قومی نسل کشی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے،بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو زبردستی سیاست سے دستبردار کرکے انھیں دانستہ طور پر اشتعال دلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ واضح طور پر اظہار کیا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور کسی بھی طرح جبر و تشدد سے کوئی حتمی حل کا حصول ممکن نہیں لیکن مقتدر قوتیں سیاسی روکاوٹیں کھڑی کرکے بلوچستان میں سیاسی قوتوں کو گراونڈ سے ہٹانے کی تسلسل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
 ترجمان نے کہا کہ مکران اور خاران میں کچھ دن قبل تنظیم کے ممبران کی جانب سے جھنڈے لگائے گئے تھے لیکن رات کے اندھیرے میں تنظیم کے جھنڈے اتارے گئے ہیں جس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حکمران بلوچ طلباء کو سیاست سے دور رکھنے والے ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے بلوچ قومی اقدار، سیاست اور شناخت کو مٹانے سمیت وسائل کی لوٹ مار اور جبری گمشدگیوں و دیگر استحصالی اقدامات کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بلوچ قوم مختلف ادوار میں غاصب قوتوں سے نبرد آزما رہی ہے اور کسی صورت قومی استحصال پر خاموش نہیں ہوی ہے اور نہ ہی موجودہ بلوچ دشمنی پر اپنے ہونٹ سی لیں گے بلکہ مذید طاقت اور توانائی کے ساتھ قومی نسل کشی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ موجودہ سیاسی قدغنیں ہمارے لئے نئی نہیں ہیں اس سے پہلے سیاسی لیڈران کی جبری گمشدگی، قتل و غارت سمیت مختلف طرح کے مصائب سے گزرے ہیں لیکن قومی سوال پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کوئی یہ آس لگائے بیٹھے کہ موجودہ سیاسی قیادت بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار سمیت قومی نسل کشی پر خاموش ہوگی۔
ترجمان نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے طلباء جبری گمشدگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ گذشتہ سال نومبر کے اوائل میں بلوچستان یونیورسٹی سے دو طالب علم جبری جبری گمشدگی کا شکار ہوئے جس کے خلاف بلوچستان کی طلباء تنظیموں نے یونیورسٹی کے اندر ایک طویل دھرنا دیا اور بعد میں حکومتی جھوٹی یقین دہانی کے بعد طلباء نے اپنا احتجاج موخر کردیا لیکن تاحال طلباء کی بازیابی کیلئے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آرہا جوکہ انتہائی تشویش ناک عمل ہے۔
ترجمان نے آخر میں کہا کہ بی ایس او ایک پرامن طلبا تنظیم کی حیثیت سے یہ واضح کرتی ہے کہ بلوچ طلباء کے ساتھ روا رکھے جانے والے کسی بھی طرح کے ظلم پر خاموش نہیں ہوں گے اور جہاں بھی طلباء کے ساتھ کوئی ناانصافی نظر آتی ہے تو اس کی حوصلہ شکنی کرکے پرامن احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں