طرز پر چل رہے ہیں لیکن وہ خالی بندوق اور چلے ہوئے کارتوس کی مانند ہیں ان کو بھٹو کے مقابلے میں ایک بڑی اپوزیشن کا سامنا ہے اس کے باوجود وہ حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں وہ اپوزیشن پر گولہ باری تو کررہے ہیں لیکن توپ ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
اس وقت ملک میں جو کشمکش جاری ہے جلد یابدیر اس کا نتیجہ نکلے گا کیونکہ ہر مقابلہ میں کسی ایک پہلوان کی ہار ہوتی ہے اگر عمران خان کی سرپرستی اسی طرح جاری رہی تو ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات تک براجمان رہیں اور اگر ہاتھ کھینچا گیا توحالات ان کیلئے بہت ناموافق ہوجائیں گے وہ بے لچک شاخ کی مانند ہے جس کی قسمت میں ٹوٹنا ہی لکھا ہے عجیب ضد ہے کہ ملکی مسائل حل کرنے گورننس کے مسئلہ کو ٹھیک کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ان کا سب سے بڑا ہدف اپوزیشن کمزور کرنا ہے اس صورتحال سے عوام تنگ آچکے ہیں خود تحریک انصاف کی صفوں میں بھی بے چینی بڑھ رہی ہے ”بڑوں“ پر بھی کافی دباؤ آیا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار وضاحتیں پیش کرنے پر مجبور ہیں عمران خان کو بھول ہے کہ وہ ایوب خان کا دور واپس لائیں گے یا ریاست مدینہ قائم کرکے تاحیات خلیفہ المسلمین بن جائیں گے لگتا ہے کہ عمران خان تاریخ کے جبر سے ناواقف ہیں ورنہ وہ 1973 کے آئین کو چھیڑنے اور 18 ویں ترمیم کی بات نہ کرتے انہیں معلوم نہیں کہ یہ آئین کن مصیبتوں بنا ہے اگر یہ ایک طرف منسوخ ہوا تو اس ریاست میں کوئی آئین نہیں بن سکے گا صدارتی نظام واحدانی طرز حکومت صوبوں کی نفی یہ ریاستوں کی بنیادیں ہلادیں گی عمران خان میں اتنی سیاسی و عوامی طاقت نہیں کہ وہ ریاست کی بنیادیں ہلادیں کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں کسی اور مقصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جس کا فہم اور ادراک انہیں نہیں ہے اگر وہ سیاسی اعتبار سے کمزور ہوئے تو ان کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر بغاوت ہوجائے گی اس لئے وہ خفیہ بیلٹ کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات سے خوفزدہ ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شیروں کے شکاری خطروں کے کھلاڑی اور سب پر بھاری والے شخص سے خوفزدہ ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں