القادر یونیورسٹی کا افتتاح

وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز جہلم میں ”القادر یونیورسٹی“کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد کا بھی مختصر ذکر کیا۔انہوں نے کہا کسی یونیورسٹی کا بنیادی کام ریسرچ ہوتا ہے۔یہاں دین اسلام پر ہر حوالے سے ریسرچ کی جائے گی۔قرآن میں اس حوالے سے رہنما ہدایات موجود ہیں۔انہوں نے کہا:سائنس کا اسلام سے کوئی تصادم نہیں، اسلام(قرآن) سائنس کو ایمان کی بنیاد قرار دیتا ہے۔(سورۃ آلِ عمران آیت190،191)۔محمد ﷺ نے ریاست مدینہ کی بنیاد ایک قرآنی حکم پر رکھی: امر بالمعروف وتنھٰی عن المنکر؛ نیک کاموں کا حکم دو اور ممنوعہ کاموں سے روکو!اور اس اصول پر عمل کرنے کے نتیجے میں عرب قوم نے اس وقت کی دو بڑی سلطنتوں (Empires)روم اور ایران کو شکست کی۔ملائیشیاء اور انڈونیشیاء نے ان ریاست مدینہ والوں کے کردار (عدل اور اخوت)سے متأثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ قرآن اجتہاد(تفکر،تعقل اور تدبر القرآن) کا حکم دیتا ہے، مگر پاکستان میں ڈائیلاگ کے دوران ایک دوسرے کو کافر کہا جاتا ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا:”دین میں کوئی جبر نہیں“۔اسے مغرب سیکولرازم کہتا ہے۔دنیا کو سیرت النَّبی ﷺ، اسوۃئ حسنہ اور قرآن کی تعلیمات کے بارے میں آگہی دلانا القادر یونیورسٹی کے اسکالرز پر فرض ہوگا۔ادیان کے درمیان مکالمہ کو فروغ دینے کے لئے وہ سب کچھ کیا جائے گا، جس کی ضرورت ہوگی۔ القادر یونیورسٹی کو جامعۃ الازہرجیسی معیاری یونیورسٹی بنانا ہے۔سیرت النَّبی ﷺ اتھارٹی بھی سیرت النّبیؐ کے تمام پہلو اجاگر کرے گی جو نوجوانوں میں نیک اور بد کی تمیز پیدا کریں گی۔اعلیٰ کردار اپنے بغیر کوئی لیڈر نہیں بن سکتا۔آج مغرب میں خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔چرچ کمزور ہو رہا ہے۔روحانیت اپنی طاقت کھو رہی ہے۔جبکہ انسان روحانیت کے بغیر مطمئن زندگی بسر نہیں کرسکتا۔روح کو سکو ن سیرت النَّبی ﷺ کی اتباع میں ملتا ہے۔ برصغیر میں اسلام بزرگانِ دین نے اپنے اخلاق اور کردار کے ذریعے پھیلایا۔آج واٹس ایپ کی شکل میں بنی نوع انسان کو ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے، ہمار فرض ہے نوجوانوں کو اس کی اچھائیاں اور خامیاں بتائیں۔خامیوں سے بچنے کی تلقین کریں۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں پاکستان کی معاشی بدحالی کی وجہ یہ بتائی کہ معاشرے میں اعلیٰ اقدار سے انحراف کیاجا رہا ہے،جس کانفرنس میں چیف جسٹس کو خطاب کی دعوت دی جاتی ہے اسی میں عدالت سے کرپشن کے الزام میں سزا یافتہ اور بیماری کا جھوٹا بہانہ کرکے بیرون ملک بھاگنے والے مجرم کو چیف جسٹس کے بعد تقریر کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔مہذب ممالک میں مجرم کی حمایت نہیں کی جاتی،اسے سزا دی جاتی ہے۔۔۔۔۔وزیر اعظم کا تجزیہ اپنی جگہ دادو تحسین کا مستحق ہوگا مگر عدل و انصاف کی فراہمی میں جس عدلیہ کا درجہ دنیا میں 126نمبر ہے، اس کی کارکردگی کے بارے میں انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا۔اسی ہفتے اسلام آباد کے ایک سول جج کو نوکری دلانے کے بہانے ایک خاتون سے بھاری رشوت وصول کرنے کے علاوہ اس سے جنسی زیادتی جیسے قبیح الزامات میں ملوث ہونے پر جیل بھیجاگیا ہے۔پنجاب میں ہی توہین عدالت کے جرم میں تین ماہ کی سزا سنا کرایک ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو عدالت کے حکم پر پولیس نے اپنی تحویل میں لے کر گجرات جیل کی بجائے کسی اور مقام پر ٹھہرایا ہے۔واضح رہے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر بھی بلحاظ عہدہ عدالت کا حصہ ہیں۔ریونیو جیسے محکمہ کی دیکھ بھال بھی مذکورہ افسران کے سپرد کی جاتی ہے۔ جس عدلیہ کے بعض فیصلے بطور نظیر عدالتوں میں پیش کرنے کی ممانعت ہو، وہاں حتمی فیصلہ آنے سے پہلے ملزم کو مجرم کہنا بھی انصاف کی روایات کے منافی ہے۔اس قانونی حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جس دن ملزم عدالت میں پیش ہوجائے اسی روز اس کے تمام شہری حقوق بحال ہوجاتے ہیں۔ ایسی قانونی فضاء میں اگر ایک کانفرنس کے منتظمین نے ایسے ہی ایک ملزم کو خاب کی دعوت دے دی تو اسے درست تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے تھا۔اگر منتظمین نے دوسری رائے کا احترام کیا تو انہیں مطعون نہیں کیاجا سکتا۔مذکورہ قانونی سقم کودور کئے بغیر دوسری رائے کااسترداد درست نہیں۔رائج الوقت قانون ملزم اور مجرم کے اسٹیٹس میں فرق کرتاہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے، پارلیمنٹ کو استحقاق حاصل ہے قانونی سقم دور کر سکتی ہے، اور دانشمندی کا تقاضہ ہے پارلیمنٹ اپنی بصیرت کی روشنی میں زیر بحث قانونی سقم /ابہام /قانون کے دوغلے پن کو دور کرے تاکہ آئندہ ایسے مناظر کا اعادہ نہ ہو۔جب تک تمام ادارے مثالی کردار کا عملی مظاہرہ نہیں کرتے اس وقت تک معاشرہ خرابیوں کے حصار میں رہے گا۔وزیر اعظم کو اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیئے کہ اسی ملزم نما مجرم کے نمائندے اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے لئے جب چاہتے ہیں، ایسے مقامات پر کیسے چلے جاتے ہیں؟ جہاں کوئی چڑیا پر نہیں مارسکتی۔ اور ان نمائندوں کو بھیجنے والے ”ملزمان“ اقتدار میں آنے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ماضی میں تین بار معتوب ہونے کا باوجود انہیں اقتدار سونپا جا چکا ہے۔یہ خدشات تاحال معدوم نہیں ہوئے کہ مذاکرات کے بعد انہیں پورے پروٹو کول کے ساتھ چوتھی بار بھی پھول پہنائے جا سکتے ہیں۔سب سے پہلے اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ آئندہ قانون کو مصلحتوں کی قربان گاہ پر بھینٹ نہیں چڑھایا جائے گا۔آئندہ کو ئی چیف جسٹس کسی آرمی چیف کو تین سال تک آئین میں ترمیم کا غیر آئینی اختیار نہیں دے گا۔آئندہ کوئی غیر مجاز شخص پی سی او نافذ نہیں کرے گا، پی سی او کے تحت دوبارہ حلف برداری کا حکم نہیں دے گا۔پورا معاشرہ اخلاقی اور قانونی پسماندگی کی زد میں ہے،صرف زبانی نشاندہی سے کچھ نہیں ہوگا، مکمل تطہیر کی ضرورت ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے ایک باوقار معاہدہئ عمرانی درکار ہے۔تمام ادارے عوام کویقین دلائیں اپنی آئینی اور قانونی حدود عبور نہیں کریں گے۔پارلیمنٹ کا کوئی رکن رات کی تاریکی میں برقع پہن کر یا ملاقات کے مقام سے دور اپنی کار سے اتر کر،تنہا،گنجان آباد گلیوں سے پیدل چلتے ہوئے غیر مجاز افسران سے التجائیں نہیں کرے گا۔ نہ ہی کوئی افسر انہیں ایسی غیر آئینی اور غیر قانونی ملاقاتوں کے لئے بلائے گا۔ کوئی مقدس گائے نہیں سمجھا جائے گا۔22کروڑ عوام کو جس روز تمام اداروں نے مطلوب یقین دہانی کرا دی،اسی روز ملک میں آئین اور قانون کی عملداری کا آغاز ہوجائے گا!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں