گرم لوہا

انور ساجدی
ایسے موقع پر جبکہ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم عمران خان کو دوبارہ ”ایماندار“ قرار دیا ہے لوہا بہت گرم ہے لہٰذا چیف صاحب اگر سندھ حکومت کو نااہلی پر ہٹا دیں یا وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو نالائقی پر برطرف کردیں تو کوئی کچھ نہیں کہے گا نہ ہی کرونا کی وباء کی وجہ سے سندھ میں کوئی احتجاج ہوگا بلکہ ہنسی خوشی سب لوگ فیصلے کو قبول کرلیں گے دبنگ چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے جب نواز شریف کے مطالبہ پر اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف کیا تھا تو کوئی ردعمل نہیں آیا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے جسے ہر قیمت پر قبول کرنا پڑتا ہے ایک اور چیف صاحب جسٹس ثاقب نثار نے وزیر اعظم نواز شریف کو بددیانتی اور خیانت کے الزام میں تاحیات نااہلی اور قید کی سزا سنائی تھی اس سے ملک میں کوئی قیامت نہیں آئی تھی بلکہ ن لیگ نے چند ریلیوں پر اکتفاکیا تھا اور بس سارے عوام نے اس فیصلے کو قبول کیا تھا عزت مآب ثاقب نثارنے جناب عمران خان کو صادق اور امین ہونے کا فیصلہ دیا تھا اس فیصلہ پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی جل بھن کر کباب ہوگئے تھے اس سرٹیفکیٹ پر سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور اسی کی وجہ سے عمران خان الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن گئے تھے۔کرونااز خود نوٹس کیس میں عالی جناب گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں جناب عمران خان کے صادق اور امین ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے تو یہ قرین انصاف فیصلہ ہے اس سے وزیراعظم کی اخلاقی اور سیاسی قوت میں اضافہ ہوگا اور وہ نئے پاکستان کی تشکیل اور عوام کو خوشحال بنانے کے اپنے ایجنڈے کو کامیابی سے مکمل کرسکیں گے۔
اگرچہ چیف جسٹس وفاقی حکومت کی کارکردگی پر برہم ہوئے تھے لیکن وفاقی سطح پر انہیں صرف مشیر صحت ظفر مرزا کی ناقص کارکردگی پر اعتراض تھا جبکہ سندھ حکومت کی نااہلی کے ساتھ خریدے جانے والے راشن میں گڑبڑ کا نوٹس بھی لیا گیا بلکہ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ہم ظفر مرزا کو عہدہ سے ہٹانے کا حکم جاری کریں گے جو ابھی تک جاری نہیں ہوا جبکہ سندھ حکومت کے بارے میں تحریری طور پر جواب طلب کیا گیا معاملہ یہاں تک تو ٹھیک تھالیکن تحریک انصاف کے وزراء نے بنجمن سسٹرز کی طرح یک آواز ہو کر چیف جسٹس کی آواز میں آواز ملائی یہ عمل درست نہیں تھا ابھی تک تو سیاسی بیان بازی چل رہی ہے ہوسکتا ہے کہ کل کلاں تحریک انصاف کے کراچی سے تعلق رکھنے والے نمائندے چیف جسٹس سے صاف مطالبہ کردیں کہ سندھ حکومت کو برطرف کیا جائے تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم نے شروع میں بہت زور لگایا تھا کہ کسی نہ کسی طرح سندھ حکومت کو برخاست کیا جائے لیکن بوجوہ ان کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوسکی تھیں کیونکہ اس وقت حالات موافق نہیں تھے جبکہ اس وقت کرونا کو لیکر سندھ حکومت آسان ہدف بن سکتی ہے اگر مراد علی شاہ کو ہٹادیا جائے تو پھرپیپلز پارٹی کیلئے نئی حکومت تشکیل دینا مشکل ہوگا حالانکہ جمہوری اور پارلیمانی روایات کے مطابق اگر ایک جماعت کا وزیراعلیٰ ہٹ جاتا ہے تو یہ اس کا استحقاق ہے کہ وہ اپنے کسی دوسرے رکن کو وزیر اعلیٰ مقرر کرے لیکن وفاقی حکومت کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ سندھ میں ایسا کرنے نہیں دے گی بلکہ کرونا از خود کیس کی آئندہ سماعتوں تک سیاسی لڑائی تیز تر کردی جائے گی اور کرپشن کے غضب ناک الزامات عائد کئے جائیں گے اس مقصد کیلئے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پہلے سے تیار بیٹھا ہے کوشش کی جائے گی کہ ایک مخلوط حکومت تشکیل دی جائے البتہ وزیر اعلیٰ کے منصب کو لیکر اتحادیوں میں پہلے رسہ کشی ہوگی لیکن بالآخر معاملہ طے ہوجائے گا اور قرعہ فال جی ڈی اے کے نام پر نکلے گا کیونکہ ابھی تک حالات نان سندھی وزیراعلیٰ لانے کیلئے سازگار نہیں ہیں عجیب بات ہے کہ کرونا کا جان لیوا مرض پھیلتا جارہا ہے لیکن وفاق کو سندھ فتح کرنے کی پڑی ہے اگر سندھ حکومت مل بھی جائے تو اس سے وفاق کو کیا حاصل ہوجائے گا کیونکہ اس سے کرونا تو کنٹرول نہیں ہوگا اور نہ ہی حکومت اس میں سنجیدہ ہے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 6 ہزار لوگ اس میں مبتلا ہیں جبکہ آزاد ذرائع بتارہے ہیں کہ یہ تعداد ہزاروں میں ہے اے آر وائی چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ مریضوں کی تعداد پانچ لاکھ تک ہے اصولاً مراد علی شاہ کو وزیراعظم سے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کرنی چاہئے تھی شروع میں جب وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی تھی تو سندھ کے وزیراعلیٰ کو ان کی بات مان لینی چاہئے تھی سید مراد علی شاہ نے اور ”اسمارٹ“ بن کر سندھ کو لاک ڈاؤن کردیا لیکن یہ لاک ڈاؤن کبھی مؤثر ثابت نہیں ہوسکا یعنی کاروبار بھی بند رہا اور لوگوں نے حکومت کی بات بھی نہیں مانی چونکہ وزیراعظم ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں جن کا ایمان ہے کہ موت کو کوئی نہیں ٹال سکتا کیونکہ اس کا وقت مقرر ہے لہٰذا کاروبار کو بند کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ احتیاط کی بجائے سب کچھ اللہ پرچھوڑ دینا چاہئے اگر چند ہزار پاکستانیوں کی موت کرونا سے لکھی ہے تو وہ ہوکر رہے گا دراصل وزیراعظم کو فکر تھی کہ لاکھوں لوگ بیماری کی بجائے بھوک سے مریں گے وزیراعظم کا سندھ حکومت پر غصہ اس لئے بھی بجا تھا کہ اس کی دیکھا دیکھی پنجاب و پشتونخوا اور بلوچستان حکومتیں بھی لاک ڈاؤن پر مجبور ہوئیں حالانکہ ان صوبوں میں وزیراعظم کی اپنی حکومت تھی لیکن وہاں کے وزرائے اعلیٰ بھی حکم عدولی کر بیٹھے ملک کے اندر جو چند علمائے کرام ہیں وہ بھی لاک ڈاؤن کے سخت مخالف ہیں بلکہ وہ مساجد کو بند کرکے اور مسلمانوں کو نمازوں کی ادائیگی سے محروم کردنے کے عمل کو خدائی احکامات کی خلاف ورزی سمجھ رہے ہیں علماء کے ساتھ کارخانہ دار سیٹھ اور تمام چھوٹے بڑے تاجر بھی لاک ڈاؤن کی مخالفت میں آگے آگے ہیں بلوچستان کے تاجروں نے تو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا اعلان کیا ہے اس صورتحال میں سندھ کے وزیر اعلیٰ کو ٹیلی فون کرکے وزیراعظم سے معافی طلب کرنا چاہئے اگر ہوسکے تو سید مراد علی شاہ بذات خود کرونا از خود نوٹس کیس میں پیش ہوکر اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگیں ورنہ انہیں ایک بڑی جنگ کیلئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ وفاقی حکومت کے تیور خطرناک ہیں منگل کو وفاقی وزیر علی زیدی نے جس طرح سندھ حکومت کو لتاڑااور دیہاڑی دار مزدوروں کا رونا رویا وہ اس بات کا عندیہ ہے کہ وفاقی حکومت اس لڑائی کو تیز کرنا چاہتی ہے اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ سندھ حکومت نے ابتک جو کچھ کیا تھا اس پر پانی پھر جائے گا دوسرا یہ کرونا کو لیکر وفاقی حکومت کی اپنی جو ناکامیاں ہیں وہ بھی چھپ جائیں گی اور لوگوں کی توجہ سیاسی لڑائی کی طرف مرکوز ہوجائے گی البتہ اگر ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹایا گیا تو وفاقی حکومت حقیقی طور پر مشکل میں ضرور آجائے گی تھوڑا بہت فنڈزکا نقصان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ڈاکٹر ظفر مرزا کو ڈبلیو ایچ او نے تحریک انصاف کی حکومت کو ادھار دیا ہے جس طرح کہ حفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا کو آئی ایم ایف نے ادھار دیا ہے ڈاکٹر مرزا بہت ہی ہائی کوالیفکیشن کے حامل ہیں انہوں نے یو کے سے شعبہ طب میں پوسٹ گریجویشن کی ہے اور کافی عرصہ سے ڈبلیو ایچ او کے تحت خدمات انجام دے رہے تھے کاش کے چیف صاحب سوال اٹھانے سے پہلے ان کی تعلیمی قابلیت کا خود جائزہ لیتے ہوسکتا ہے کہ آئندہ سماعت تک چیف صاحب کو رحم آجائے اور وہ ان کی برطرفی کا حکم صادر نہ فرمائیں یہ بھی پوچھنا ضروری تھا کہ صحت کا قلمدان کس کے پاس ہے جبکہ ڈاکٹر مرزا تو صرف معاون خصوصی تھے وفاقی وزیر علی زیدی نے یہ بھی کہا ہے کہ سندھ حکومت نے 18 ویں ترمیم کے بعد اسپتالوں کی حالت بہتر کیوں نہ کی کاش کہ کوئی ان سے پوچھتا کہ آپ کی حکومت نے دارالحکومت کے اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے کیا کیا ہے اور خود کے پی ٹی کے اسپتالوں کا کیا حال ہے جہاں کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز ایک ریڈ یائی اپیل میں اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اس نازک موقع پر زیادہ سے زیادہ چندہ دے کر حکومت کی مدد کریں اس کے جواب میں ایک اوورسیز معتبر جاوید ملک نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی یہ اپیل برمحل نہیں ہے کیونکہ اس وقت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی حالت پاکستانی عوام سے بھی بدتر ہے ہزاروں پاکستانی کرونا کا شکار ہیں اور وہ بیروزگار بھی ہوگئے ہیں لہٰذا ان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ چندے کی اپیل پر لبیک کہیں معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو کس مشیر نے ریڈیائی اپیل کا مشورہ دیا انہوں نے حالات کی نزاکت کا ادراک کئے بغیر اپیل کردی جس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوگا البتہ قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف اور آئی ایم ایف کی طرف سے ایک ارب چالیس کروڑڈالرکا نیا قرضہ غیبی امداد کی مانند ہے جبکہ عالمی اداروں اور مختلف ممالک نے مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر امداد کا پہلے سے ہی اعلان کررکھا ہے یہ معقول رقم ہے اور اس سے غریبوں کی امداد ہو نہ ہو ادائیگیوں کا توازن ٹھیک ہوجائے گا اگر لگے ہاتھوں سندھ کی حکومت بھی مل جائے تو گویا قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں