جام کمال عزت سے مستعفئ ہو ,دوران عدم اعتماد چیف سیکٹری حکومت کی کسی بھی حکم کی تعمیل نہیں کریں, نواب زہری

کوئٹہ : پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری،بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی قائم مقام صدر میر ظہوراحمدبلیدی نے کہاہے کہ وزارت اعلیٰ کامنصب کسی کاذاتی جائیداد نہیں کہ ساتھ لیکر جائیں،سیاست میں کل کادوست آج کا دشمن اور آج کا دوست کل کا دشمن ہوتاہے،تحریک عدم اعتماد کامعاملہ حل ہونے تک چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کوئی بھی حکم نہ مانیں بصورت دیگر تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوگی حکومت میں آئے تمام ٹرانسفر پوسٹنگ کی تحقیقات کی کمیشن بنائیں گے،بلوچستان روایات کی امین صوبہ ہے اقتدار سے چمٹے رہنا اب جام کمال صاحب کے شایان شان نہیں ہے جام کمال اپنے ساتھیوں کو خوش نہیں رکھ سکیں توپھر اپوزیشن کا کیاحال ہوگا،ووٹ کااستعمال آئینی حق ہے،خواتین ومرد ارکان اسمبلی کولاپتہ کرکے صوبے کی روایات کوپامال کیاگیاہے،جام کمال نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور وزارت اعلیٰ کو خیر آباد کہہ دیں بصورت دیگر25اکتوبر کو ہم نکال دیں گے۔ان خیالات کااظہار پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری،بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی قائم مقام صدر میر ظہوراحمدبلیدی نے اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پراسپیکر بلوچستان اسمبلی میرعبدالقدوس بزنجو،قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ، بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیراحمدشاہوانی،پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سیدا حسان شاہ،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نصراللہ زیرے،بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے جنرل سیکرٹری میراسد اللہ بلوچ، پاکستان تحریک انصاف کے میر نصیب اللہ مری سمیت دیگر حامی ارکان اسمبلی بھی موجود تھے۔نواب ثناء اللہ زہری نے کہاکہ کام کی وجہ سے اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کرسکا پیپلزپارٹی کی پالیسی ہے کہ وہ اپوزیشن کو سپورٹ کرے،ملک سکندرایڈووکیٹ ہمارے اپوزیشن لیڈر ہے،ہم پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں کہیں جانے والے نہیں پارٹی قیادت کے فیصلے پرعملدرآمد کیاجائے گاانہوں نے کہاکہ میرے بچوں کا کفن میلا نہیں ہوا تھالیکن اس کی پرواہ نہیں کی اور پارٹی فیصلے کے مطابق ڈھائی سال ڈاکٹرعبدالمالک کودے دئیے۔میرے آنے کے بعد کچھ اور لوگ بھی اس کاروان میں شامل ہونگے،اس وقت ہمارے ارکان کی تعداد40ہے جو پریس کانفرنس میں موجود ہے،جب میرے خلاف تحریک عدم اعتمادپیش ہوئی تومیں کسی کے پاس نہیں گیا میں عزت کے ساتھ آیا تھا اور عزت کے ساتھ چھوڑ کرگیا ہوں وزارت اعلیٰ کامنصب ذاتی جائیداد نہیں کہ ساتھ لیکر جاتا،5سال پورے ہونے کو تھے 5ماہ بعد ویسے بھی جاناتھا،جام کمال کو بھی جاناہے وہ جام آف لسبیلہ ہے باعزت طریقے سے جاناچاہیے تھا معاملہ اسمبلی پرچھوڑ دیتے جس کو لیڈر بناناہے بنا لیں یہاں تو جمہوریت میں اکثریت کا حق ہے،یہ جام کمال کے منصب کے شایان شان نہیں میں نے استعفیٰ دیا تو کیا مجھے کچھ ہوا کیا وزارت اعلیٰ جانے سے میرا عزت کم ہواہے،جام کمال ہمارے لئے قابل احترام ہے انہوں نے کہاکہ مجھے فون کیا تھا اورکہاتھاکہ وہ ملناچاہتے ہیں میں کہاکہ آئیں ملے بلوچستان ایک قبائلی صوبہ ہے،سیاست میں کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دشمن کل دوست ہونگے یہ سیاست میں ہوتارہتاہے،ہم روایات کے امین ہے اور ہمیشہ روایات کی پاسداری کی ہے،بحیثیت چیف آف جھالاوان جام کمال سے درخواست ہے کہ وہ روایات کی پاسداری کرے،انہوں نے کہاکہ جب تک تحریک عدم اعتماد کامعاملہ حل نہ ہوں چیف سیکرٹری جام کمال کے کسی بھی آرڈر پرعمل درآمد نہ کرے اب بھی ٹرانسفر پوسٹنگ جاری ہے۔اگر یہ معاملات نہ روکے گئے تو اس سے خون خرابے کا خدشہ ہے جس کی ذمہ داری چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس پر عائد ہوگی،یہ قانون ہے جب آپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوتا ہے تو پھر تمام معاملات روکنے پڑتے ہیں حتی کہ آپ اسمبلی بھی نہیں توڑ سکتے،میں جب وزیراعلیٰ تھا تو کوئی آرڈر نہیں کرایا 65کے ایوان میں اکثریت کیلئے 33ارکان کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ یہاں وہ جماعتیں موجود ہیں جن کی جڑیں بلوچستان کے ہر جگہ میں ہے،جمعیت علماء اسلام،پاکستان پیپلزپارٹی،بلوچستان عوامی پارٹی کی جڑیں عوام میں ہیں کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے جو ٹرانسفر پوسٹنگ ہوئے ہیں ان پر ہم کمیشن بنائیں گے،ہمارے روایات کو پامال کیاگیا ہمارے خواتین اور مرد ارکان کو اٹھا کرلے گئے جو بلوچستان کی تاریخ میں ایسا عمل نہیں ہواہے ہم بلوچستان میں روایات کے امین،منبہ اور پلر ہے کوئی ہمارے خواتین کواٹھا کر لے جائیں اور ہم خاموش ہوکر بیٹھے رہے، نواب ثناء اللہ زہری نے کہاکہ جب ہم حکومت کو گرا رہے ہیں تو ساتھیوں سے صلاح ومشورہ کرینگے ہماری کوشش ہوگی کہ ڈیڑھ سال میں جو لوگوں کو زخم ملے ہیں کوئی ایسا شخص آئے وہ یہ لوگوں اور عوام کے زخموں پر مرہم رکھے۔جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل وسینیٹرمولاناعبدالغفور حیدری نے کہاکہ آئین کی پاسداری،اس پرعملدرآمد بنیادی طورپر سب کے درمیان میثاق ہے جس کی بنیاد پر انتخابات ہوتی ہے یہاں کچھ چیزیں آئین کے دائرے سے باہر کچھ اندر ہوتی ہے،جس دن 33ارکان نے مخالفت کی اس دن جام کمال حق حکمرانی کھوبیٹھے تھے لیکن شاید جام کمال غلط فہمی کے شکار تھے انہوں نے کوشش کی ممبران کو ہائی جیک کیاگیا پریشرائز کیاگیا اور آئندہ انتخابات میں ہرانے کی بات کی گئی انہوں نے کہاکہ ارکان نے ضمیر کافیصلہ کیااوردباؤ کوقبول نہیں کیا اور مشکل حالات میں ثابت قدمی کامظاہرہ کیا انہوں نے کہاکہ اگر پیسے کام نہ دے تو پھر دباؤ،ہتھکڑیاں پہنانا باعث افسوس ہے ساتھ نہ دینے پر معمولی کیسز درج کئے گئے بلوچستان روایتی صوبہ ہے ماضی میں اس طرح نہیں ہوالیکن انتہائی شرمناک بات ہے کہ خواتین کو لاپتہ کرکے ایسے حربے استعمال کئے گئے جام کمال نے اپوزیشن کو فنڈز سے محروم رکھا پارلیمنٹ کاتقدس پامال کیاگیا ممبران پر بکتربند گاڑیاں چڑھائی گئی ہمارے مرد وخواتین ممبران زخمی ہوئے حکومت کاکام اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلیں اپوزیشن کاکام حکومت کو گرانا ہوتاہے جام کمال کے والد صاحب کے ساتھ اچھے روابط تھے لیکن تین سالوں جب جام کمال اپنے ساتھیوں کومطمئن نہیں کرسکے تو پھر اپوزیشن کا کیا حال ہوگایہ وجوہات ہے جن کی وجہ سے ان کے ساتھیوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کیا اور ہمارے دوستوں نے ان کاساتھ دیا۔جام کمال باعزت طریقے سے استعفیٰ دیں تاکہ بحران خوش اسلوبی سے ختم ہوں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئندہ کا لائحہ عمل مل بیٹھ کر مشاورت سے طے کرینگے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر وپارلیمانی لیڈر میر ظہوراحمدبلیدی نے کہاکہ آصف علی زرداری کے شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمارے تحریک میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے،تحریک عدم اعتماد میں ہمارے ارکان کی تعداد 40تک پہنچ گئی ہے۔20تاریخ کو اسمبلی اجلاس کے بعد ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ہمارے خواتین ارکان،سید احسان شاہ اور اکبرآسکانی کو حبس بے جا میں رکھاگیا۔انہوں نے کہاکہ جو شخص کرسی پربیٹھاہے اس نے نوشتہ دیوار نہیں پڑھا جن ارکان نے عدم اعتماد کااظہار کیااور جام کمال کوکہاکہ آپ اخلاقی شکست کھاچکے آپ استعفیٰ دیں،ہمارے ساتھ بی این پی(عوامی) کے 2،پی ٹی آئی کے ایک،بی اے پی کے 13،پیپلزپارٹی کے ایک،جمعیت علماء اسلام کے 11اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 9اور پشتونخوامیپ کے ارکان کے ساتھ سید احسان شاہ کو ملا کر 40ارکان بنتے ہیں ہمیں قوی امید ہے کہ ہماری تعداد میں مزید اضافہ ہوگا اس تحریک سے تقویت ملی ہے۔جام کمال کو ا ب بھی 2دن ہے وہ نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور ایوان اقتدار کو خیرآباد کہہ دے۔پیپلزپارٹی کے رہنماء جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ نے کہاکہ 5سال کیلئے حکومت بنی تھی لیکن تین دن پہلے 33ارکان نے اسمبلی میں کہاکہ جام صاحب آپ پر اعتماد نہیں ہے جس کے بعد ووٹنگ کیلئے تاریخ کااعلان کیاگیاہے،جام کمال کا 3سالہ کارکردگی 33ارکان پرمنتج ہواہے کل کا دن گزر گیاتو یہ 40سے45تک پہنچ جائے گاجام کمال سے اب درخواست نہیں اب تو لازم ہے کہ جام کمال اعتماد کھوچکے وہ اپنی عزت بچانے اور مفاد کی خاطر مستعفیٰ ہوجائیں اگر کل کو 50لوگ ان کے خلاف ہوں تو ان کی بہت بے عزتی ہوگی،آج 3بیٹیوں اور2بھائیوں نے بہادری کی جو مثال قائم کی ہے وہ ایک تاریخ ہے جام کمال استعفیٰ نہیں دیتے تو آپ ڈٹے رہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے معاملات کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے پارٹی قیادت کے حکم پرآپ سے ملاقات کروں اور یکجہتی کااظہار کروں پیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہے آصف علی زرداری یہاں کے ارکان کے ساتھ ہے مکمل تعاون حاصل رہے گا۔لوگ خود آپ کے پاس آئیں گے،جام کمال نے بے وقار پارٹی بنائی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ارکان ہے لیکن پتہ نہیں چل رہاہے کہ کوئی اسمبلی میں موجود ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں