سلیکشن اور الیکشن اپریل 12, 2020اپریل 12, 2020 0 تبصرے انور ساجدیجہانگیر ترین جیسے کھرب پتی سیٹھ سیاسی لڑائی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے وہ کوئی ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہیں جنہوں نے اپنے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کو چیلنج کیا تھا اور انہیں کرسی سے گراکر ہی دم لیا تھا اسکی وجہ یہ تھی کہ بھٹو کوئی ساہوکار صنعتکار نہیں تھے انکی کوئی کاروباری مجبوری نہیں تھی جبکہ جہانگیرترین ابھی تک شوگر کنگ ہیں لیکن اپنے وزیراعظم سے محاذ آرائی کے بعد وہ شوگرکنگ تو کیا آزادفضاؤں میں بھی نہیں رہ سکیں گے بلکہ جب تک عمران خان کا اقتدار برقرار ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اڈیالہ یاکوٹ لکھپت میں وقت گزاریں اگروہ واقعی بے قصور ہیں اور عدلیہ نے انہیں ریلیف دیا تو الگ بات ورنہ عمران خان انہیں سبق سکھانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں فی زمانہ جب کسی کااے ٹی ایم مشین ناکارہ ہوجائے تو اسکی جگہ نئی مشین نصب کرنا پڑتی ہے عمران خان بھی ایسا ہی کریں گے۔دنیا کا دستور ہے کہ جب دو قریبی رفیق سیاسی حلیف اور ہم نوالہ وہم پیالہ دشمن ہوجائیں توگھمسان کارن ضرور پڑتا ہے عمران خان کے ہاتھ میں ریاستی طاقت ہے جبکہ جہانگیرترین کی کاروباری کمزوریاں بے شمار اس لئے وقتی طور پر بازی عمران خان کے ہاتھ میں رہے گی جبکہ جہانگیر ترین پس پردہ حکومت کیخلاف سازش کرسکتے ہیں سرائیکی بیلٹ میں حکومت کیخلاف کام کرسکتے ہیں اراکین کوورغلا سکتے ہیں تاکہ عمران خان کی حکومت اپنی اکثریت سے محروم ہوجائے اور کسی دن دھڑم سے گرجائے۔جہانگیرترین یہ آپشن صرف اس وقت استعمال کرسکتے ہیں جب اقتدار کے طاقتور عناصر اور اسٹیک ہولڈر ان کا ساتھ دیں یا حکومت کا ساتھ چھوڑدیں فی الحال ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں جہانگیرترین کے ساتھ جو تضحیک آمیز سلوک ہوا ہے اس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ کسی بڑے مقام پر کوئی غلطی کربیٹھے ہیں اگر عمران خان پر زیادہ دباؤ نہ ہوتا تو وہ اپنے اقتدار کے دوست کے ساتھ کبھی ایسا سلوک نہ کرتے یا اس ملک میں جودستور ہے کہ اگر کسی حکومت کو گرانا ہو تو اسکے مضبوط ستون ایک ایک کرکے گرائے جاتے ہیں تاکہ حکومتی دیوار بوسیدہ ہوکر گرجائے لگتا ہے کہ کچھ ایسا کام شروع کردیا گیا ہے۔یہ جو کرونا کی آفت ہوئی ہے یہ ساری دنیا میں معاشی تبدیلیوں کے ساتھ سیاسی تبدیلیوں کاموجب بھی بنے گی آج کے بیشتر حکمران کرونا تھم جانے کے بعد اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکیں گے امریکہ میں چونکہ اس سال صدارتی انتخاب ہورہے ہیں اس لئے اگر صدر ٹرمپ کرونا کوروک نہ پائے تو ان کا الیکشن جینا مشکل ہوجائے گا اگروہ دوبارہ جیتنا تو اس کی وجہ کمزور امیدوار ہوگا کیونکہ جو سب سے اچھا امیدوار تھا برنی سینڈرز طاقتور مافیاز اسے صدارتی دوڑ سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جبکہ جو بائیڈن اتنے مضبوط امیدوار نہیں ہیں امریکہ میں کرونا کی وجہ سے صرف ایک ماہ میں دو کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں جو کسادبازاری آرہی ہے وہ 1920ء اور 1930ء کی دہائی والی صورتحال پیداکرسکتی ہے جب امریکہ دوبار دیوالیہ ہوگیا تھا۔قیادت کی تبدیلی اٹلی اسپین،فرانس،بلجیم،ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک میں بھی آئے گی کیونکہ کرونا کی وجہ سے دنیا بدل رہی ہے اسکی ترجیحات بدل رہی ہیں تبدیل شدہ حالات میں جولوگ اس وقت برسراقتدار ہیں انکی ضرورت باقی نہیں رہے گی کرونا کے بعد ایسے لیڈروں کی ضرورت پڑے گی جو تباہ حال معیشتوں کوسنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جن ممالک میں تبدیلیاں وقوع پذیر نہیں ہونگی ان میں چین،روس،شمالی کوریا،جنوبی کوریا،ویت نام اور فلپائن شامل ہیں ان تمام ممالک میں جمہوری نظام رائج نہیں ہے اور مختلف قسم کی آمریتیں کافی عرصہ سے کام کررہی ہیں۔کہاجاتا ہے کہ یورپ میں جو کساد بازاری آرہی ہے اسے ختم ہونے میں 20سال لگ سکتے ہیں البتہ جرمنی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ شدید اقتصادی دباؤ کا مقابلہ کرسکے کرونا کے بعد کاروبار کی ہئیت بھی تبدیل ہونے کا امکان ہے دنیا کا 80فیصد کاروبار آن لائن ہوجائیگا لوگ اپنی ضروریات کی اشیاء آن لائن آرڈر کے ذریعے منگوائیں گے علی بابا اور ایمازون جیسے اورکاروبار کھل جائیں گے بڑی بڑی بلڈنگز میں بیٹھ کرکام کرنے کا رواج ختم ہوجائیگا چھوٹے چھوٹے ورک پلیس بن جائیں گے جہاں سے بیٹھ کر ہر طرح کاکام ہوگا بڑے بڑے مالز محض تفریح طبع کے مقامات ہونگے۔علاقائی ممالک علاقائی سطح کے اتحاد قائم کریں گے اور وہ اپنی ضروریات قرب وجوار کے لین دینے سے پورا کریں گے چین اور امریکہ کی لڑائی تیز ہوجائے گی،مشرق وسطیٰ عجیب وغریب تنازعات اور کشمکش کاشکار ہوجائے گا چین بڑی تعداد میں الیکٹرک گاڑیاں بنارہا ہے۔مشرق میں امریکہ اور یورپ کی گاڑیوں کی جگہ چینی الیکٹرک گاڑیاں اپنی مارکیٹ بنائیں گی۔ہندوستان کوامریکہ اور یورپ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کریں گے لیکن انڈیا میں تیار شدہ یورپی مال کی کھپت اتنی زیادہ نہیں ہوگی یورپ کی نسبت کوریا کی گاڑیاں زیادہ چھاجائیں گی عرب ممالک مزید کمزور ہونگے اور اسرائیل واحد فوجی اور سیاسی طاقت رہ جائے گا کمزور امریکی قیادت کی وجہ سے اس ملک کو کنٹرول کرنے والی صیہونی لابی زیادہ مضبوط ہوجائے گی سب سے زیادہ مشکلات کا شکار سعودی عرب رہے گا کیونکہ وہاں اقتدار کی جنگ تیز ہوجائے گی چین اپنی جدید نوآبادیات میں اضافہ کرتا جائیگا اور مشرق کا سارا سرمایہ اوروسائل ہڑپ کرجائیگا روس میں پوٹن کی طاقت کمزور ہوتی جائے گی کیونکہ روس کا کوئی نظریہ کوئی اصول اور سرمایہ لانے کا ذریعہ نہیں ہوگا اگرچہ روس کے وسائل دنیاکے ہر ملک سے زیادہ ہیں لیکن اس کی پیداوار صلاحیت نہیں ہے۔اس کامینوفیکچرنگ سیکٹر اور کنزیومرز کا شعبہ کمزور ہے۔کروناکے بعد اگرچہ پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات حسب سابق رہیں گے لیکن18ویں ترمیم پر بہت بڑے حملے کا امکان ہے وفاق میں یہ سوال تیزی کے ساتھ زیر غور ہے کہ مضبوط مرکز کیلئے اس ترمیم کا خاتمہ ناگزیر ہے ورنہ صوبے آزاد ریاستوں کی شکل اختیار کرلیں گے یہی وجہ ہے کہ وفاق ابھی تک این ایف سی کا اجلاس بلانے سے گریزاں ہے اسے خوف ہے کہ صوبے مزید وسائل لے جائیں گے جبکہ وفاق دفاع خارجہ اور مواصلات کے اخراجات پورا کرنے کے قابل نہیں رہے گا اگرچہ تیل اور گیس وفاقی سبجیکٹ ہیں لیکن معدنی وسائل مکمل طور پر صوبوں کے اختیار میں آگئے ہیں اس لئے مستقبل میں وفاق کی آمدنی بڑھنے کاکوئی امکان نہیں ہے صوبے کل یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا زیادہ حصہ صوبوں کودیا جائے کیونکہ وفاق اپنے طور پر ٹیکس اکٹھے نہیں کرسکتا اس سلسلے میں امریکہ کی مثال سامنے ہے جہاں ریاست کیلی فورنیا کی آمدنی وفاق کی نصف آمدنی کے برابر ہے جبکہ یہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔اگر وفاق اور صوبوں کے درمیان کشمکش بڑھ گئی تو پورے نظام کوخطرہ لاحق ہوجائے گا اس وقت وفاق کی یہ حالت ہے کہ اسکے پاس اپنے لوگوں کاڈیٹا نہیں ہے گوکہ مردم شماری تو کردی گئی ہے لیکن اس کی صحت مشکوک ہے وفاق کومعلوم نہیں کہ کون کیا کررہا ہے کتنے غیر ملکی یہاں پر مقیم ہیں پاکستان میں خطرناک کیمیکل جن میں تیزاب سرفہرست ہے مختلف قسم کے بارود کے ڈھیر آبادیوں کے بیچ میں کسی احتیاط کے بغیر ذخیرہ ہیں جس سے کوئی بھی حادثہ جنم لے سکتا ہے جیسے کہ ضیاء الحق کے دور میں اوجڑی کیمپ کا واقعہ ہوا تھا۔وقتی طور پر وفاق کمزور صوبوں میں اپنی مرضی کی حکومتیں لاکر کام چلارہا ہے لیکن یہ عمل تادیر نہیں چل سکتا کافی عرصہ سے انجینئرڈ انتخابات ہورہے ہیں جبکہ بلوچستان اور پشتونخوا میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتا ہے وہاں کی سیاسی حکومتیں برائے نام ہوتی ہیں جنہیں براہ راست کنٹرول کیاجاتا ہے لیکن اب جبکہ دنیا بدل رہی ہے تو نئے اقدامات کرنا ہونگے کیونکہ دنیا میں طرز تعلیم بدل جائیگا ملکوں کی سیکیورٹی اور ویزے کی پالیسیاں بدل جائیں گی۔ہرچیز آن لائن ہوجائے گی پاکستان جیسے ملک کو سب سے زیادہ توجہ زراعت پر دینا ہوگی کیونکہ پاکستان کبھی صنعتی ملک نہیں بن سکتا اسے غذائی خود کفالت اور زرعی اجناس برآمد کرنے پر زور دینا ہوگا پاکستان زیادہ کاٹن اور چاول پیدا کرکے زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے زراعت کو جدید طور پر استوارکرنا ہوگا بلوچستان میں سلیکشن کی بجائے صحیح الیکشن کروانے ہونگے تاکہ یہاں کی صوبائی حکومتیں مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکیں بلوچستان میں ہزاروں چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے اسکے بغیر یہ غذائی خود کفالت حاصل نہیں کرسکتا بلوچستان میں پھلوں کے جدید منفرد اور محفوظ اقسام پیدا کرنا ہونگی تاکہ انہیں برآمد کیاجاسکے بلوچستان میں فشریز کو جدید اور صنعتی لحاظ سے استوار کرنا ہوگا اور وفاق کوبتانا ہوگا کہ سمندری پیداوار پرپہلا حق صوبے کا ہے یہ سارے کام اس وقت ہونگے جب وفاق انتخابات میں مداخلت نہ کرے اور آزادانہ انتخابات ہونے دے تاکہ عوامی نمائندگی کی حامل حکومت قائم ہوسکے کتنی بدقسمتی کی بات ہے گزشتہ30برس سے بلوچستان کی کسی حکومت نے کوئی اقتصادی پلاننگ نہیں کی کوئی کار آمد منصوبہ نہیں بنایا اس عرصے میں صرف سلیکشن کے ذریعے آنے والے معزز ممبران کی وقتی فلاح وبہبود اور خوشحالی کاسوچا گیا عوام کی بہتری ترجیح ہی نہیں رہی۔اگر اس ریاست کو دنیا کے تبدیل شدہ حالات میں آگے بڑھانا ہے تو بلوچستان کو اسکے عوام کے حوالے کرنا پڑے گا تاکہ صحیح منصوبہ بندی ہوسکے اگر بلوچستان کی بیشترآبادی فاقہ زدہ قحط زدہ اور غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارے گی تو یہ ملک کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)