آن لائن کلاسز اور بلوچستان

تحریر۔ابوبکردانش میروانی
چین کے شہر دوہان سے اٹھنے والا کرونا کی وبا آہستہ آہستہ پوری دنیا میں پھیلتی جارہی ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق یہ وبا چین سے اٹلی، برسلز، امریکہ، برطانیہ، اسرائیل سے ہوتی ہوئی مشرق وسطیٰ، ایران، پاکستان اور آخری اطلاعات کے مطابق سعودی عرب تک پہنچ چکی ہے۔ اگرچہ کہ اب کا زور کافی حد تک کم ہوچکا ہے لیکن بہر حال یہ ابھی بھی کافی خطرناک اور جان لیوا ہے اور اس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
چونکہ یہ وبا سانس اور چھینک کے ذریعے لوگوں کو اپنا شکار بناتی ہے، تو اس سے بچنے کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ عوامی اجتماعات اور بھیڑ بھاڑ والے مقامات پر جانے سے گریز کیا جائے۔کئی ممالک نے احتیاط کے طور پر اسکولوں کو عارضی طور پر بند کردیا ہے۔اگرچہ کہ بچوں کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ ایک مناسب فیصلہ کہا جاسکتا ہے،لیکن تعلیم کا جو حرج ہوگا اس کا ازالہ کیسے ہو؟ سندھ اور بلوچستان حکومت نے اسکولوںکوبند رکھنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ اب صور تِ حال یہ ہے کہ اسکول کے بچوں کے سالانہ امتحانات سر پر ہیں اور مئی کے آخرتک اسکول بند کردیے گئے ہیں۔بچوں کی تیاری کیسے ہوگی؟ نصاب کیسے مکمل کیا جائے گا؟ تعلیمی نقصان کیسے پورا ہوگا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ لیکن اس صورتِ حال میں تعلیمی اداروں کو کیا کرنا چاہیے؟ایک طریقہ تو یہ ہے کہ گھر بیٹھ کر چھٹیوں کے مزے بھی لیے جائیں اور ساتھ ساتھ انتظامیہ، حکومت کو بھی کوسا جائے اور یوں ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہیں گئی‘‘ والی صورت حال ہوگی۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بقول شاعر
؎ شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اسکولوں کی بندش کی جو صورتِ حال اس وقت ہے، وہ ماضی میں بھی تھی۔ جب ہنگامے ہوں، سب سے پہلے اسکول بند۔ موسم خراب ہو تو اسکول بند، کوئی اہم کرکٹ میچ ہو اسکول بند، ٹیم کوئی بڑا میچ جیت گئی اسکول بند۔بارشیں زیادہ ہوں تو ہفتوں کے لیے اسکول بند۔تواب اسکولوں کے انتظامیہ کو اس کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔اور یہ حل آن لائن کلاسز کی صورت میں ہوسکتا ہے مگر بلوچستان میں آن لائن کلاسز کا ہونا ناممکن ہے۔
چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان طارق بنوری نے اٹھارہ مارچ کو یہ اعلان کیا کہ انکے ادارے نے تمام یونیورسٹیوں کو آن لائن کلاسوں کے اجراء کا کہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایچ ای سی نے انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والی کمپنیوں سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ یونیورسٹیوں میں بینڈ وڑتھ میں اضافہ کریں تاکہ آن لائن کلاسوں کے دوران کوئی رکاوٹ پیدا نا ہو۔
تاہم، آن لائن کلاسوں کا اجراء پنجاب جیسے علاقوں میں کارآمد نظرآتا ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت ایک نایاب چیز نہیں بلکہ روز مرہ کی چیز بن چکی ہے۔ لیکن بلوچستان جیسا خطہ جو زندگی کے بنیادی سہولیات سے محروم ہے، وہاں بورڈ اور پین کے علاوہ کسی بھی اور ذریعے سے تعلیم کی بات کرنا، کسی دوسری دنیا کی باتیں محسوس ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں تعلیم کی حالت زار کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں محض 38 فیصد مرد تعلیم یافتہ تصور ہوتے ہیں، خواتین میں 18 فیصد کے ساتھ یہ حالت مزید ابتر ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھا جائے بلوچستان میں تعلیم یافتہ اسے گیا جاتا ہے جو محض لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔
بلوچستان کے خستہ نظام تعلیم کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے، تو بلوچستان میں آن لائن کلاسوں کا مطلب یہ ہے کہ ان طالب علموں کیلئے بھی مشکلات پیدا کی جائیں، جو قلیل تعداد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے گھر سے نکلتے ہیں۔ ضلع کیچ، پنجگور، قلات، سوراب اور مستونگ گذشتہ پانچ سالوں سے نامعلوم وجوہات کی بناء پر تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔
مذکورہ اضلاع بلوچستان کے شہری اور گنجان آباد علاقے تصور ہوتے ہیں، جہاں تک دیہی علاقوں کا تعلق ہے وہاں فون کی بنیادی سہولت تک کو ایک نعمت سمجھا جاتا ہے۔ وہ بلوچ طلباء جو خاص طور پر کراچی یا پنجاب کے یونیورسٹیوں سے واپس بلوچستان آئے ہیں، سب سے زیادہ وہ متاثر ہونگے۔ کیونکہ انکی یونیورسٹیاں انکے حالات کا ادراک رکھے بغیر کورس جاری رکھیں گے۔
چھبیس مارچ کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کے مد میں جاری لاک ڈاون کے بعد انٹرنیٹ کے استعمال میں پندرہ فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکام اس اضافے اور انٹرنیٹ کے استعمال میں ممکنہ مزید اضافہ کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو حکام انٹرنیٹ کے استعمال میں اس تیز اضافے کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ پہنچانے سے خود کو قاصر ظاھر کرتے رہے ہیں۔تاہم اس سارے صورتحال میں مثبت بات یہ سامنے آئی ہے کہ بلوچستان کے وہ طلبا جو کوئٹہ یا خضدار جیسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں انٹرنیٹ کی رفتار قدرے بہتر ہے، انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں سے رابطہ کررہے ہیں اور کرونا جیسے عالمی وباء سے بچاو کیلئے آن لائن سیمینار منعقد کررہے ہیں۔جب تک بلوچستان کے مذکورہ اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت بحال نہیں کی جاتی تب تک بلوچستان میں آن لائن کلاسز کا اجراء طلباء کیلئے مفید ثابت ہونے کے بجائے زحمت بنے گی.

اپنا تبصرہ بھیجیں