کیا نیشنلزم جہالت ہے؟

تحریر: جیئند ساجدی
نیشنلزم(قوم پرستی) کے ماہرتعلیم پیٹرالٹر لکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں قوم پرستی کو جہالت، پسماندہ و قبائلی ذہنیت، انتہاء پسندی، نسل پرستی اور دائیں بازو کی ان یورپی جماعتوں سے تشبیہ دی جاتی ہے جو مشرق وسطیٰ، ایشیاء اور افریقی ممالک کے لوگوں کی یورپ میں آمد کے خلاف سرگرم ہیں حالانکہ نیشنلزم کی تاریخ کا حقیقی جائزہ لیا جائے تو حقیقت اس کے برعکس ہے۔اگر نیشنلیزم کا نظریہ نہ ہوتا تو دنیا شاید جمہوری نظام، انسانی حقوق، انسانی مساوات،رائے حق خود ارادیت سے واقف نہیں ہوتی، ماہر تعلیم برنڈ انڈرسن لکھتے ہیں کہ نیشنلزم کی حقیقی تاریخ انقلاب فرانس
(French Revolution) 1789)
سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے قبل دنیا میں قومی ریاستیں (Nation States) نامی کوئی چیز نہیں تھی بلکہ بادشاہتیں اور سلطنتیں تھیں۔ان سلطنتوں میں عام افراد کو آزادی اظہار خیال اور رائے حق خود ارادیت کی آزادی نہیں تھی اور سلطنتوں کے امور صرف بادشاہ اور ان کے وزراء کے ہاتھوں میں ہوا کرتے تھے۔سلطنت پر بادشاہ، چند اشرافیہ خاندان اور مذہبی رہنماؤں کا قبضہ ہوا کرتا تھا۔ یہ تمام مل کر عام افراد کا استحصال کرتے تھے اور طبقاتی نظام کو فروغ دیتے تھے۔ ان سلطنتوں میں عام و خاص افرادمیں معاشی،سیاسی اور سماجی حوالوں سے کافی فرق ہوا کرتا تھا۔ بعض ماہر تعلیم یہ سمجھتے ہیں کہ چند فرانسیسی دانشوروں نے جب عام افراد کو یہ شعور دیا کہ بادشاہ، اشرافیہ اور چرچ ان کا استحصال کر رہے ہیں اور ان کی حیثیت ریاست میں دوسرے درجے کے شہری جیسی ہے جس پر انہیں مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے تو اس وقت ان دانشوروں نے نیشنلزم کے نظریے کا سہارا لیاتھا۔ اس طرز کے دانشور اکثر بادشاہ کے تخت کے بائیں طرف بیٹھا کرتے تھے اور نظام کو تبدیل کرنے پر زور دیا کرتے تھے اسی وجہ سے آج کل کے دور میں جو نظام اور Status Quo کو چیلنج کر ے انہیں بائیں بازو (Left Wing) والے کہا جاتا ہے جبکہ وہ لوگ جو فرانسیسی بادشاہت اور اس وقت کے Status Quo کے حامی تھی وہ بادشاہ کے تخت کے دائیں طرف پر بیٹھا کرتے تھے اسی مناسبت سے آج کل کے Status Quo کے حامیوں کو (Right Wing) دائیں بازو والے کہا جاتا ہے۔
انقلاب فرانس کے وقت بائیں بازو کے دانشوروں نے یا فرانسیسی قوم پرستوں نے انسانی مساوات، انسانی حقوق اور عالمی بھائی چارے کا نعرہ لگا کر فرانس کے بادشاہ کا تختہ الٹا کر قومی ریاست فرانس کی بنیاد رکھی اور Popular Sovereignty کا بھی نعرہ لگایا جس کا مقصد یہ تھا قومی ریاست فرانس میں تمام فرانسیسی برابر ہونگے اور کسی بادشاہ کو بے پناہ طاقت کیساتھ عام فرانسیسیوں پر حکمرانی کرنے کا حق نہیں ہوگا بلکہ اپنے لیڈر کے انتخاب کا حق عوام کی اکثریت پر انحصار کرے گا۔اس کے علاوہ عوام کو اپنے لیڈر کی غلط پالیسیوں پر بھی تنقید کا حق ہو گا۔ انقلاب فرانس کے بعد یورپ اور دنیا بھر کے متعدد لوگوں میں نیشنلزم کا شعور آیا اور متعدد طاقتور سلطنتیں جیسے کہ Habsburg اور Ottoman نیشنلزم کی قوت کے آگے ڈھیرہوگئیں اور سلطنتوں کی جگہ بہت سی قومی ریاستیں جیسے کہ یونان، اٹلی، چیکو سلاواکیاوغیرہ وجود میں آئیں۔ اگر قوم پرستی کا شعور نہ ہوتا تو شاہد دنیا بھر میں آج بھی سلطنتیں ہوتیں اور عام افراد کو آزادی اظہار خیال اور رائے حق ارادیت کا حق حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی جمہوریت نام کی کوئی چیز ہوتی۔ یہ نیشنلزم کا شعور ہی تھا جس نے عام و خاص فرانسیسی، جرمن اور یونانی کا فرق ختم کیا اور قومیت کی بنیاد پر سب کو برابر تسلیم کیا۔ ماہر تعلیم پیٹرالٹر اس قسم کی نیشنلزم کو Risorgimento یا لبرل نیشنلزم کہتے ہیں جس کا مقصد عام انسان یا قوم کو سیاسی و سماجی استحصال سے آزاد کروانا ہوتا ہے۔ اس طرز کی نیشنلزم نے اپنے قوم کے علاوہ دنیا بھر کی ہر قوم کے حق کو تسلیم کیا اور سیاسی وسماجی استحصال کیخلاف مزاحمت کا بھی درس دیا۔ لبرل نیشنلزم کے دو بڑے ناموں ایک نام جرمن جوہان گاٹسے کا ہے اوردوسرا نام اٹالوی گواپسی مذنینی کاہے ان دونوں کے مطابق آزادی اور قومی ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے ان کے مطابق قومی ریاستوں کا قیام انسان و قومی ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے۔ ان کی تعلیمات اور تحریک نے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا لیکن متعدد قومی ریاستوں کے قیام کے باوجود دنیا میں امن و امان مکمل طور پر قائم نہیں ہو سکا جس کی وجہ یہ تھی کہ 18ویں صدی میں قائم قومی ریاستوں نے آگے جا کر دیگر قوموں کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے قومی ریاستیں پھر سے سلطنتوں کی مانند کثیر القومی ریاستوں میں تبدیل ہو گئیں۔
سلطنتوں اور کثیر القومی ریاستیں ایک دوسرے سے کافی مشابہت رکھتی ہیں۔ سلطنتیں بھی کثیر القومی ریاستوں کی طرح مختلف اقوام کے لوگوں کا مجموعہ ہوتی ہیں اور جس میں ہر قوم کی سیاسی و سماجی حیثیت برابر نہیں ہوتی بلکہ ایک مخصوص قوم یا اس کی اشرافیہ کو ریاست کے امور پراجارہ داری حاصل ہوتی ہے اور وہ طبقاتی نظام کو فروغ دیتے ہیں۔ان کثیر القومی ریاستوں میں اقلیتی قوموں کو اظہار خیال اور رائے حق خود ارادیت کا حق نہیں ہوتا ان کو سیاسی شعورسے دور رکھنے کیلئے ریاست کی اشرافیہ معاشی و تعلیمی ترقی سے بھی دور رکھتے ہیں۔اس طرح کے نیشنلزم کو ماہر تعلیمIntegral Nationalism یا منفی نیشنلزم قرار دیتے ہیں اس طرز کے نیشنلزم کو دونوں عالمی جنگوں میں کافی فروغ ملا اور ہٹلر اور مزولینی جیسے ڈکٹیٹرز کو منفی نیشنلزم سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ منفی نیشنلزم کے پیروکار انسانی یا قومی مساوات کی بجائے قومی یا نسلی برتری پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ کچھ قوموں کو نسلی برتری کے اعتبار سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ کمتر قوموں کو اپنا غلام بنا کر رکھیں یہ لوگ دنیا کو جنگل کے قانون سے تشبیہ دیتے ہیں اور چارلس ڈارون کی (Theory of Natural Selection)کو قوموں پر لاگو کرتے ہیں۔ چارلس داڑون نے جانوروں کے متعلق ایک تھیوری پیش کی تھی ان کے مطابق بڑے یا طاقتور جانور جنگل میں چھوٹے یا کمزور جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ انہیں شکار کی وجہ سے بہت جانوروں کی نسلیں دنیا میں معدوم ہو چکی ہیں اور جنگل میں صرف سب سے تگڑے اور طاقتور جانور ہی Survive کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اسے Survival of the Fittest کا نام دیاہے منفی نیشنلزم کے پیروکار قومی مفاد کی خاطر ظلم و جبر اور طاقت کے استعمال کو بھی جائز قرار دیتے ہیں لبرل نیشلزم کے برعکس منفی نیشنلزم میں قومی مفاد کو عام لوگوں کی بجائے چند اشرافیہ یا ایک لیڈر Define کرتا ہے منفی نیشنلزم کے پیروکار اکثر دوسرے قوموں کے وجود ماننے سے بھی انکار کرتے ہیں مثال کے طور پر ترکی کردوں کو جدا قوم نہیں مانتی بلکہ پہاڑی ترک کا لقب دیکر ترکوں میں ضم کرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ ایرانی سرکار بلوچ کرد ،لور و دیگر اقلیتی قوموں کو جدا قوم ماننے کیلئے تیار نہیں بلکہ قدیم ایرانی باشندے کالقب دیتی ہے۔
پاکستانی اشرافیہ نے کبھی بھی ریاست میں مقیم قوموں کی شناخت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ مذہب کی بنیاد پر مختلف قوموں کو ملا کر ایک قوم بنانے کی کوشش کی ہے۔ سپین بھی کٹالن اور باسک کو قوم نہیں مانتا لہذا نیشنلزم جہالت نہیں بلکہ منفی نیشنلزم جہالت اور غیر جمہوری ہے جسے ماہرین نے فاشزم کا بھی نام دیا ہے دنیا بھر قومی تحریکیں چل رہی ہیں جسے کہ کینیڈا میں کیوبک تحریک سپین میں کٹالن، برطانیہ میں آئرش و سکاٹس، ترکی میں کردش وغیرہ ان تحریکوں کی وجہ اقلیتی قوموں کی جہالت نہیں بلکہ انکا سیاسی شعور ہے کیونکہ سیاسی شعور کے بغیر قومی یا سماجی تحریکیں نہیں چل سکتیں یہ سیاسی شعور اکثر ان اقلیتی قوموں کو منفی قوم پرست ا پنے ظلم و جبر، زمینی حقائق سے نہ واقفیت اور غیر جمہوری رویوں سے عطا کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں