مسائل پہلے بھی تھے مگر کورونا کا بہانہ نہیں تھا

عوام سے زیادہ کوئی اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتا کہ مسائل ہمیشہ تھے، ماضی کی تمام حکومتوں کے خلاف مہنگائی بڑھانے الزام عائد کیا گیا۔خواجہ ناظم الدین کے خلاف مغربی پاکستان کا آٹا کھانے کا نعرہ لگایا گیا گیا۔کراچی کے میئر عبدالستار افغانی کے حوالے سے کہا گیا:”سارے شہر کا پانی‘ پی گیا افغانی“۔ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔پی پی پی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں ہر دو سال بعد چوری کے الزامات سنا کر ختم کی جاتی رہیں اور دو ڈھائی سال بعد انہی چوری کے الزام میں برطرف کی گئی کابینہ کے ارکان کو حکومت سنبھالنے کی دعوت دی جاتی تھی۔اور وہی پرانے صدر نئی کابینہ سے حلف اٹھواتے تھے۔یہ عجیب و غریب عمل 5بار دہرایا گیا۔(3بار مسلم لیگ نون اور 2بار پی پی پی کی قیادت) یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون اور پی پی پی دونوں کو یقین ہے کہ جلد ہی حکومتیں برطرف اور بحال کرنے والوں کو اپنی ”غلطی“ کا احساس ہو جائے گا، اور کسی روز عوام اپنی مسائل زدہ آنکھوں سے دیکھ لیں گے، نکالی گئی کابینہ حلف برداری کی تقریب کے بعد جھنڈے والی گاڑیوں میں سفر کرنا شروع کردے گی۔لندن میں سابق وزیر اعظم نوازشریف اپنے اہل خانہ کے ساتھ کسی ہوٹل میں چائے پیتے نظر آجائیں تو پاکستان میں موجود لیگی قیادت تمام چینلز پر اعلان کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے کہ لندن کے اس مخصوص ہوٹل میں چائے پینے کے معنے یہ ہیں کہ مسلم لیگ نون کے تا حیات قائدمیاں محمد نواز شریف نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اس کے علاوہ آرمی چیف کی تبدیلی کے دن جیسے جیسے قریب آتے ہیں، لیگی قیادت عوام کو یقین دلانا اپنی سیاسی حکمت عملی کا لازمی حصہ سمجھ کرصبح، دوپہر اور شام دہرانا اپنا فرض سمجھتی ہے، باقی اوقات میں تمام ٹی وی چینلز ان فرمودات کے اقتباسات چلا اور دکھا کرمستقبل کی سیاست میں رونما ہونے والی دوررس تبدیلوں کی پیش گوئی اپنا فرضی منصبی سمجھ لیتے ہیں۔اور اس پر انہیں عبور حاصل ہے۔کتنے لوگ اس قسم کے مباحثوں کو پسند یا ناپسند کرتے ہیں، اس سے انہیں غرض نہیں۔انہیں دو چار دن کے لئے موضوع مل جائے یہی کافی ہے۔ سوشل میڈیا بھی طوطا فال نکالنے لگے ہوئے ہیں۔سنجیدہ مسائل کی جانب بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ تجزیہ کرنے سے پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کی جا تی ہے کہ کوئی خاص کارنر بلا وجہ ناراض نہ ہو جائے۔ایسے ماحول میں اگر سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجرکو جس بہیمانہ انداز میں قتل کرنے کے بعد لاش کو نذر آتش کیا گیا اس کی مذمت کرنے کی بجائے پی ڈی ایم کے سربراہ نے اس رویئے کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ ماضی میں کسی ملزم کو بیرون ملک بھیجا گیا تھا۔نہ بھیجا جاتا تو یہ ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوتا۔ممکنہے موصوفکے پاس اپنی رائے کے حق میں معقول دلیل موجود ہو، مگر عام آدمی حیران ہے کہ اس ملزم کا سری لنکن فیکٹری منیجر سے کوئی ربط اور تعلق کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ویسے بھی اس معاملے کی ہر زاویئے سے تحقیق جاری ہے۔مرکزی ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں، اس کے موبائل فون رابطے تحقیقاتی ٹیموں نے حاصل کر لئے ہیں،تمام شواہد سامنے آچکے ہیں۔یہ ففتھ جنریشن کا دور ہے، دنیا گلوبل ویلج میں تبدیل ہوگئی ہے۔افغان سفیر کی صاحبزادی اپنی تمام تر فنی مہارت اور چابک دستی کے باوجود کسی تیسرے ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی تھی۔جھوٹے اور فرضی قصے سنا کر دنیا کو گمراہ کرنے کا دور نہیں رہا۔عرصہ ہوا گزر چکا۔کمپیوٹر سائنس میں جرمنی سے لی گئی تعلیمی سند بھی جھوٹ چھپانے میں مدد نہیں دیتی۔سی ٹی وی کیمرے اور واٹس ایپ پر بنائی گئی ویڈیوز پورا کچا چھٹا بیان کر دیتی ہیں۔گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس ایک دو روز میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنا تحریر جواب جمع کرا دیں گے۔جنگ / جیو گروپ اپنی جواب پہلے ہی جمع کراچکا ہے۔لندن کے نوٹری پبلک یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کی عدالتوں میں اپنا بیان دینے کے لئے راضی ہیں۔انہوں نے (لندن کے تصدیق چکرنے والے نوٹری پبلک نے)یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستان کے اخبارات میں چھپنے والا بیانِ حلفی (سابق جسٹس) رانا محمد شمیم کا ہے۔واضح رہے جدیدٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار ماحول میں سری سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کو جلد بازی سے گریز کرنا چاہیئے۔سری لنکن شہری کا پاکستان میں بہیمانہ قتل انتہائی سنجیدہ اور حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔دو طرفہ تعلقات کے علاوہ عالمی برادری بھی اس کا نوٹس لے سکتی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے بعض اقدامات کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔بین المذاہب تناؤ بڑھسکتا ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان کے عوام کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ سردی کے موسم میں بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں،ادویات کے علاوہ گرم لباس اور لحاف وغیرہ کی ضرورت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔عالمی برادار افغان طالبان کی ماضی کی شدت پسند پالیسی کے تناظر میں افغان حکومت سے پیشگی عمل کئے بغیر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔کوئی ملک تنہا زندہ نہیں رہ سکتا۔سب مل کر ایک برادری کی طرح رہتے ہیں۔بادشاہت ہونے کے باوجودسعودی حکومت نے اپنے ملک کی معاشی ترقی کے لئے کافی حد تک اپنی مذہبی سمت قرآن کے تابع کر لی ہے۔توقع ہے کہ اسی طرح پاکستان کے علماء بھی جلد یا بدیر اپنی فکری اصلاح کر لیں گے۔عالمی بین المذاب تناؤ میں خاطر خواہ کمی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔خطے میں رونماہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر ایران اور سعودی عرب بھی ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔چین اس خطے میں ہرقسم کی پراکسی وار کا خاتمہ
چاہے گا۔سی پیک اور ”ون بیلٹ ون روڈ“ جیسے منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل کیلئے پراکسی وار کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا۔ وہ تائیوان پر اپنی ملکیت کا صرف دعویٰ نہیں کر رہا،اسے چین میں شامل کرنے کی ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔دن بدن اس کا لہجہ سخت ہونے لگا ہے۔اس کے تیور دیکھ کر اندازہ لگایا جانا چاہیے کہ اگر امریکہ نے چین کی سرحدوں پر عجلت میں کوئی عسکری قدم اٹھا لیا تو اسے عراق پر حملے جیسا معاملہ نہ سمجھا جائے۔چین کو خلیجی ریاست جیسا ملک سمجھنا امریکی مقتدرہ کو مہنگی پڑے گی۔آج دنیا1945کے مقام پر نہیں کھڑی، دنیا نے 2021تک کا طویل اور دشوار گذار فاصلہ طے کیا ہے۔چین سپر سانک اسلحہ سازی میں تجربات کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا کامیابی سے مظاہرہ کر رہا ہے۔اس نے عوام کی غذائی ضروریات کے حوالے سے تیاری کر رکھی ہے۔جب زمینی حقائق تبدیل ہو جائیں تو ان سے انکار آسان ہوتا۔ دنیا کا منظر ماضی جیسا نہیں رہا۔پاکستان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ہمیشہ سے مسائل زدہ رہا ہے،مگر یہ حقیقت فراموش نہ کی جائے کہ پہلی حکومتوں کے پاس کورونا جیسی عالمی وبا کا بہانہ نہیں تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں