وزیر اعظم عمران توشہ خانہ کی تفصیل کیوں نہیں بتاتے؟

وزیر اعظم عمران خان کو غیر ملکی دوروں میں کتنے تحائف ملے؟ان میں سے کتنے توشہ خانہ میں جمع کرائے گئے؟ کتنے تحائف وزیر اعظم نے اپنی تنخواہ یا دیگر قانونی ذرائع آمدنی سے قیمت ادا کرکے خریدے؟خریدے گئے تحائف کی قیمت کتنی ادا کی گئی؟۔۔۔۔مارکیٹ پرائس؟اس سے کم؟اور اگر کم تو یہ قیمت مارکیٹ سے کتنی کم تھی؟ اس کی تفصیلات اسی روز ویب سائٹ پر آجانی چاہیئے تھیں جب یہ توشہ خانے میں جمع ہونے کی بجائے وزیر اعظم کی ملکیت بنا دی گئیں۔میڈیا پر اس بارے میں یہ سوال پوچھنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ عدالت میں اس بارے میں کسی شہری کو جانا ہی نہ پڑتا۔عمران خان کو ان کی ذاتی زندگی میں بے شمار تحائف ملے ہوں گے لیکن کسی نے ان کی تفصیلات نہیں مانگیں۔آج وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں، پاکستان ایک ریاست ہے، وزیر اعظم ریاست کاانتظامی سربراہ ہونے کی بناء پر عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ وزیر اعظم کی حیثیت میں وصول کردہ تحائف ان کی ملکیت نہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ انہیں یہ تحائف توشہ خانے میں جمع کرانے ہوتے ہیں۔ان تحائف کا باقاعدہ اندراج کیا جاتاہے۔اور اگر کوئی وزیر اعظم غیر ملک سربراہان کے دیئے گئے تحائف گھر لے جانا چاہے تومعمولی سی قیمت ادا کر کے مروجہ قانون کے تحت لے جاسکتا ہے۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ قانون سازی کون سے ادارے نے کی ہے؟جواب ہوگا:”پارلیمنٹ نے یہ قانون بنایا اور منظور کیا ہے“۔ضمنی سوال پوچھا جا سکتاہے:”اس قانون سازی کا فائدہ کسے پہنچا؟“، ”عوام کو؟ یا کسی ایم این اے کو؟“۔اس سوال کا جواب بہت آسان ہے:”صرف ایک ایم این اے کوفائدہ پہنچا، اس لئے کہ وزیر اعظم ایم این اے ہوتا ہے“۔ جبکہ پارلیمنٹ کسی رکن کو انفرادی حیثیت میں فائدہ پہنچانے کے لئے قانون سازی نہیں کر سکتی۔ متعددعدالتی فیصلے موجود ہیں،بطور نظیر دیکھے جا سکتے ہیں۔اگر ایسا کوئی قانون پارلیمنٹ نے منظور کیا گیا ہے تو یہ عمل عوامی مفاد کی بجائے ایک”ایم این اے“ کو فائدہ پہنچانے کی بناء پر قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس عوامی مفاد سے محروم اور صرف ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنایا گیا قانون فی الفور منسوخ کیا جانا چاہیئے۔ وزیر اعظم نے توشہ خانے کی تفصیلات عدلیہ سے چھپا کر اپنے سادہ لوح مشیروں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے اور اپنی نیک نامی بھی داؤ پر لگا دی ہے۔اگر انہیں یہ تحفہ اس لئے پسند ہے کسی ملک کے سربراہ کی نشانی کے طور پر اپنے پاس محفوظ کرنا چاہتے ہیں تب بھی توشہ خانہ اس قسم کے تحائف کے لئے محفوظ ترین جگہ ہے۔ رجسٹر میں تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں، کس وزیر اعظم کو کس سربراہِ مملکت نے؟ کب؟ اور کہاں یہ تحفہ دیا؟ سب جزئیات رجسٹر میں موجود ہوتی ہیں۔ہر وقت دیکھی جا سکتی ہیں۔سرکاری حیثیت میں وصول کئے جانے والے تحائف توشہ خانے سے گھر لے جانا کسی طورپسندیدہ فعل نہیں۔ چاہے کوئی بھی اس کا مرتکب ہو۔اسے عدالتِ عظمیٰ نے ایک یا ایک سے زائد مقدمات میں صادق اور امین کہا ہو۔ دنیابھر میں یہ اصول تسلیم کیا جاتا ہے کہ ذاتی مفاد میں بنائے گئے قانون کی کوئی قانی حیثیت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں بھی یہ اصول تسلیم شدہ ہے، عدالتی نظیر موجود ہے۔میڈیا اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانے کی تفصیلات کے حوالے سے ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔افسوس کا مقام ہے حکومت کے وکیل دوسری پیشی میں بھی مطلوبہ معلومات عدالت میں پیش نہیں کرسکے اور ایک بار پھر مہلت مانگی۔توشہ خانے سے تفصیلات حاصل کرنے میں سرکاری وکیل کو کون سی مشکل درپیش ہے؟اس میں رازداری کی کوئی وجہ نہیں۔تمام تحائف میڈیا کی موجودگی میں دیئے جاتے ہیں۔دو سابق وزراء توشہ خانے میں جمع کرانے کی بجائے تحائف اپنے گھر لے جانے کی پاداش میں زیر عتاب ہیں۔ایک وزیر اعظم ترکی کی خاتون اول کی جانب سے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے اپنے گلے کا ہار ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم کو اس مقصد کے لئے دیا،کہ وہ اسے سیلاب زدگان کی مدد کے فنڈ میں جمع کرا دیں۔واضح رہے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے اگر اس نیکلس کو نیلام کیا جاتا تو ایک بڑی رقم ملنے کا امکان تھا۔مگر نیلام نہیں کیا گیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ نیکلس وزیر اعظم کوپسند آگیاتھا، انہوں نے جیب میں ڈالا اور گھرروانہ ہوگئے۔فائل کاپیٹ بھرنے کے لئے تھوڑے بہت پیسے توشہ خانے کو ادا کر دیئے۔قانونی تقاضہ پورا ہوگیا۔ مگرسوچیں کیا اس ادائیگی کے ساتھ اخلاقی تقاضہ بھی پورا ہوگیا تھا؟یا اس فعل کے نتیجے میں اخلاقی اقدار کا جنازہ نکلا؟عام سوجھ بوجھ کا حامل شہری بھی کہے گا:”ترکی کی خاتونِ اول نے اپنا نیکلس مصیبت زدہ عوام کی مدد کے لئے دیاتھا،یہ نیکلس عوام کی امانت تھا، امانت میں خیانت کی گئی ہے“۔ایک ٹی وی ٹاک شو میں وزیر اعظم کے ایک اچھی شہرت کے حامل مشیر کی بے بسی اس وقت دیدنی تھی جب وہ وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف کو صیغہئ راز میں رکھنے کی یہ انوکھی دلیل دیتے سنے گئے کہ یہ معاملہ دو ملکوں کے درمیان حساس نوعیت کا معاملہ ہے،انکشاف سے دو ریاستوں کے باہمی تعلقات متأثر ہو سکتے ہیں۔یاد رہے یہی دلیل سابق حکومت کے نمائندے ٹی وی ٹاک شوز میں چین کی کاروباری کمپنیوں سے کئے گئے معاہدوں کے بارے میں دیا کرتے تھے اورپی ٹی آئی مسترد کر دیتی۔ کہا جاتا تھا کاروباری معاہدے کیسے خفیہ ہو سکتے ہیں؟سیاست کو اس دوغلے پن سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ویسے بھی توشہ خانہ میں پاکستان کے سربراہان کو دیئے گئے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا ء پر مشتمل تحائف جمع کئے جاتے ہیں، دفاعی اسلحہ یا ٹیکنالوجی سے متعلق اشیاء نہیں جمع کرتاکہ دو ملکوں کے راز افشاء ہونے کا اندیشہ ہو۔حکومت عدالت سے توشہ خانہ کے امور چھپانے کی غلطی نہ کرے اس سے نہ صرف حکومت کے بارے میں غلط فہمیاں جنم لیں گی بلکہ وزیر اعظم کی ساکھ کو بھی دھچکا لگے گا۔اپوزیشن کو گفتگو کے لئے ایک جاندار موضوع مل جائے گا۔اپوزیشن اس معاملے کو اپنی مرضی کے معنے پہنائے گی۔شفافیت کے دعووں پر حرف آئے گا۔حکومت نے پہلے ہی مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کا بھاری بوجھ اٹھا رکھا ہے۔پیٹرول میں قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے مہنگائی کا طوفان سر اٹھائے گا۔خواتین کہہ رہی ہیں پہلے اس تنخواہ میں کچن پورا مہینہ چل جاتا تھا، آج دو ہفتے بھی نہیں چلتا۔اور گھریلو خواتین کی شکایت وزن رکھتی ہے۔ماضی قریب میں ایک خاتون نے وزیر اعظم سے گھبرانے کی اجازت مانگی تھی اس کا پس منظر بھی بے قابو مہنگائی تھی۔ ایسے حالات میں توشہ خانہ کی فہرست عوام سے نہ چھپائی جائے۔ ویب سائٹ پر موجود ہونی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں