پاگل پن

انور ساجدی
یہ تو پہلے سے اندازہ تھا کہ کرونا دنیا اور باالخصوص پاکستان میں سیاسی معاشی اورمعاشرتی تبدیلیوں کاموجب بنے گا دنیا کے بیشتر ممالک میں اس وبا کو لیکر عوام حکومت اوراپوزیشن اپنے اختلافات بھلاکر متفق ہیں لیکن پاکستان واحد ملک ہے جہاں سیاسی اختلافات نہ صرف بڑھتے جارہے ہیں بلکہ محاذ آرائی اور تلخی کی جانب سے بڑھ رہے ہیں ملک کے تین صوبوں میں تو تحریک انصاف یااسکے اتحادیوں کوحکومت ہے صرف صوبہ سندھ میں الگ پارٹی کی حکومت قائم ہے کرونا کے آغاز پرسندھ کے وزیراعلیٰ نے بہت ہی عجلت اور چابکدستی سے لاک ڈاؤن سمیت دیگراقدامات کئے تھے وزیراعظم کی مخالفت کے باوجود پنجاب پشتونخوا اوربلوچستان میں انکی اپنی حکومتوں نے سندھ کی تقلید کی اس سے یہ تاثر ابھرا کہ سندھ حکومت بازی لے گئی ہے حالانکہ سندھ حکومت نے عوام کی امداد کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے تھے اسکے باوجود تحریک انصاف یاوفاقی حکومت کو اچھا نہیں لگا کہ سندھ حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہو چنانچہ حکومت نے احساس پروگرام کے تحت نقد امداد کی تقسیم شروع کردی اور اس طرح کردی کہ مظلوم خواتین کی لمبی قطاریں کہیں بھگڈر کہیں بدانتظامی اورسب سے بڑی بات یہ کہ 12ہزارکیش گن کرخواتین کے ہاتھوں میں رکھنا غربا کے مذاق اڑانے یاانکی تذلیل کرنے کے مترادف تھا لیکن جونہی امداد کی تقسیم شروع ہوئی مرکزی سرکار کی جانب میں جان آئی جس کے نتیجے میں اچانک دو وفاقی وزراء اور پارٹی کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کراچی میں نمودار ہوئے انہوں نے سندھ حکومت پرنااہلی اوربدعنوانی کے الزامات لگائے۔حالانکہ یہ الزامات سندھ حکومت کیلئے نئے نہیں تھے وفاقی وزیر فیصل واؤڈا جو کہ بوٹ والے واقعہ کے بعد سے روپوش تھے بہت ہی طمطراق سے نمودار ہوئے اور ایک دبنگ قسم کی پریس کانفرنس کی علی حیدر زیدی کہ جن پربعض مخالفین نے تفتان بارڈر کھولنے کاالزام لگایاتھا وہ کہاں خاموش رہنے والے تھے انہوں نے بھی الزامات کی بوچھاڑ کردی اور تو اور سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے لیڈر فردوس شمیم نقوی نے بھی تابڑ توڑ حملے کئے انہیں اعتراض تھا کہ کراچی کی جن یونین کونسلوں میں مکمل لاک ڈاؤن کا جوفیصلہ کیا گیا تھا انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا جبکہ یہ انکے حلقہ انتخاب میں آتے ہیں رات گئے ایک جوابی پریس کانفرنس میں سید ناصرحسین شاہ اور سعید غنی نے الزام لگایا کہ ملک میں کرونا وائرس پھیلانے کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس نے ایران اور افغان بارڈرز کھولے آنے والوں کی اسکریننگ نہیں کی اور آنے والوں کوقرنطینہ میں نہیں رکھا انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی کاوشیں وفاقی حکومت کوہضم نہیں ہورہی ہیں اس لئے عمران خان نے اپنے شیرو سندھ حکومت پرچھوڑدیئے ہیں یہ الفاظ غیرسیاسی اور زیادتی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ شیروعمران خان کاچہیتاکتاتھا جوجنرل مشرف نے انہیں تحفے میں دیا تھا بھلا اپنے سیاسی مخالفین کو ایک ناپسندیدہ نام دینا مناسب ہے؟سندھ حکومت کے وزراء کو چاہئے کہ وہ بدترین نامواقف حالات میں بھی اخلاقیات کادامن نہ چھوڑیں یہ تو سب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف ایک آتشین برانڈ پارٹی ہے اس میں فیصل واؤڈا،علی زیدی،علی امین،فیاض الحسن چوہان جیسے بے شمار لوگ ہیں جن کے منہ سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں اور ان کام ہے مخالفین پرالزام تراشی اور تندوتیز جملے کسنا تاکہ وہ اشتعال میں آئیں اول تو کرونا کو لیکر سیاست کرنا پوائنٹ اسکورنگ کرنا اور دشنام طرازی سے کام لینا درست نہیں ہے دوسرے یہ کہ سندھ حکومت تنہا ہے اور اسکے داخلی وخارجی مخالفین بہت زیادہ ہیں میڈیا بھی اسکے خلاف ہے جبکہ بیشتر ادارے بھی اسے پسند نہیں کرتے لہٰذا اسے پھونک پھونک کرقدم رکھنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ وہ خود کو محاذ آرائی سے دور رکھے ورنہ پوری سندھ حکومت کرونا کاشکار بن سکتی ہے اس حکومت کے خاتمہ یااسے کمزور کرنے کیلئے زیادہ نہیں ایک ہی عدالتی حکم کافی ہے کیونکہ غیرمعمولی حالات اور ایمرجنسی کی صورتحال میں کچھ بھی ہوسکتاہے۔
دوسری جانب موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں بھی وفاقی حکومت کااطمینان وزیراعظم کا ایک بارپھرعالمی اداروں سے قرضوں میں ریلیف دینے کی اپیل اور مزید امداد مانگنا،اس پر انہیں بے تحاشہ داد دینے کو جی چاہتا ہے ایسے حالات میں بھی سندھ حکومت پر حملہ ہونااور اسے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر گرانے کی کوشش واقعی یہ ایک غیرمعمولی بلکہ غیرمرئی حکومت کاکام ہوسکتا ہے۔
کرونا کاپہلا شکار تو غالباً صحت کے مشیر ڈاکٹرظفر مرزا ہونگے لیکن اگلا شکار اس سے بھی بڑا ہے اور وہ ہیں خزانہ کے مشیر عبدالحفیظ شیخ وزیراعظم نے چینی اسکینڈل کے ایک بڑے کردار خسروبختیار کوانعام کے طور پر اقتصادی امور کی جو وزارت دی اسکے لئے یہ محکمہ خزانہ سے الگ کردیا گیا ہے حفیظ شیخ تو پہلے سے راہ فرارتلاش کررہے تھے لگتا ہے کہ اب انہیں موقع مل گیا ہے انکے استعفیٰ کی خبر کسی وقت بھی آسکتی ہے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء کے ممالک میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال انتہائی خراب ہوگی اسکی وجہ ہے کہ یہ زیادہ آبادی والا دوسرا بڑا ملک ہے اسکے زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ اوورسیز پاکستانی عالمی کساد بازاری کی وجہ سے روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے برآمدات زیرو یابہت کم رہیں گی حتیٰ کہ پیشنگوئی ہے کہ1952ء کے بعد پہلی بار پاکستان کی اکانومی زیروکی سطح پر نیچے گرجائیگی۔اگرچین سعودی عرب اور امارات نے فوری قرضے واپس مانگ لئے تو دن میں تارے نظرآئیں گے جبکہ آئی ایم ایف کی اقساط بھی دینا پڑیں گی اتنی بڑی رقومات کاانتظام کہاں سے ہوگا وزیراعظم کوشش کررہے ہیں کہ سعودی عرب اور امارات مزید مہلت دیدیں جبکہ آئی ایم ایف سے بھی ریلیف کا مطالبہ کیاجارہا ہے اگلا سال بھی کرونا کی نذر ہوا تو پھر مجبوری میں ڈیفالٹ کرنا پڑے گا دنیا کے تبدیل شدہ حالات میں یہی بہترراستہ ہے جب تک عالمی صورتحال معمول پرنہیں آئے گی پاکستان کے معاشی حالات درست نہیں ہوسکیں گے جو بھی کرنا ہوگا اندرونی ذرائع اور وسائل کوبروئے کار لاکر ملک کو چلانا ہوگا لیکن اسکی راہ میں سندھ حکومت حائل ہے گزشتہ روز اپنے بیان میں وفاقی وزیرعلی زیدی نے دل کی بات کہہ دی انکے مطابق جب تک کراچی اور سندھ کے حالات ٹھیک نہیں ہونگے ملکی معیشت کوازسرنو استوار کرنا ممکن نہیں ہوگا اسکے لئے ضروری ہے کہ وفاق سندھ حکومت کوگرادے بظاہر18ویں ترمیم کی موجودگی میں کسی صوبائی حکومت کو گرانا ممکن نہیں لیکن فروغ نسیم ایسا نکتہ ڈھونڈ کرلاسکتے ہیں کہ کام آسان ہوجائے لیکن وفاق کو اس کا فائدہ نہیں نقصان ہوگا کیونکہ کرونا کے بحران کے بعد اسکی اپنی کارکردگی سوالیہ نشان ہے اس نے اب تک اس بحران کو جس طرح ہینڈل کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے اتنی تباہی کے باوجود وفاقی حکومت کے حکم پر زورلگاکر باہر سے لوگوں کو لانے کاسلسلہ جاری ہے یہی لوگ کرونا کے پھیلنے کاموجب بنے تھے اسکے علاوہ وفاق کے زیرانتظام صحت کی سہولتوں کا جوپول کھلا ہے وہ خود اس کی ناقص کارکردگی کا واضح ثبوت ہے کرونا کے بعد وزیراعظم کاالگ موقف اور خود انکی صوبائی حکومتوں کادوسرا موقف بھی نااہلی کے زمرے میں آتا ہے جس سے ظاہرہوتا ہے کہ وزیراعظم اس مسئلہ پر کوئی نیشنل ایکشن پلان نہیں بناسکے کرونا کی تباہی میں بھی انکی نظریں داخلی وعالمی امداد اور خیرات پر ہیں جبکہ خراب کارکردگی کی وجہ سے اوورسیز پاکستانیوں نے ہاتھ کھینچ لیا ہے دوست ممالک بھی مدد کرتے کرتے تنگ آگئے ہیں اب تو وہ خود کرونا کی گرفت میں ہیں اور اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی اور کی مدد کرسکیں نیشنل ایکشن پلان نہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے صورتحال کا ازخود نوٹس لیا اگروزیراعظم جلدی توجہ دیتے تو عدلیہ کوضرورت نہ پڑتی کہ وہ انتظامی معاملات میں مداخلت کرے یہ مداخلت خود وزیراعظم کیلئے سبکی کا باعث ہے حکومت نے پارلیمنٹ کو جس طرح بے توقیر کیا ہے سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے اور کہا ہے وہ قومی اسمبلی کااجلاس بلانے کا حکم تو نہیں دے سکتی لیکن حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے یہ جو پارلیمنٹ سے وزیراعظم کی بیزاری ہے آخر وہ بھی رنگ لائے گی کیونکہ وزیراعظم اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرسکے کہ ہنگامی حالت میں سب کو ساتھ لیکر چلاجائے وہ اپنی ذات کے سوا کسی کو درخوداعتنا نہیں سمجھتے اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا دانشمندانہ روش نہیں ہے یہ جو کرونا کی وجہ سے معیشت کی خرابی کا رونا رویا جارہاہے بقول مولانا فضل الرحمن معیشت تو اس سے پہلے ڈوب گئی تھی اب تو اچھا بہانہ مل گیا ہے گوکہ موجودہ وقت سیاسی اہداف حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن حکومت دعوت دے رہی ہے کہ اسکے خلاف ان حالات میں بھی سارے مخالفین یکجاہوجائیں اور مل کر حکومت کی ناکامیوں کیخلاف شورمچائیں یہ کرونا ایسے نہیں جائیگا بلکہ اپنے ساتھ بہت کچھ بہاکرلے جائیگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں