کورونا وائرس اور سائنسی تحقیق

ڈاکٹر حسین بخش مگسی
کیا حقیقت کیا افسانہ؟ کافی عرصے بعد اردو میں لکھنے کا خیال آیا جب قلم اٹھایا تو دماغ خالی اور قلم چلنے سے قاصر تھا پھر سوچا کہ کیوں نہ کورونا جیسے موضوع پر بات کی جائے کورونا ایک ایسی وباء کا نام ہے جس نے دنیا کے طاقت ور ترین ملک امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے کہ کیسے اس وباء سے نمٹا جائے مگر جب ہم پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ وباء مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور ہر شخص اس وباء پر تبصرہ کرنے کا حق رکھتا ہے اسی سلسلے کو لے کر ہمارے دانشور ہر روز ایک نیا نظریہ پیش کر کے معاشرے میں انتشار پھیلا رہے ہیں کچھ دانشور اسے چین کی پیداوار قرار دے رہے ہیں کچھ اسے امریکہ کی تخلیق اور میرے جیسے کم علم لوگ بلا تحقیق کے اسے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں عمومی طور پر ہم اس وائرس سے نمٹنے کے بجائے اس کے ذریعے کفار کو شکست دینے کا سوچ رہے ہیں دین اسلام میں علم کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور پہلی آیت جو ہمارے پیغمبر نبی ؐ پر نازل ہوئی اس میں علم کی افادیت پر زور دیا گیا اسی طرح علم کے ساتھ تحقیق کرنا بھی ضروری ہے کورونا جیسی وباء پہ قابو پانے کیلئے ہمارے معاشرے کی سوچ میں بھی تبدیلی کی ضرورت اور بلا تحقیق کے کوئی بھی خبر معاشرے میں انتشار کا ذریعہ بن سکتی ہے اسلام میں روز اول سے واضح کیا گیا ہے کہ سچ کی تلاش کی جائے قرآن پاک میں تین بڑے واضح اصول متعین کئے گئے ہیں پہلا اصول ”حکمہ“ کا ہے جس کے تحت کوئی بھی بات کرنے سے پہلے یہ تعین کیا جائے کہ وہ بات سچ ہو تعمیری ہو اور ساتھ ساتھ اس پہ یقین کیا جا سکے اور وہ بات دل تک پہنچ جائے اور انہیں اس سے فائدہ ہو دوسرا اصول ”مواعظہ حسنہ“ کا ہے جس کے تحت کسی کو اچھا مشورہ دینا اور اچھی تعلیم و ترغیب دینے کا ہیں اس اصول میں یہ بات واضح کی گئی ہے جب بھی کوئی مشورہ دیا جائے اس کے پیچھے اچھی سوچ کا عنصر ضروری ہے تیسرا اصول ”مجادلہ“ کا ہے قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ بحث اور تقرار ایک حد تک کرے جس سے ایک دوسرے کے احساسات مجروح نہ ہوں بحث اور تقرار ایک صحت مند ماحول میں ہو جس سے مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کی پذیرائی ملے اگر ہم ان اصولوں کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کریں تو ہمارے بہت سارے مسائل آسان سے حل ہو جائیں گے یہی اصول کورونا جیسی وباء سے نمٹنے کیلئے بھی بہت کار آمد ہیں جہاں صرف مستند اور صحیح معلومات میں ہمیں کورونا سے بچا سکتی ہیں۔
اب ایک انتہائی ضروری بتاتا چلوں کہ 22جنوری کو چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس جسے حرف عام Covid-19 کہتے ہیں کا پہلا کیس سامنے آیایہ وائرس جتنے زیادہ انسانوں میں منتقل ہوا اتنے ہی زیادہ نظریات ابھر کے سامنے آئے لیکن سب سے مقبول نظریہ اس وقت سامنے آیا جب چین کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ اس وائرس کا چین میں پہلے انسان سے دوسرے انسان میں انتقال کی وجہ ایک امریکی فوجی تھا جس پر صدر ٹرمپ نے اپنی ایک پریس کانفرنس کے دوران شدید غصے اور تنقید کا اظہار کیا اور کورونا وائرس کو چائنیز وائرس کہا امریکہ اور چین کا ایک دوسرے پہ الزام تراشی اپنی جگہ مگر کورونا وائرس کا ارتقاء کیسے ہوا یہ کیسے اپنے اندر وہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہوا اور اتنی جلدی دنیا کے اتنے سارے ممالک میں پھیل گیا اور اس پہ دنیا کی بڑی بڑی لیبارٹریز کام کر رہی ہیں کچھ دن پہلے سائنس کی دنیا کے معتبر ترین جریدے ”نیچر میڈیسن“ میں ایک تحقیقی آرٹیکل شائع ہوا جس میں کرسٹین اور ان کی ٹیم نے Covid-19اور اس کی فیملی کے سارے کورونا وائرس کا تجربہ کیا اور یہ دیکھنے کی کوشش کی covid-19کیسے انسانوں تک پہنچ گیا۔
مالیکیولر سطح پر Covid-19 نے اپنے اندر کتنی تبدیلیاں لائی ہیں اور ان تبدیلیوں کی مالیکیولر اور حیتیاتی ساخت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ Covid-19جو کورونا وائرس کا ساتواں دریافت شدہ وائرس ہے جو انسان کے نظام تنفس کو متاثر کرتا ہے عام طور پر وائرس کے باہری سطح پر پروٹین سے بنا ایک خول ہوتا ہے جس سے وائرس کئی جاندار کے خلیوں سے منسلک ہوتا ہے اور یہ خلیے کے اندر جاتا ہے اور اسے متاثر کرتا ہے Covid-19 کے پروٹین کے خول پر ایک خاص حصہ ہوتا ہے جسے Receptor Binding Domainیا RBD کہتے ہیں اس domdainکی حیاتیاتی اور مالیکویر ساخت ہے وہ ماحول کے مطابق اپنے اندر تبدیلی لاتا رہتا ہے جبکہ دوسری طرف خلیوں کے اوپر مختلف قسم کے ریسپٹرز ہوتے ہیں جو مختلف قسم کے مالیکیولر کو خلیوں کے اندر لے کے جاتے ہیں اور وائرسز کا RBD ماحول میں موجود ریسپٹرزکو لے کر اپنے اندر تبدیلی لاتے ہیں جب تک ان کو وہ ریسپیٹرز نہ ملے جس کو استعمال کر کے وہ خلیوں کے اندر جا سکیں جب Covid-19کا RBDبہت باریکی سے دیکھا گیا تو سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ لیبارٹریز میں بنایا گیا وائرس اتنی مضبوطی سے خلیوں کے ساتھ منسلک نہیں ہو سکتا کیونکہ Covid-19 کے RBD پر جو امینواسٹرز دیکھے گئے وہ SARS-COV کے RBD پر موجود امیواسٹرز سے مختلف ہیں لیکن SARS-COV اور COVID-19چھیانوے فیصد ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی Adaptation اس وقت ممکن ہے جب COVID-19 جو چمگادڑ میں موجود ہوتے ہیں وہ چمگادڑ سے کسی اور جانور میں منتقل ہو کر اسی طرح Adaptation لانے کے قاتل ہوتے ہیں سائنسدانوں کا کہنا ہے ممکن ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے پنگولن میں منتقل ہوا ہے اور پنگولیلین سے انسان میں کیونکہ جب انہوں نے پنگولن میں موجود کورونا وائرس اور COVID-19 کا تقابلی تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ پنگولن میں پایا گیا کورونا کے RBD اور COVID-19 کے RBDمیں نوے فیصد سے زیادہ مماثلت ہے جب SARS-COVچمگاڈر سے پنگولن میں گیا وہاں اس نے اپنے RBD میں تبدیلی لائی جس میں وہ پنگولن کے خلیوں میں موجود ریسپٹررز اپنے آپ سے منسلک کر کے خلیوں کے اندر جانے میں کامیاب ہو گیا اور جب پنگولن سے انسان میں منتقل ہوا اس وقت سارے Adaptation پنگولن میں ہو گئے تھے اور اب وہ انسان کے ریسپٹررز پر مضبوطی کے ساتھ منسلک ہے یہ سب قدرتی طریقے سے ہوا ہے لیبارٹری میں نہیں لہذا احتیاط ہی اس بیماری سے نمٹنے کیلئے موثر اور کارآمد ہتھیار ہے۔
(سائنسی معاونت کیلئے ڈاکٹرز خورشید بلوچ کا خاص شکریہ)
راقم لوامز یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں