ٹونی بلیئر کی پیشنگوئیاں اور بھٹو کی شہادت

انور ساجدی
عراق پربلاوجہ امریکی حملہ کے ذمہ دار اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کاایک لیکچر نظر سے گزرالگتا ہے کہ یہ کرونا وائرس سے پہلے کا ہے بلکہ بریگزٹ سے بھی پہلے کا ہے ٹونی بلیئر فکر مند ہیں آنے والے کل میں ان کا ملک سابقہ برطانیہ عظمیٰ یا اس درجہ کے دوسرے ممالک سیاسی معاشی اور دیگرطاقت کے حوالے سے کہاں کھڑے ہونگے ٹونی بلیئر نے کہا کہ ایک دیوہیکل طاقت امریکہ دوسری چائنا ہے جبکہ تیسری طاقت ممکنہ طور پر انڈیا ہوگا ٹونی بلیئر نہایت صاف گوئی سے اپنے ملک کومیڈیم سائز کہہ کہ تجویز کرتے ہیں کہ ان ممالک کو جن میں یورپی ممالک شامل ہیں اتحاد کرنا چاہئے تاکہ جب وہ تین دیوہیکل ممالک کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھیں گے تو ان کاوزن ہو اور انکی بات سنی جاسکے۔
ایک تو سمجھ میں نہیں آیا کہ ٹونی بلیئر انڈیا کو
دنیا کی تیسری بڑی طاقت کیوں کہہ رہے ہیں
شائد آبادی کی وجہ سے کیونکہ ابھی تک اسکی
اکانومی کا سائز جرمنی سے بڑا نہیں ہے البتہ
انگلینڈ،فرانس اور اٹلی سے بڑا ضرور ہے
البتہ انڈیا میں ترقی کرنے کی بہت صلاحیت ہے
لیکن مودی کی موجودگی میں یہ نمبر3
سپرپاور نہیں بن سکتا کیونکہ مودی نے فرقہ واریت
شروع کرکے اپنی ترقی روک دی ہے
بی جے پی کے ایک سرکردہ رہنما جو کئی بارپارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں اور وزیر بھی رہے ہیں۔سبرامینم سوامی ان کا تعلق جنوبی ہند سے ہے وہ دوروز ہوئے ایک غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انتہائی احمقانہ بات کررہے تھے موصوف کا کہنا تھا کہ بے شک آئین برابری دے لیکن ہندو اور مسلمان کا درجہ برابر نہیں ہوسکتا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس ملک میں مسلمانوں کی آبادی 20فیصد ہوجائے وہ ملک خطرے میں پڑجاتا ہے۔اگر انڈیا کے اس طرح کے رہنما ہونگے تو وہ عالمی طاقت کیسے بن سکتا ہے بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ وہ اپنے20کروڑ مسلمانوں کو کیسے صفحہ ہستی سے مٹادیں گے اگران کا خیال ہے کہ انہیں دوبارہ ہندوبنانا ہے تو اس کام میں بھی طویل عرصہ درکار ہے تب تک کیاہوگا اگر ریاستی سطح پر ظلم وجبر کا سلسلہ جاری رکھاجائے تو ایک ارب 30کروڑ کا ملک خانہ جنگی اور انتشار کا شکارہوجائے گا بدامنی اورخانہ جنگی کے دوران کوئی ملک کیسے آگے بڑھ سکتاہے۔
انڈیا کی بدقسمتی ہے کہ تاریخ کے ایک بہت ہی نازک مقام پر اسے انتہا پسند قیادت ملی ہے جبکہ دنیا قیادت اور ترقی کیلئے انڈیا کی جانب دیکھ رہی ہے انڈیا دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس کا ملک ہے یہ اب تک روئے زمین کی سب سے بڑی جمہوری ریاست ہے اسکے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد امریکہ کی کل آبادی کے برابر ہے اسکے جس پروڈکٹ کی مانگ ہے وہ سافٹ ویئر ہے امریکہ کی تمام ڈیٹاانڈسٹری پرانڈیا کے لوگ چھائے ہوئے ہیں بیشتر کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو انڈین ہیں،اگرچہ اسکی صنعتی ترقی رک چکی ہے۔لیکن گزشتہ ایک عشرے تک اسکی ترقی کی شرح چین کے بعد سب سے زیادہ تھی انڈیا بہت بڑی افرادی قوت کا حامل ہے جو صنعتوں کے قیام کیلئے دنیا کیلئے موزوں ترین ملک ہے اگر اسکی ترقی کی شرح جاری رہتی تو2025ء میں وہ جاپان کی جگہ لے لیتا یعنی ٹونی بلیئر کی پیشنگوئی کے مطابق دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جاتا لیکن مودی نے جوحالات پیدا کئے ہیں مشکل ہے کہ2025ء میں انڈیا جاپان کی جگہ لے البتہ وہ جرمنی کی جگہ ضرور لے گا انڈیا کی ترقی دوبارہ اس وقت شروع ہوگی جب مودی کی جگہ کوئی معقول آدمی وزیراعظم بن جائے ہندوتوا قائم کرتے کرتے وہ انڈیا کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے سے بھی محروم کرچکے ہیں جس کیلئے امریکہ سمیت دیگر ممالک تیار تھے مثال کے طور پر دنیا میں یہ آوازیں اٹھناشروع ہوگئی تھیں کہ برطانیہ اورفرانس اپنی حیثیت کھوچکے ہیں لہٰذا انکی جگہ ایسے مستقل رکن لائے جائیں جو دنیاکو آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جیسے کہ انڈیا اور برازیل پہلے جاپان بھی امیدوار تھا لیکن لگتا ہے کہ وہ اس دوڑ سے نکل جائیگا چین نے اس کا بھرکس نکال دیا ہے اگرچہ پاکستان کے نقطہ نظر سے اچھا ہے کہ انڈیا ویٹو پاور نہ بنے ورنہ اسکے لئے ”قومی غیرت“ کاسوال پیدا ہوجائے گا بلکہ یہ کشمیر ہڑپ کرنے سے بھی زیادہ پریشانی کی بات ہوگی اسی طرح اگر انڈیا عدم استحکام اورانتشار کاشکار رہتا ہے تو یہ بھی ایک موافق بات ہوگی لیکن اس دوران پاکستان کودوٹوک فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس نے ترقی کرکے آگے بڑھنا ہے۔یا مولانا طارق جمیل کے خوبصورت کلام اور علامہ خادم رضوی کے آتشیں بیانات پرہی گزارہ کرنا ہے۔
2018ء کے انتخابات کے بعد جب عمران خان برسراقتدار آئے تھے تو موقع پیداہوگئی تھی کہ 40سال سے قائم اسٹیٹیس کو ختم ہوجائے گا اور عمران خان کوئی ایسا نسخہ کیمیاایجاد کریں گے کہ پاکستان جنوبی ایشیاء کاٹائیگر بن جائے لیکن دوسال ہونے کو آئے ہیں عمران خان نے بہت مایوس کیا ہے انہوں نے ایک نئی سمت کیا طے کرنا تھی وہ ریاست کو نوازشریف اور زرداری جیسے نیم پڑھے لکھے لیڈروں سے بھی پیچھے لے گئے اب تو کرونا کی وبا آگئی ہے معلوم نہیں کہ یہ کتنا نقصان دے کر جائے گی اس سے بھی لولی لنگڑی معیشت مزید وائرس زدہ ہوگئی ہے اور اسکے اثرات زائل کرنے میں عمران خان کی باقی کی پوری مدت گزرجائے گی ابتدائی ناکامی کے بعد وہ اسکی ذمہ داری نوازشریف اور زرداری پر ڈالتے تھے اب تو کرونا کی صورت میں ٹھوس جوازہاتھ آگیا ہے وہ کرونا کولیکر روز نیا فلسفہ بیان کریں گے اور بتائیں گے کہ اگر اس قدرتی آفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو معیشت سات آسمانوں پر اڑ رہی ہوتی لیکن حالیہ بحران کے دوران انہوں نے جاندار لیڈر شپ فراہم نہیں کی بلکہ اس دوران سردار عثمان بزدار نے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کابہتر مظاہرہ کیا اور انہوں نے لاک ڈاؤن کے مسئلہ پر اپنے وزیراعظم کی تجاویز رد کرکے اپنے صوبے کی بھرپور قیادت کی۔
اگر یہ مشکلات چھٹ جائیں تو سینیٹ کے سابق چیئرمین اور زرداری کے بقول آزاد دانشور میاں رضاربانی نے اداروں کے درمیان ڈائیلاگ شروع کرنے کی جو تجویز پیش کی تھی اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا یعنی تمام اسٹیک ہولڈر مل کر طے کریں کہ ملک کی نظریاتی اورمعاشی سمت کیا ہوگی آیا یہ ہمیشہ ایک سیکورٹی ریاست رہے گی یااسے فلاحی ریاست بھی بنایاجاسکتا ہے 72سالوں کے اندر دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن پاکستان اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں سے چلا تھا کرونا پھیلنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ساری دنیا کے سامنے اعتراف کیا کہ ملک کی25فیصد آبادی روز کمائی پرزندہ ہے یہ تعداد ساڑھے6کروڑ بنتی ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر لاک ڈاؤن طویل ہوا تو یہ لوگ بھوک سے مرجائیں گے روز کمائی کرکے گزارہ کرنے کا مطلب ان لوگوں کے پاس کبھی دووقت کبھی ایک وقت کھانے کیلئے ہوتا ہے وہ بھی کافی نہیں ہوتا جبکہ اتنے اور لوگ بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اگر ایک ریاست اپنے 13کروڑ لوگوں کے نان ونفقہ کا مناسب بندوبست کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتواس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ72سالوں میں جتنے بھی حکمران آئے ہیں وہ جھک مارتے رہے ہیں اور کوئی ایسا پلان تشکیل نہیں دے سکے کہ عوام ایک باعزت زندگی گزارسکیں۔سب مل کر سوچیں کہ ناکامی اور خرابی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟اس خرابی کو تلاش کرنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈر سرجوڑ کر بیٹھیں اور ریاست کے بحرانوں اور عوام کو فاقوں سے نکالیں یہ جو دوکشتیوں میں سوارہونے کا وقت ہے وہ گزرچکا ہے،
اس سال 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کو41سال پورے ہوچکے ہیں اگرچہ اس دوران دو نسلیں جوان ہوئی ہیں لیکن بھٹو کی شخصیت کی سحرانگیزی نہایت جوانمردی کے ساتھ تختہ دار کو چھونے کی عظمت ابھی اذہان میں موجود ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ محض ایک حوالہ رہ جائیں گے جیسے کہ سقراط منصور اور تاریخ کے وہ کردار جنہوں نے آمریت کو قبول کرنے کی بجائے بے انتہا جرأت کامظاہرہ کیا یہ جوپاکستان کی پسماندگی ہے اسکی ایک بڑی وجہ بھٹو کا ہٹانا انکو تختہ دار پرلٹکانا اور طویل مارشل لاء کے ذریے ملک کی سمت کو یکسر تبدیل کرنے کی جبری کوشش ہے بھٹو نے پھانسی کی کال کوٹھری سے تحریر کردہ اپنی آخری کتاب میں لکھا ہے کہ انکی موت کے بعد یہ ملک ایسے سیاسی معاشی اورآئینی بحرانوں کا شکارہوجائے گا کہ کوئی بھی انہیں حل نہیں کرسکے گا بھٹوکی پھانسی کے بعد سے دووقفوں کو نکال کر ضیاء الحق کے آمرانہ فلسفہ کے علمبردار ریاست پر قابض ہیں اور وہ قدرتی ارتقائی عمل کو روک کر عوام کو سیاہ تاریکیوں میں تادیر رکھنے کی کوشش کررہے ہیں بھٹو کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ کون بھول سکتا ہے کہ بھٹو خاندان کے ساتھ کیا ہوا ہے بھٹو تختہ دار پر چڑھے انکے چھوٹے بیٹے فرانس میں مار دیئے گئے بڑے بیٹھے مرتضی کو دن دہاڑے انکے گھر کے سامنے اس طرح قتل کیا گیا جیسے امریکی صدر کینیڈی کو ماردیا گیا تھا پھر بھٹو کی بیٹی بینظیر کوراولپنڈی میں نہایت بے رحمانہ طریقہ سے سے قتل کیا گیا صحافی شاہد حسین نے گزشتہ روز لندن میں کہا کہ اگر کل فاطمہ بلاول اور ذوالفقار جونیئر ایک ہونے کا اعلان کریں تو تین اور لاشیں ملیں گی،فی الحال بھٹو مخالفین نے ان سب کو تقسیم کررکھا ہے جب فاطمہ اوائل عمر میں تھی وہ اپنے والد کے قتل سے بہت زیادہ جذباتی ہوئی تھیں اور انہوں نے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ انکے والد کو پھوپھی نے قتل کروایا تھا پوری کتاب لکھ ڈالی لیکن ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ پھر آپ کی پھوپھی کو کس نے قتل کیا یا آنے والے وقت میں دشمن مل کر بلاول پر بھیڑیوں کی طرح حملہ آور ہونگے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا یہ جو ملک ہرشعبہ میں پیچھے ہے یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے کیونکہ یہ پکا فیصلہ ہے کہ کوئی مرکزی شخصیت کوئی ایک لیڈر میدان میں نہ ہو۔بھٹو بینظیر اور مرتضیٰ کو راہ سے ہٹانے کا یہی مقصد تھا نوازشریف پہلے ان لوگوں کا اتحادی تھا لیکن گستاخی کربیٹھے تو ان کا حشر بھی سامنے ہے اگر کل عمران خان اتحاد توڑ کر سرکشی پر اتر آئے تو اس سے بڑا بے ایمان اور ملک دشمن کوئی نہیں ہوگا حالانکہ وہ نوازشریف جیسے ہیں کوئی سروقد سیاسی لیڈر نہیں ہیں بلکہ دنیا کو دکھانے کیلئے کہ نظام چل رہا ہے منتخب ادارے کام کررہے ہیں اور ایک منتخب وزیراعظم موجود ہے بے شک وہ ظفراللہ جمالی اور شجاعت حسین کیوں نہ ہوں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں