جب تماشا ختم ہوگا

چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی ایف آئی اے کی انکوائری ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ دو ماہ تک وزیراعظم کی میز کے دراز میں بند رہنے کے بعد بالآخر منظر عام پر آ ہی گئی جناب وزیراعظم نے کابینہ اجلاس کو بتایا کہ رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ اور حکم انہوں نے دیا تھا یہ نقطہ دلچسپ بحث کا حامل ہے کیونکہ جس طرح مذکورہ رپورٹ منظر عام پر آئی تھی صحافتی زبان میں اسے بریک کرنا کہتے ہیں اور ملک کے معروف صحافی جناب محمد مالک نے ہم نیوز چینل پر اسے بریک کیا تھا پھر تو جیسے جنگل میں آگ لگ گئی وہ جو وزیراعظم کے آفس میں محبوس تھی بے لباس ہو کر گلی گلی میں ہر خاص و عام کی زبان پر آ گئی اخبارات‘ نیوز چینلز‘ سیاسی صحافتی حلقے اس کی جزیات پر بحث کر رہے تھے اور اب بھی مذکورہ رپورٹ ملکی سیاسی منظر نامہ پر چھائی ہوئی بحث کا بھرپور موضوع ہے جناب محمد مالک کی جناب سے منظر عام پر لائے جانے کے بعد شاید وزیراعظم آفس نے بھی اس نامکمل رپورٹ کو ذرائع ابلاغ کو مہیا کیا ہو کیونکہ تاحال رپورٹ جس مبہم انداز سے یا جو کچھ تاحال منظر عام پر آیا ہے اسے سرکاری طورپر. رپورٹ پبلک کرنے کا نام اس لئے نہیں دیا جا سکتا ہے۔ تاہم جس طور رپورٹ سامنے آئی ہے۔ تو سوال ابھرتا ہے کہ کیا وزیراعظم صاحب نے اپنی کرکٹ ٹیم سے بڑی (تعداد میں) میڈیا ٹیم کے کسی قریبی رکن یا. بیوروکریٹ کو کہا تھا کہ وہ اسے اپنے کسی اور پسندیدہ صحافی (کسی ایک) کو مہیا کر دے تاکہ پورے ملک میں سنسنی و اضطراب کی لہر دوڑ جائے اور کرونا وباء کے متعلق وفاقی حکومت کے نیم دلانہ فیصلوں و اقدامات کی بحث پس منظر میں چلی جائے!!!!! اس قیاس آرائی و سوال کا امکان موجود ہے کیونکہ اگر سرکاری سطح پر رپورٹ کا باضابطہ اجراء مقصود ہوتا تورپورٹ تمام ذرائع ابلاغ کو جاری ھوتی جسکے ساتھ ایک حکم نامہ (نوٹیفکیشن)منسلک ہوتا پی ایم آفس کا مجاز افسر دستخط کرتا اور یہ بھی تحریر کرتا کہ جناب وزیراعظم کے احکامات یا اجازت سے اسے عوام کیلئے منظر عام پر لایا جا رہا ہے“ ظاہر ہے ایسا نوٹیفکیشن 9 اپریل تک سامنے نہیں آیا تو پھر دراز میں رکھی یہ رپورٹ جناب محمد مالک صاحب تک کیسے پہنچی؟ بدگمانی کہتی ہے کہ شاید طاقتور حلقے کے ایماء پر اسے لیک کرایا گیا ہو جیسا کہ وزیراعظم کے سیاسی معاون جناب ندیم افضل چن نے بھی میڈیا پر اقرار کیا تھا کہ رپورٹ تو لیک ہوئی ہے (چن صاحب کو اس کا ذاتی تجربہ‘ ان کی کال لیک ہو جانے سے بھی ہواہے)
نامکمل رپورٹ کی اشاعت کے بعد سیاسی بحران ابھرا تو وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے بعض وزراء کے محکمے بدل کر” خود احتسابی کی تاریخی مثال ” قائم کرنے کا منچلا دعویٰ بھی کردیا اگر اس دعوے کو تسلیم کر لیا جائے تو اس کے بطن سے ایک اور حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ جانب وزیراعظم نے آٹا چینی بحران کے ملزمان کو حتمی طور پر احتسابی کٹہرے میں کھڑا کر کے انہیں قرار واقعی سزا بھی سنا دی ہے یعنی یہ طے کر دیا ہے کہ گندم چینی بحران کے اصل ملزم یا ذمہ دار۔یہی وزراء اور افسر شاہی کے چند افراد تھے جن کے محکمے تبدیل اور افسران کے بھی تبادلے کر دیئے گئے ہیں حالانکہ وزیراعظم کا فرمانا ہے کہ اس رپورٹ پر فرانزک انکوائری آنے پر وہ سخت کارروائی کریں گے جسے 25 اپریل کو وزیراعظم کو پیش کی جانے کا امکان ہے جبکہ سزا و احتساب اگر ہو چکا ہے تو کیا وزیراعظم 25کے بعد اپنے اس اقدام سے یوٹرن لے لیں گے؟ یا مزید کاروائی عمل میں لائیں گے؟
چنانچہ اب عمومی مباحثے کا دلچسپ سوال یہ ہے کہ جناب وزیراعظم 25اپریل کے بعد کن کن افراد کے خلاف اور کیا احتسابی اقدامات کریں گے؟ حتمی طور پر تو اس سوال کا جواب 25 اپریل کے بعد سامنے آئے گا البتہ امکانات کے دائرے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ فرانزک رپورٹ کے ذریعے ساتھی وزراء کو تمام الزامات سے برات مل جائے ایسا سوچنے والے حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر یوں ہوا تو عمران خان کی سیاسی ساکھ پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے گویا 25کو یوٹرن کا امکان بھی نہیں۔
تو پھر کیا عمران صاحب 25اپریل کے بعد” تاریخ رقم ” کرنے جا رہے ہیں؟ جی ہاں میری رائے یا تجربہ جس کے غلط ہونے کا امکان بہر طور پر موجود ہے یہ ہے کہ مشکوک انداز سے ایف آئی اے کی رپورٹ کا اجراء اور اس کا ٹائم فریم بہت اہم ہے اسے کرونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر عوامی سیاسی ناقدانہ دائرے تک محدود رکھنا گو کہ محدود معنوں میں درست ہوگا لیکن میں موجودہ حکومت کی دو سالہ ناکامیوں کے مجموعے کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قیاس کر رہا ہوں کہ جناب عمران خان 25اپریل کو تاریخ کا پہیہ موڑ دیں گے مگر کیسے؟
براہ راست اس سوال کا جائزہ لینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس نوعیت کے خود احتسابی کے تاریخی فیصلے کے. حکومت پر منفی سیاسی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
دو پہلو فرانزک رپورٹ کے ذریعے واضح ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
الف۔ گندم اور چینی برآمد کرنے کی اجازت کب کس نے اور کیسے اور کیوں دی؟
ب۔ برآمدگی کے بعد دونوں اجناس کی قلت سے نرخوں میں جو خوفناک اضافہ ہوا اس سے تجارتی طبقے کے علاوہ کن کن مقتدر افراد۔۔ان کے کے خاندان یا کاروباری شراکت داروں کو اربوں روپے کا منافع پہنچا اس کا ملزم کون ھے؟
ج۔ چینی کی برآمد کی اجازت اگر وزیراعظم اور کابینہ نے نہیں دی تھی تو دوسری مجاز اتھارٹی کون تھی جس نے یہ فیصلہ کیا نیز چینی مل مالکان کو پنجاب حکومت نے وزیراعظم سے ماوراء پانچ روپے فی کلو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیسے اور کن بنیادوں پر کیا؟
واضح ھے کہ ان سوالات کے جواب کی زد میں وہی لوگ آئیں گے جو حکومتی فیصلہ سازی کے حلقے میں موثر سمجھے جاتے ہیں ان کا گندم و چینی کے کاروبار و صنعت سے تعلق ہے لہذا یہ زیادہ ممکن ہے کہ جناب جہانگیر ترین انکے ساتھی۔۔جناب خسرو بختیار۔ جناب عثمان بزدار اور جناب مونس الٰہی (چوہدری گجرات فیملی) سمیت چند دیگر صنعتی گروپ تاجر اور اعلیٰ سرکاری اہلکار مورد الزام ٹھہرائے جائیں تو پھر ان کے خلاف قانونی کارروائی کا جو بھی نتیجہ نکلے گا وہ بعد ازاں مرتب ہو گا اولین سطح پر اس فیصلے کے منفی سیاسی اثرات فی الفور موجودہ حکومت کے تسلسل کیلئے بہت ناخوشگوار ہونگے زیادہ خدشہ یہ ہے کہ (جو میری رائے میں جناب عمران کے ذہن میں بطور حکمت عمل کار فرما ہو سکتا ہے) کہ بد نظمی کے الزام ساتھی وزراء کے خلاف کارروائی کرنے کا اعزاز سینے پر سجا کر اقتدار کی قربانی دے دی جائے تاکہ گزشتہ دو سالہ حکومتی ناقص کارکردگی سے پی ٹی آئی کی ساکھ پر جو برے اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کا ازالہ کر لیا جائے نیز چونکہ کرونا اور معاشی سیاسی انحطاط کی وجہ سے زیادہ امکان یہی ہے کہ قومی اسمبلی میں نئی حکومت سازی نہ ہو پائے گی۔ چنانچہ کرونا وباء کے خاتمے کے بعدہی جس کی مدت کا تخمینہ فی الحال نہیں لگایا جا سکتا۔جب انتخابات ہوں تو پی ٹی آئی اپنے آدرش و اصولوں کی خاطر حکومت گنوا دینے کے پر عزم فیصلے کی تھاپ و تکرار کے ذریعے انتخابی فوائد سمٹنے کی توقع کر سکتی ہے۔ لیذا رپورٹ پر کاروائی پارٹی کے لیے برے حالات میں مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
بین السطور میں ایک نقطہ جو مقتدرہ اور حکومت کے بیچ اتفاق رائے کا باعث بھی بن سکتا ہے کہ کرونا وباء اور درپیش سنگین بحران کی وجہ سے فوری انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ یہ گریز وہ جواز مہیا کرے گا جو ماہرین پر مشتمل قومی حکومت کے دیرینہ خواب کی تعبیر بن سکے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ رپورٹ کے افشاء ہو جانے کے بعد اور مقتدر حلقے کی جانب سے حالیہ دنوں میں حکومت سے فاصلہ اختیار کئے جانے والے بعض اقدامات بھی مذکورہ بالا صورتحال کے ابھرنے کی تائید کرتے ہیں جو 25اپریل کے بعد رونما ہو سکتے ہیں؟ یعنی دیرینہ خواہشات کی تکمیل آئینی حدود میں رہ کر اور ڈوبتی سیاسی ساکھ کا بچاؤ بحالی قربانی حکومت کی قربانی دے کراصول پسندی کے نعروں کے شور ہیں۔
یہاں یہ کہنا بھی اشد ضروری ہے کہ بحران کے دوران چینی کی قیمتوں میں اضافے سے چینی کے صنعتکاروں کو حاصل ہونے والے سو ارب روپے کے منافع کا تخمینہ مکمل طور درست نہیں کیونکہ چینی کی قیمت کا تعین صرف گنے کی قیمت خرید اور پیداوری لاگت سے حاصل شدہ پیداوار. یعنی چینی کی فروخت کے حساب سے لگایا جاتا ہے جبکی چینی کی ملیں‘ چینی بنانے کے ساتھ ساتھ ذیلی پیداوار کی فروخت سے جو منافع کماتی ہیں اسے لاگت سے مبہا کیا جائے تو چینی کی قیمت بہت کم ہو سکتی ہے۔ سردست چینی کی قیمت کا تعین فی کلو 67روپے کیا جاتا ہے ذیلی پیداوار میں ریکٹیفائیڈ سپرٹ‘ متھیلیڈ سپرٹ مڈ (راب) اور گنے کے پھوک (برادے)شامل ہیں دریں حالات یہ بھی واضع ہے کہ عمران خان نے ابتداء ہی میں جناب جہانگیر ترین سے فاصلہ بڑھا کر واضع کر دیا ہے کہ انہیں اب اس بوجھ سے نجات کے ساتھ حکومت کی قربانی دے کر اپنی سیاسی ساکھ بچانی ہے جو ان کے مختصر ترین عرصہ اقتدار میں آدھی سے بھی کم ہو چکی ہے۔ اس لئے مجھے لگتا ہے کہ 25اپریل کو عمران خان یوٹرن لینے کی دانشمندی سے اس بار مکمل اجتناب کرنے والے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں