بلوچستان کو کورونا سے نہیں خونی شاہراہوں سے خطرہ ہے

ظریف بلوچ
رقبے کے لحاظ سے بلوچستان مملکت خداداد کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، قدرتی، معدنی اور ساحلی وسائل سے مالا مالا اس خطے کا سب سے امیر سرزمین بلوچستان پاکستان کے دوسرے صوبوں سے پسماندہ ہے۔یہاں سیندک اور ریکوڈک کے ذخائر موجود ہیں، 780 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی جو کہ ایک بین الاقوامی بحری گزرگاہ ہے۔ اس کے باوجود بلوچستان میں اچھے تعلیمی ادارے، ہائی ویز اور ہسپتال نہیں ملیں گے۔قیام پاکستان سے لیکر سے اب تک اس صوبے کے عوام کے ساتھ وفاق کا سوتیلی ماں جیسا سلوک جاری ہے۔
اس وقت پورے دنیا میں کورونا وائرس اور اس سے اموات کے چرچے ہورہے ہیں۔دنیا میں اب تک لاکھوں افراد کورونا نامی وائرس کے شکار ہوچکے ہیں اور اموات کی تعداد بھی دو لاکھ سے تجاوز کرچکا ہے۔جبکہ بلوچستان میں بھی کورونا متاثرین کی تعداد ہزار کے قریب اور ایک درجن سے زیادہ لوگ کورونا وائرس سے جان کی بازی ہارچکے ہیں۔ بلوچستاب جہاں سالانہ ہزاروں افراد کینسر،ملیریا، ڈلیوری کیسز، بروقت طبی امداد نہ ملنے اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے زندگی کے بازی ہار جاتے ہیں، جو کہ کورونا سے کئی گنا زیادہ ہے۔
بلوچستان میں ہر سال ہزاروں افراد روڑ حادثے میں جاں بحق ہوتے ہیں، ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں روڑ حادثات میں اموات کی شرح دہشت گردی کے واقعات میں اموات سے بھی کئی زیادہ ہے،حالانکہ شورش زدہ بلوچستان جو کہ کئی سالوں سے انسرجنسی کا شکار ہے۔
اس وقت بلوچستان کو کراچی سے ملانے کے لئے دو شاہراہیں موجود ہیں جنکو بلوچستان کے لوگ عام زبان میں خونی شاہراہ کہتے ہیں۔ نیشنل ہائی ویز اور موٹروے پولیس ویز حکام کے مطابق بلوچستان میں ٹریفک حادثات میں سالانہ اوسطاً 6 ہزار افراد موقع پر جبکہ 8 سے 10 ہزار لوگ دوران علاج جاں بحق ہوتے ہیں۔ حکام کے کا کہنا کہ کراچی چمن ہائی وے پر ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس 300 کلومیٹر جبکہ مکران کوسٹل ہائی وے 150 کلومیٹر ایریا تک تعینات ہے۔
مکران کوسٹل ہائی وے جو کہ سی پیک کے شہر گوادر سے شروع ہوکر کراچی تک جاتی ہے۔ اس شاہراہ سے پہلے گوادر سے کراچی کا راستہ کچا اور دشوار گزار ہوا کرتا تھا، اور سفر میں دو سے تین دن تک لگتے تھے، اور اب ہائی وے مکمل ہونے کے بعد یہی سفر کٹ کر محض چند گھنٹے رہ گئی ہے ۔یہ شاہراہ مشرف دور حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مکران کوسٹل ہائی وے کی لمبائی 653 کلومیٹر ہے، جو گوادر سے شروع ہوکر کراچی تک پہنچتی ہے، یہ شاہراہ گوادر سے شروع ہوکر پسنی،اورماڑہ،وندر ، گڈانی اور حب چوکی سے ہوتے ہوئے کراچی تک جاتی ہے،جبکہ ضلع کیچ کے لوگ کراچی جانے کے لئے” کارواٹ“ کے مقام پر مکران کوسٹل ہائی وے پر سفر کی شروعات کرتے ہیں۔مکران کوسٹل ہائی وے اب تک ہزاروں لوگوں کی جان لے چکا ہے۔ بعد میں جیوانی کو بھی اسی شاہراہ سے منسلک کیا گیا ہے۔ شروع میں جب مکران کوسٹل تعمیر ہوا تھا تو بزی ٹاپ سے ہنگول تک کافی روڑ حادثات ہوتے تھے۔اور اس علاقے میں درجنوں مسافر کوچ حادثے کا شکار ہوئے تھے،جس سے سینکڑوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا۔ بزی ٹاپ کا علاقہ کبھی سانپ کی طرح پیچ و تاب کھا رہا ہوتا ہے تو کہیں کسی حسینہ کے زلفوں کی طرح، اچانک اترائی اور چڑائی،جہاں ڈرائیوروں کی معمولی غفلت کسی بڑے سانحے کا سبب بن جاتا ہے۔مکران کوسٹل ہائی وے 2004 کو مشرف دور حکومت میں مکمل ہوا تھا۔اب بھی جیوانی سے کراچی تک مسافر موت کی کشمکش میں رہتے ہوئے سفر کرتے ہیں ،اور ہر مہینے مکران کوسٹل ہائی وے میں ٹریفک حادثات میں انسانی جانوں کا ضیاع جاری ہے، مکران کوسٹل ہائی وے چونکہ سنگل شاہراہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی ہےجہاں بریک فیل یا ڈرائیور کے معمولی غلطی سے گاڑی بڑے بڑے غاروں میں جاگرتی ہے، جس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتی ہے۔
جبکہ دوسرا شاہراہ کراچی ٹو چمن قومی شاہراہ آر سی ڈی ہائی وے ہے جو کہ پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان ایک معاہدے کے تحت بنایا گیا ہے جسکی لمبائی 813 کلومیٹر ہے۔کراچی ٹو چمن شاہراہ مکران کوسٹل ہائی وے سے زیادہ خونی شاہراہ ہے۔اور اس شاہراہ میں ٹریفک کا رش زیادہ ہونے کی وجہ سے حادثات بھی زیادہ ہوتے ہیں، یہ چونکہ ایک سنگل روڑ ہے اور کئی علاقوں میں یہ شاہراہ میں بازاروں سے گزرتا ہے، جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع اس شاہراہ میں معمول کی بات ہے، اس شاہراہ میں زیادہ تر حادثات بیلہ، اوتھل اور وندر کے علاقوں میں ہوتے ہیں۔کیونکہ یہ شاہراہ اوتھل اور وندر بازار سے ہوتے ہوئے کراچی کی طرف جاتی ہے۔مکران کوسٹل ہائی وے اور آر سی ڈی شاہراہ دونوں سنگل شاہراہ ہیں، اور بلوچستان کے لوگ کئی عرصے سے آر سی ڈی شاہراہ کو ڈبل کرنے کے مطالبہ کرتے آرہے ہیں، اور بلوچستان کے نوجوانوں کی گروپ نے لانگ مارچ بھی شروع کیا تھا،مگر کورونا کی وجہ سے لانگ مارچ کے شرکا نے خضدار پہنچنے کے بعد لانگ مارچ ختم کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں