خوشحالی کا موسم

تحریر: انور ساجدی
پنجاب میں ان دنوں شدید دھند چھائی ہوئی ہے جبکہ سیاسی محاذ پر بھی دھند ہی دکھائی دے رہی ہے سینیٹ کے انتخابات کے بعد ہی مطلع صاف ہوگا ابھی تو یہ معلوم نہیں کہ ان انتخابات میں زیادہ نشستیں کون حاصل کرے گا لیکن امکانی طور پر پی ٹی آئی کاپلہ بھاری دکھائی دیتا ہے سینیٹ کے انتخابی شیڈول کے اعلان کے باوجود شوآف ہینڈ اورخفیہ بیلٹ کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس کا فیصلہ بس آیا ہی چاہتا ہے شیڈول کے اعلان کے بعد زیادہ امکان یہی ہے آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق سینیٹ کے انتخابات ہونگے اگروزیراعظم عمران خان کو اس ضمن میں کچھ ریلیف ملا تو وہ غیبی امداد کے نتیجے میں ہوگی جیسے کہ اراکین اسمبلی کے فنڈز کے مسئلہ پر ملی چونکہ اس معاملے کا نوٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لیا تھا جو کہ وزیراعظم کیخلاف ایک کیس میں مدعی ہیں اس لئے آنریبل چیف جسٹس نے انہیں فنڈز کا کیس دیکھنے سے منع کردیا اورفرمایا کہ انہیں خود بنچ میں شامل نہیں ہونا چاہئے تھا۔
پاکستان میں ہمیشہ فوج عدلیہ اور اعلیٰ انتظامیہ پرمشتمل ٹرائیکا نے حسب منشا کامیابیاں حاصل کی ہیں جب کوئی آمرسربراہ ہوتو انتظامیہ کی جگہ وہ لیتا ہے
ایوب خان کے دور سے لیکر ابتک یہی روایت چلی آرہی ہے ایوب خان صدر چیف ایگزیکٹو چیف جسٹس اور سب کچھ خود ہی تھے یحییٰ خان چونکہ خود آرمی چیف تھے اس لئے انہوں نے جو ٹرائیکا تشکیل دی وہ کچھ انوکھی تھی عدلیہ کے علاوہ انکے مشیروں میں درجن بھر خواتین بھی شامل تھیں جن کی سربراہ اقلم اختر عرف جنرل رانی تھی۔
اس ٹرائیکا نے جو کچھ کیااس کا نتیجہ سامنے ہے شروع میں جنرل ضیاء بھی سب کچھ تھے تاہم ابتدائی دنوں میں انہوں نے منتخب صدرفضل الٰہی چوہدری کو ایوان صدر میں قید کرکے کچھ احکامات حاصل کئے انہوں نے ایک آخری نوٹ بھی تحریر کیا تھا جو ریکارڈ میں موجود نہیں ہے جسے ضیاء الحق کے وزیراطلاعات محمود اعظم فاروقی نے غائب کردیا تھا جنرل ضیاء الحق ایک طرف راسخ العقیدہ مسلمان کہلاتے تھے دوسری طرف وہ شدید قسم کے علاقہ پرست تھے۔انہوں نے اپنے اردگرد سارے جالندھریوں کو جمع کررکھا تھا انکے دور میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق جالندھری تھے جنرل مجیب سے لیکر ضیاء جالندھری تک سارے لوگ ادھر کے تھے وہ اتنے مضبوط تھے کہ انہیں ٹرائیکا بنانے کی ضرورت نہیں بڑی جب مارشل لاء کو چیلنج کیا گیا توانہوں نے اپنے مشیر رسوائے زمانہ وکیل اے کے بروہی کو چیف جسٹس کے پاس بھیجا جنہوں نے پوچھا کہ آپ مارشل لاء کو جائز قراردے رہے ہیں انوارالحق نے اثبات میں سرہلایا پھر بروہی نے پوچھا کہ آپ جنرل ضیاء الحق کو ترمیم کااختیار بھی دے رہے ہیں تو انہوں نے نفی میں سرہلایا جس پرضیاء الحق کے وکیل نے کہا کہ جس آرڈر کے تحت آپ جونیئرہونے کے باوجود چیف جسٹس بنے ہیں ضیاء الحق وہ آرڈر واپس لیں گے اور آپ اپنی پرانی پوزیشن پر چلے جائیں گے اس سے گھبرا کر انوارالحق جالندھری نے کہا کہ ہاں میں ترمیم کااختیار بھی دے رہا ہوں اس طرح انہوں نے جسٹس منیر کی تقلید کرتے ہوئے نہ صرف مارشل لاء کوجائز قراردیدیا بلکہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ہر طرح کی ترمیم کا اختیار بھی دیدیا ضیاء الحق کوٹرائیکا بنانے کی ضرورت اس وقت پڑی جب انکے اپنے لائے ہوئے وزیراعظم محمدخان جونیجو نے ان سے اختلاف شروع کردیا جونیجو جب وزیراعظم ہوئے تو ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی لیکن امریکی ڈاکٹر اورخود جونیجو نے یہ بات کامیابی کے ساتھ چھپائے رکھی ورنہ ضیاء الحق انہیں کبھی وزیراعظم نہ بناتے بہرحال جب جونیجو نے افغانستان کے بارے میں جینوا معاہدے پردستخط کردیئے تو ضیاء الحق نے انہیں برطرف کردیا جب جونیجو نے اسے چیلنج کیا تو اعلیٰ عدلیہ نے ان کا ساتھ دیا عجیب بات ہے کہ1993ء میں جب نوازشریف برطرف ہوئے توسپریم کورٹ نے اسے غلط قراردیدیا اور انکی بحالی کاحکم جاری کیا لیکن1990ء اور 1996ء میں جب بینظیر برطرف ہوئی تو اسے جائز قراردیا گیا حالانکہ دونوں کوصدر نے آئین کے آرٹیکل 58 ٹوبی کے تحت برخاست کیاتھا۔
نوازشریف نے اپنے دور میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر حملہ کروایا تھا لیکن ان پر توہین عدالت کے قانون کے تحت کارروائی نہیں ہوئی جبکہ افتخار چوہدری نے یوسف رضا گیلانی کو اس قانون کے تحت سزا دے کر گھر بھیج دیا افتخار چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد ن لیگ کو سپورٹ کرنا شروع کردیا حتیٰ کہ نوازشریف کے سارے مقدمات یک جا کرکے انہیں ختم کردیا۔
افتخار چوہدری نے اپنے کو زبردستی ٹرائیکا کا حصہ بنایا تھا اور وہ صدر اوروزیراعظم سے زیادہ پروٹوکول لیتے تھے انکے بعد آنے والے ثاقب نثار نے انکی روایات برقراررکھیں انہوں نے کئی متنازعہ فیصلے دیئے جن میں ایک عمران خان کو صادق اور امین قراردینا شامل تھا ڈیموں کیلئے فنڈ انہوں نے اکٹھا کیا تھا جس کی شفافیت پر مخالفین کو آج بھی تحفظات ہیں 2018ء کے انتخابات میں ان کا بھی اچھا خاصا کردار تھا یعنی تحریک انصاف کی جیت میں انہوں نے نمایاں کردارادا کیا۔
چونکہ2018ء کے انتخابات کے بعد صورتحال بدل چکی ہے ٹرائیکا مختلف شکل اختیار کرچکا ہے اس لئے عمومی طور پر ون مین شو چل رہا ہے پیچھے کوئی اور ہے سامنے کچھ اور لیکن میراگماں کہتا ہے کہ اگرپی ڈی ایم نے زیادہ زورمارا تو ٹرائیکا اپنی پرانی شکل میں بحال ہوجائے گا کیونکہ اس وقت حکمرانوں کو مزید سہارے کی ضرورت ہوگی ”یہ گزیہ میدان“ کے مصداق یہ زیادہ دیر کی بات نہیں ہے عمران خان سینیٹ کے انتخابات کولیکر بہت گھبرائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ یہ انتخاب پہلی مرتبہ اپنے بل بوتے پرلڑرہے ہیں اگرٹرائیکا نے ساتھ نہ دیا تو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں کرسکیں گے اور اگر ساتھ دیا تو انکو اپوزیشن پرسبقت حاصل ہوجائے گی اسلام آباد ٹیسٹ کیس ہے اس کی نشستوں پر تمام ارکان قومی اسمبلی ووٹ ڈالیں گے اس سے پتہ چلے گا کہ عمران خان کو کتنی اکثریت حاصل ہے سردست سینیٹ انتخابات کے بارے میں کوئی پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی عددی اعتبار سے تحریک انصاف کو پنجاب اور پشتونخوا سے زیادہ نشستیں ملنی چاہئیں لیکن یہ کامیابی عمران خان کی صلاحیتوں سے مشروط ہے کیونکہ انہیں اپنی جماعت کے اندر ایک بغاوت کا سامنا ہے کئی ارکان فنڈز اسکیمیں اور دیگرمراعات نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہیں انہیں یہ مراعات دے کر ہی خوش کیاجاسکتا ہے اگرخفیہ رائے شمار ہوئی تو غیر متوقع نتائج آسکتے ہیں حالانکہ عمران خان نے ووٹ خریدنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایسا کچھ کریں گے کہ اپوزیشن روئے گی اور بہت روئے گی ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس وسائل زیادہ ہیں اور وہ پنجاب میں اپوزیشن کے کئی اراکین خریدسکتی ہے۔اگروہ یہی عمل سندھ میں دہرائے تو پیپلزپارٹی کی اکثریت کو کم کرسکتی ہے لیکن سامنے زرداری ہے انہوں نے بھی ضرورکوئی حکمت عملی بنائی ہوگی اور وہ آسانی کے ساتھ تحریک انصاف کامنصوبہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے البتہ زیادہ خریدوفروخت کا امکان پنجاب اور بلوچستان میں ہے جبکہ گزشتہ انتخابات میں پشتونخوا میں تحریک انصاف کے 20ارکان نے خود کو بیچ دیا تھا۔
اگرتحریک انصاف نے سینیٹ کے الیکشن میں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کی تو اقتدار پر آہنی گرفت سمیت اسکے کئی خواب ٹوٹ جائیں گے اور اگراپوزیشن کوشکست ہوئی تو وہ زوردار تحریک چلانے پر مجبور ہوجائے گی لانگ مارچ کے علاوہ وہ استعفوں کاآپشن بھی ضرور استعمال کرے گی۔
سینیٹ کے الیکشن 1985ء سے خوشحالی کا ایک سیزن ہوتا ہے اراکین کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے انکے نخرے اٹھائے جاتے ہیں امیدوار صدقہ واری ہونے کے علاوہ نوٹوں کاصدقہ بھی دیتے ہیں۔اس خریدوفروخت کے بیچ میں مڈل مین بھی ہوتے ہیں وہ دوطرفہ معاوضہ طے کرتے ہیں یعنی3مارچ تک ایک ہنگامہ خیز دورچلے گا اسکے بعد تو ہنگامے ہونے ہیں یعنی وہ دور ہنگامہ پرورہوگا تب تک ٹرائیکا کی ازسرنوتشکیل ہوگی کس طرح ہوگی یہ سمجھدارلوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں