یوم مئی عوامی مسائل حل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے

اداریہ
امسال یوم مئی دنیا بھر میں ایسے حالات میں آیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں محصور ہیں لاک ڈاؤن کے پہرے ہیں۔دنیا بھر کے محنت کش یوم مئی اس عظیم جدوجہد کی یاد میں مناتے جو شکاگو(امریکا) کے صنعتی مزدوروں نے 1886میں۔اوقاتِ کار 8گھنٹے کا مطالبہ منوانے کے لئے کی تھی۔آج دنیا بھر کے محنت کش ان بہادر مزدور رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا:
”تم ہمیں مار سکتے ہو مگر ہماری آواز کو نہیں دبا سکتے“
مزدوروں کا سرخ جھنڈا بھی یوم مئی کی یاد کا حصہ ہے سرمایہ داروں کی حمایت میں شکاگو کی پولیس نے نہتے مزدوروں پر گولیاں برسائیں تو مزدوروں نے اپنے خون سے تر قمیضوں کو اپنا پرچم بنا لیا تھا۔ پاکستان میں پہلی بار یوم مئی پورے جوش و جذبے سے 1972میں منایا گیا جب موجودہ پاکستان کے پہلے اور آخری سوئلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹراور صدر پاکستان کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف تعطیل کا اعلان کیا بلکہ سرکاری سطح پر منانے کا حکم بھی دیا۔تمام اخبارات میں خصوصی ضمیمے شائع کئے گئے اور پاکستان کے محنت کشوں عالمی مزدور برادری کے ساتھ مل کر یوم مئی 1886کے شہداء کو سرخ سلام پیش کیا۔
پاکستان کے حکمرانوں نے اپنی کم علمی یا دیگر وجوہ کی بناء پر پاکستان کے محنت کشوں کو ہنر مند بنانے کی منصوبہ بندی نہیں کی ورنہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے خاندان اورپاکستان کے لئے زیادہ زر مبادلہ کما تے اور ملک آج غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے محفوظ ہوتا12ارب ڈالر قرضوں کی قسط اور سودکی ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف کے دربار میں کشکول لئے کھڑا نہ ہوتااورچند ارب ڈالر قرض دے کر ایک برادر اسلامی ملک ہمارے وزیر اعظم کو ملائیشیا جانے سے نہ روک سکتا۔جس ملک کے حکمران اپنے محنت کشوں سے دشمنی کی حد تک خائف ہوں مزدور مخالف قانون سازی اور سرمایہ داروں کی خوشنودی کو اپنی سیاسی معراج سمجھتے ہوں وہا ں وہی کچھ ہوتا ہے جو پاکستان میں ہوا۔بے خبری کی انتہاء ہے کہ دیہاڑی دار مزدوروں کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں، کوروناوائرس جیسی وباء نہ آتی اور لاک ڈاؤن نہ کرنا پڑتا تو نہ جانے کب تک ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو اس کوتاہی اور خامی کا علم ہی نہ ہوتا۔ کورونا کی وجہ سے موجودہ حکمرانوں کو قرض اور سود کی ادائیگی میں ایک سال کی جو رعایت ملی ہے اسے اگر دانشمندی سے اپنی معاشی مشکلات میں کمی لانے کے لئے استعمال کیاجائے تو پاکستان آج بھی یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اپنے قیمتی قدرتی وسائل اور جفاکش افرادی قوت کے ذریعے غیر ملکی قرضوں سے نجات اور عالمی برادی میں باعزت مقام حاصل کرسکتا ہے۔ حکمرانوں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیئے کہ مقروض ملک اور اس کے حکمرانوں کی دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا۔ امریکی صدر کے پہلو میں کھڑے ہوکر جیب سے پرچیاں نکالنے کی مجبوری لاحق ہوتی ہے، چہرے پر خوف کے آثار اورلہجے کی کپکپاہٹ چھپائے نہیں چھپتی۔ اگرحکمران اپنی ذلت اور رسوائی سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں قرضوں والی معیشت سے چھٹکارا پانا ہوگا۔انہیں دیکھنا اور سوچنا ہوگا کہ ہم سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ملکوں کی معیشت کیوں ہم سے بہتر ہے؟حتیٰ کہ ہم سے الگ ہونے والا بنگلہ دیش ہم سے کئی لحاظ سے بہتر ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان کا سرِ فہرست مسئلہ آئین کی بے توقیری اور بے حرمتی ہے۔اس حوالے سے ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو کھلے دل سے اس خوف کا ازالہ کرنا ہوگاکہ جی ایچ کیو کے ایک مخصوص گیٹ سے رات کی تاریکی میں ملاقاتوں کے بعد کوئی بھی غیر آئینی اقدام کیا جا سکتا ہے اور آئندہ اس روایت کو ملک سے غداری قرار دیا جانا چاہیئے اصل خرابی یہیں سے جنم لیتی ہے۔جب آئینی ادارے ملکی معاملات کو سدھارنے اور حکمت عملی طے کرنے کے موجود ہیں تو گیٹ نمبر چار کھلا رکھنے کو جرم قرار دینے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیئے۔
صدقِ دل سے ماننا ہوگا:
اول: ”ایک بھائی اچھا اور دوسرا بھائی برا“، والی حکمت عملی اور”مائنس ون“والے احمقانہ سلوگن نے ملک کو یہ دن دکھائے ہیں۔
دوم: تسلیم کیا جائے کہ یہ منظر ملک کی پارلیمنٹ اور عوام کے منتخب نمائندوں کے لئے باعث شرم ہے کہ معزز اراکین پارلیمنٹ فلور پر کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ ”چیئرمین سینیٹ پر انہیں اعتماد نہیں ہے“ لیکن جب بکس سے ووٹ نکلیں تو وہ کئے گئے اعلان کے برعکس ہوں۔
سوم: انتخابی قوانین کو انتہائی سوچ بچار اور بحث مباحثہ کے بعد پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے تا کہ انتخابی دھاندلی کے تمام امکانات مکمل طور پر ہمیشہ کے لئے ختم ہوں جائیں۔
چہارم: انتخابات میں حصہ لینے کا طریقہ انتہائی سستا، انتہائی آسان اورانتہائی شفاف بنایا جائے کہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس میں حصہ لے سکے۔
پنجم: پارٹی ٹکٹ کے لئے امیدوار سے کسی بھی عنوان سے کوئی رقم طلب کرنا غیر قانونی اقدام قرار دیا جائے تاکہ سیاست کو چینی اور گندم چوروں، لٹیروں، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے چنگل سے چھڑایاجائے۔
ششم: پارلیمنٹ میں کم از کم 80فیصد حاضری کی شرط عائد کی جائے بیماری کے عذر کے سواپہلے اجلاس میں حلف نہ اٹھانے والے امیدوار کی رکنیت کی فوری منسوخی کااعلان اجلاس ختم ہونے سے پہلے کردیا جائے۔
ہفتم: حلقے کے ووٹرز کو اپنے امیدوار کی ناقص کاردگی کی بناء پر امیدوار کے حاصل کردہ ووٹو ں کے 51فیصد رائے دہندگان کے دستخطوں سے نااہل قرار دینے کا حق دیا جائے۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں