متعلقہ باڈیز کو بارہا نوٹسز کے اجراء کے باوجود الیکشن میں تاخیر ہو رہی ہے، بلوچستان بار کونسل

کوئٹہ:پاکستان بار کونسل کے ممبر منیر احمد خان کاکڑ نے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان ایڈووکیٹ اوردیگر ممبران کے نام لکھے گئے خط میں کہاہے کہ میں بحیثیت ممبر پاکستان بار کونسل انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ یہ خط آپ اور دیگرممبران پاکستان بارکونسل کولکھ رہا ہوں تاکہ پاکستان بار کونسل اور اپیلیٹ کمیٹی کا بلوچستان ہائی کورٹ بار،سبی ھائی کورٹ بار اور تربت ھائی کورٹ بار کے الیکشن کے حوالے سے کچھ گزارشات کرسکوں مذکورہ الیکشن جوکہ دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود وقت مقررہ پر نہیں کروائے جا رہے ہیں اور اس بابت بلوچستان بار کونسل نے متعلقہ بار باڈیز کو کئی مرتبہ نوٹسز دئیے کہ مذکورہ الیکشنز کا انعقاد کیا جائے، لیکن موجودہ ھائی کورٹ بار کے ساتھ ساتھ سبی اور تربت ھائی کورٹ بارز بھی بروقت الیکش کا انعقاد کرنے سے گریزاں ہیں۔ جس پر بلوچستان بار کونسل نے ھائی کورٹ بار کے موجودہ کیبنٹ کے غیر جمہوری رویہ،اور الیکشن بروقت نہ ہونے کی بنا پر وکلا کے حقوق کو متاثر و غصب ہوتے دیکھ کر، ہائی کورٹ بار کے کیبنٹ کو تحلیل کرتے ھوے، الیکشن کے انعقاد کے لیے باقاعدہ الیکشن بورڈ تشکیل دیکر الیکشن کے لیے شیڈول بھی جاری کر دیا تھا جس کے خلاف بلوچستان ھائی کورٹ کے موجودہ غیر قانونی،غیرجمہوری و غیر آہینی کیبنٹ جو کہ کوئی اخلاقی جواز نہ رکھنے کے باوجود سال 2020 میں پاکستان بار کونسل کی پچھلے باڈی کی تشکیل کردہ بلوچستان اپیلیٹ کمیٹی کے پاس اپیل کی تھی اور اسوقت کی اپلیٹ کمیٹی نے ہائی کورٹ بار ایسوسیشن کے اِن غیر قانونی اقدامات کے باوجود مذکورہ اپیل کو قابل سماعت قرار دیکر سٹے آرڈر جاری کرکے اپیل کی سماعت کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا، مزکورہ اپیل تاحال زیر سماعت ھے اور گزشتہ ڈیڑہ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد اور پاکستان بار کونسل کے نئے باڈی کے منتخب ھونے کے بعد میں نے کئی مرتبہ بحثیت ممبر پاکستان بار کونسل اپلیٹ کمیٹی کے چیرمین اور دیگر ممبران سے فون پر اور کئی مرتبہ پاکستان بار کونسل کیجنرل ھاوس میں بھی اس اھم۔ایشو کے ساتھ ساتھ چاکر خان یونیورسٹی سبی اور بیوٹم یونیورسٹی کوئٹہ میں لا فیکلٹی کے لیے این او سی جاری کرنے کے ایشو کو بھی اٹھاتا رھا ھوں۔ نیز نئے اپیلٹ کمیٹی اور لیگل ایجوکیشن کمیٹی کے سامنے اپنے جائز گزارشات رکھتا رھا ہوں، لیکن مجھے نہ تو کوئی مثبت رویہ نظر آیا اور نہ ھی مثبت جواب ملا، لیکن میرے بار بار اصرار پر موجودہ اپیلٹ کمیٹی نے اپیل کی باقاعد سماعت کے لیے تاریخ مقرر کی اور میں نے بطور ممبر اپیلٹ کمیٹی اس سماعت میں حصہ لیا اور پہلے سماعت پر اپیلٹ کمیٹی نے بلوچستان بار کونسل کے وائس چیرمین اور چیرمین ایگزیکٹیو کمیٹی اور ھائی کورٹ بار کے صدر کی موجودگی میں 17 جولائی 2020 کو الیکشن کرانے کا حکم دیے دیا تھا اور الیکشن کے انعقاد کے لیے وھی الیکشن۔بورڈ جو کہ موجودہ غیر قانونی ھائی کورٹ بار ایسوسیشن کے کیبنٹ نے تشکیل دی تھی اسی بورڈ کے زیر اہتمام الیکشن کرانے کی احکامات بھی صادر کیے، جبکہ اِس بابت تحریری اور تفصیلی حکم بعد میں جاری کرنے کا کہا گیا، مگر مجھے اسوقت انتہائی افسوس اور دکھ ھوا جب اپیلٹ کمیٹی نے بر موقع زبانی حکم کے برعکس تحریری حکم زبانی حکم سے بلکل مختلف جاری کیا۔اور اس حکم میں وہ نکتے آٹھائے گئے جو بوقت سماعت نہ تو آٹھائے گئے اور نہ ہی زیر بحث آئے، اور نہ ھی وہ مذکورہ اپیل کے بنیادی نقاط کا حصہ تھے۔ مجھے اپیلٹ کمیٹی کے اس عمل پر انتہائی افسوس ھوا جوکہ غیر قانونی غیر اخلاقی اور بار کونسل کیقواعد وضوابط کے خلاف ھے۔ اور مجھے اس بات کو کہتے ہوئے کوئی ملال یا پشیمانی نہیں ھوگی کہ ھمارا یہ ادارہ جو کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد وکلا کی نمائندہ باڈی اور فیڈریشن کی نماہندگی کرتی ہے۔ لہذا اس ادارے کی حثیت تمام اکائیوں کی نمایندگی کرنے والی ادارے کی ہے۔ مگر افسوس کہ اس ادارے کے اندر بھی شاپینگ بیگ اور بریف کیس میں باھر سے فیصلے بھجواکر لاگو کئے جاتے ھیں۔ جو کہ اس ادارے کے مستقبل کے حوالے سے نیک شگون نہیں بلکہ انتہائی خطرناک اور قابل افسوس رحجان ہے۔۔جبکہ اگر اس مقدس ادارے کے اندر شفافیت،میرٹ،قانون کی بالادستی نہ ہوگی تو یہ ادراہ ملک کے دیگر اداروں میں بالعموم جبکہ عدلیہ میں بالخصوص ائین،قانون اور میرٹ کی پاسداری کی تلقین کے دعویں کیسے کرسکتا ہے؟ جبکہ اپنے ادراے کے اندر ھر قسم کی غیر قانونی غیر اخلاقی،غیر جمہوری اور رولز کے برعکس اقدامات کو اپناتے ھوے اپنے ذاتی، گروھی اور۔گروپ کی مفادات کو تحفظ فراھم کرنے میں مگن ہو، جو کہ اس ادراے کے تباھی کے ساتھ ساتھ فیڈریشن کے کمزور اکائیوں (بلخصوص بلوچستان) کے ساتھ غیر جمہوری رویہ رکھ کر بلوچستان جس میں پہلے ہی سے وفاق کے غیر آہینی و غیر جمہوری رویہ کی وجہ شدید مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ وہ آپ کا یہ مقدس ادارہ اپنے اِس غیر آہینی و غیر جمہوری رویہ کی وجہ سے بلوچستان کے وکلا کو ان کے قانونی حق سے محروم کر کے کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟ ان تمام حالات میں کیا بلوچستان کے وکلا یہ یہ سمجھنے میں حق بجانب نہ ہے کہ آپ کا یہ ادارہ ملک بھر کے وکلا کی نمائندہ باڈی کی بجاے ایک مخصوص سوچ یا گروپ یا ایک مخصوص صوبے کا (بوجہ اکثریتی ممبروں کے) ادارہ تصور کیا جائے۔ لہذا ایسی صورتحال میں بلوچستان کے وکلا کا ملک کے اپیکس باڈی پر عدم اعتماد کا اظہار جاہز نہ ہوگا۔ میں انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ اپ جناب اور دیگر معزز ممبران کے سامنے ھاتھ جوڑ کر یہ گزارش کرنا چاہتا ھوں، کہ بلوچستان کے وکلا کے اس بابت شدید حفظات ہیں۔ کہ دگر صوبوں میں بار الیکشنز بروقت ہوتے آرہیے ہیں۔ مگر بلوچستان کے ساتھ جس طرح وفاق کے دیگر اداروں کا رویہ غاصبانہ و غیر جمہوری رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان بار کونسل کا بلوچستان کے بار باڈیز کے الیکشن نہ کرانے او رتاخیری حربوں کے حوالے سے یہ تصور وکلا برادری میں زور پکڑ رہا ہے کہ یہ سب غیر جمہوری اقدامات کسی کی منشا پر اور کسی کے خوائیشات پر آٹھائے جارھے ھیں۔ نیز پاکستان بار کونسل کا یہ دوہرا معیار اور یہ ناروا غیر جمہوری رویہ و پالیسی بلوچستان کے وکلا کے ساتھ کیوں رواہ رکھا جارہا ہے؟؟لہٰذا میں اپ جناب اور پاکستان بار کونسل کے تمام معزز ممبران سے یہ درخواست کرتا ھوں کہ خدا را بلوچستان کے لیے وھی رولز، رواج اور طریقہ و جمہوری رویہ اپنایا جائے، جو اپ جناب اور سید امجدشاہ صاحب خیبر پختون خواہ کے لیے اپنایا ھے بلوچستان کے لیے وھی رویہ اپنایا جائے جو ریاضت علی سحر صاحب اور دیگر ممبروں نے سندھ کی دھرتی کے لیے اپنایا ھے اپ جناب اور دیگر معزز ممبران وھی روش بلوچستان کے لیے اپنائے جو محترم اعظم نذیر تارڑ صاحب اور احسن بھون صاحب، و پنچاب کے دیگر معزز ممبران پاکستان بار کونسل نے تخت لاہور کے اپنایا ھے اور میرے اس پسماندہ صوبے کے لیے وھی پسند فرمایا کریں جو ھارون رشید صاحب اور پاشا صاحب نے اسلام اباد پینڈی کے لیے منتخب کیا ھے۔ آخر میں آپ سے یہ عرض کرتا ھوں کہ بلوچستان ھائی کورٹ بار، سبی ھائی کورٹ بار اور تربت ہائی بار کے الیکشن ایک ہی دن میں منعقد کرانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائے اور ھمارے صوبے کے اس اھم ایشو کے علاوہ لیگل ایجوکیشن کمیٹی میں چاکر یونیورسٹی سبی اور بیوٹم یونیورسٹی کوئٹہ میں لا فیکلٹی کھولنے کے لیے این او سی کے ایشو کو بار کونسل کے انے والے جنرل ھاوس کے اجلاس میں بطور ایجنڈا رکھ کر اس مسلہ کا مستقل حل نکالا جائے۔تاکہ بلوچستان کے وکلا بھی اپنے آپ کو اس اکائی کا حصہ گردان سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں