خالد مگسی ہمارے پارلیمانی لیڈر، وفاق میں سب سے رابطے میں ہیں، جام کمال
کوئٹہ (انتخاب نیوز) بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر وسابق وزیراعلیٰ جام کمال نے کہاہے کہ بلوچستان میں حکومت بی اے پی کی لیکن کریڈیٹ اپوزیشن لے رہی ہے،موجودہ حکومت صوبے میں گورننس کی بہتری پر توجہ دیں ہمارا کسی سے ذاتی اختلافات نہیں لیکن بحیثیت پارٹی موجودہ حکومت جوابدہ ہیں،وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجوسے ایک وزیر کو ہٹانے پر وضاحت طلب کرینگے،وفاق میں عدم اعتماد کے فیصلے میں تاخیر نہیں کر رہے عدم اعتماد کا معاملہ حساس ہے تمام پہلو دیکھ کر فیصلہ کرینگے،وفاق کے ساتھ تحفظات اور خدشات ہیں،صوبے میں تحریک عدم اعتماد میں مرکز سے کریکس ڈویلپ ہوئی جس نے شک وشبہات پیدا کئے،اگر مرکز6ماہ پہلے چیزوں کو صحیح ایڈریس کرتی تو بلوچستان عوامی پارٹی ایک مضبوط اتحادی کے طورپر کھڑی ہوتی، خالد مگسی ہمارے پارلیمانی لیڈر،وفاق میں سب سے رابطے میں ہے البتہ عدم اعتماد کے حوالے سے ہمارا حزب اختلاف سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہوابلوچستان کے اثاثے بلوچستان پر خرچ ہونے چاہئیں ریکوڈک اہم اثاثہ ہے میری اور آپکی خواہش پر ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر میر ظہوراحمدبلیدی،ڈاکٹرنواز ناصر،ودیگر بھی موجود تھے۔جام کمال خان نے کہاکہ وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجوسے ایک وزیر کو ہٹانے پر وضاحت طلب کرینگے،جب بھی فیصلہ لیتے ہیں تو پارٹی کواعتماد میں لیاجاتاہے،اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے سکتے،ہم نے کسی کو کام کرنے سے منع نہیں کیا پہلے دن سے کہاتھاکہ ہم ہر سٹیپ پر سپورٹ کرینگے لیکن 5ماہ میں ہمیں وہ بہتری نظرنہیں آئی کیا ہم خاموش رہے،میرا ذاتی طورپر میرعبدالقدوس بزنجو اور کابینہ سے کوئی رنجش نہیں،میرعبدالقدوس بزنجو کے ساتھ لیبل بی اے پی کا ہے لوگ سوال باپ پارٹی سے کرینگے کسی فرد واحد سے نہیں،بی این پی سے متعلق سرداراخترمینگل سے لوگ پوچھیں گے ثناء بلوچ یا اختر حسین سے نہیں،انہوں نے کہاکہ جب ہم بلدیاتی انتخابات میں عوام کے پاس جائیں گے تو پھر لوگ ہم سے پوچھیں گے اس لئے ہم سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو دیکھتے ہوئے سخت نوٹس لیں گے جس سے باپ پارٹی کونقصان ہوگا اس پر غور کیاجائے گا،ہم ذاتی طورپر کسی کے خلاف نہیں البتہ اگر لوگ چیزیں بہتر کریں توہم ان کے ساتھ جائینگے،وفاق میں تحریک عدم اعتماد بالخصوص اتحادیوں پر لوگوں کی نظریں جمی ہوئی ہیں،باپ پارٹی کے اپوزیشن اور حکومت کے ساتھ متعدد اجلاس ہوئے ہیں،نوابزادہ خالد مگسی پارلیمانی لیڈر ہے ہم اپنا موقف سب کے سامنے رکھ رہے ہیں،آج پاکستان سیاسی حوالوں سے جن چیزوں کا شکار ہیں عام آدمی بھی اس چیزوں کاشکار ہیں،اس میں قصور کسی پارٹی یا حکومت کا ہے ملا جلا رحجان اس کا نقصان پاکستان کی عوام،معیشت اٹھا رہی ہے بلکہ خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں،عوام اور تمام اسٹیک ہولڈرز گہرائی سے ان پر نظررکھی ہوئی ہیں ذاتی اختلافات ومفادات سے بالاتر ہوکر اپنے آپ کو الجھانے کی بجائے واضح موقف رکھناچاہیے،بلوچستان عوامی پارٹی 4سال اقتدار میں گزاریں ہر پارٹی پر یہ حالات آتے ہیں لیکن باپ پارٹی اپنے آپ کو ری آرگنائز کررہی ہیں اپنے خامیوں کاخاتمہ کررہے ہیں جو کام ہم نے 4سال میں کئے اس کااعتراف اپوزیشن اور لوگ کررہے ہیں،امید ہے کہ آئنے والے مہینوں میں ان چیزوں کو آگے کی طرف بڑھائینگے،صوبائی حکومت چیزوں کو سنجیدہ لیں،کوئٹہ میں اپنی موجودگی یقینی بنائیں،لوگوں کے مسائل سنیں،ہیلتھ،صحت سمیت ترقی پر توجہ دی جائے،اگر گورننس پر توجہ دی جائے تو مسائل حل ہونگے۔صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے جام کمال نے کہاکہ جب میں وزیراعلیٰ تھا تو ہماری پارٹی کی طرف سے تحریک عدم اعتماد آیا تھا میں خوش اسلوبی سے قبول کیاتھا کیونکہ جمہوریت کا حصہ ہے اگر میری پارٹی مجھ سے خوش نہیں جس دن اتحادی وپارٹی اتفاق رائے نہیں تو حق نہیں کہ آخرتک سیٹ پر بیٹھا رہوں جب دیکھاکہ پارٹی میں اشتعال بڑھ رہاہے تو سٹیپ ڈان ہوگیا خوشی خوشی سے بعد میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں،میرعبدالقدوس بزنجو کی انٹرویو کیایہ خوش آئند بات ہے اگر اس طرح کی کوئی چیز آتی ہے توخوشی سے قبول کرناچاہیے،انہوں نے کہاکہ جس طرح گورننس کے معاملات چلایاجارہاہے یہ طریقہ نہیں اس کیلئے سنجیدگی کی ضرورت ہے،اسد بلوچ صاحب نے اسمبلی میں کہاکہ یہاں تو اپوزیشن ہے ہی نہیں ہم سب حکومت ہے ہمیں وفاق کی طرف دیکھناچاہیے لیکن آج بلوچستان میں وہ سیاسی ماحول ہوناچاہیے وہ نہیں ہے،اچھی اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ہیں،سب ایک دوسرے کے ساتھ چیزوں کوآگے چلارہے ہیں سیاسی حوالے سے اچھا نہیں اور نہ ہی صوبے کے حوالے سے مثبت دیکھاجاتاہے،وفاق کے ساتھ ہمارے تحفظات ہیں سنجیدہ نوعیت کے خدشات ہیں وزیراعظم کئی دفعہ پارلیمانی ارکان سے مل چکے ہیں،ہمیں اس بات کو پاکستان کی سیاست میں قبول کرلیناچاہیے ہم سیاسی لوگ ہیں ذاتیات یا تعلق داری پر سیاست نہیں کرتے،ہم سیاست اپنے حلقوں،صوبے اور ترقی کی سیاست کرتے ہیں یہاں کسی کو ذہین میں نہیں رکھناچاہیے کہ اگر کسی کے ساتھ اتحاد ہوجاتاہے تووہ تاحیات زندگی بھررہے گا اتحادبنتے اور ٹوٹتے ہیں اس کے کچھ اصول ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی ایک آزاد پارٹی ہے ہم چیزوں کودیکھتے ہوئے اپنا فیصلہ کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ سیاسی حالات کودیکھتے ہوئے مسلم لیگ(ق)،ایم کیوایم،جی ڈی اے اور باپ پارٹی اتحادی ہیں پارلیمنٹ اور سینیٹ میں بلوچستان عوامی پارٹی بہت بڑی اسٹیک ہولڈر ہے ہماری کمزوری یا مجبوری کہہ لیں ہم وفاق سے اپنی وہ سیاسی نمائندگی حاصل نہیں کرسکے جو کرناچاہیے تھاجی ڈی اے،ق لیگ،ایم کیو ایم لے سکی،عمران خان کے سامنے یہ بات رکھیں کہاجاتاہے کہ چیئرمین سینیٹ کی سیٹ ہے یہ بلوچستان کی سیٹ ہے یہ بلوچستان کی سیٹ نہ کہے وفاق میں کسی نہ کسی عہدے پر بلوچستان کونمائندگی دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بلوچستان محسوس کرتاہے،ہم امید اس پر زیادہ رکھ رہے ہیں چاہے وہ ایک ہفتے کا ہوں یا 4دن کا اپوزیشن ہوں یا موجودہ حکومت انہیں فیصلہ کرناچاہیے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو آئندہ حکومت یا آنے والی الیکشن میں کس طرح ساتھ لے جاناہے اگر ان کے فیصلے آج بہترہونگے تو آنے والا وقت بھی بہترہوگا،انہوں نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے بڑا شیک ہینڈ ہوگیاتھا جب صوبے کے اندر تحریک عدم اعتماد آئی تووفاق سے وہ کریکس ڈویلپ ہوئی،وفاقی حکومت کے ساتھ ہماری جو ترجیحات تھی اختلاف رائے سمجھ لیں یا فاصلہ ہونا 8ماہ چیزیں بڑی ڈویلپ ہوئی جس میں لوگوں نے اپنی اظہار رائے کیا،سرداریارمحمدرند نے اظہار کیا انہیں مجبور کیاگیاکہ وہ اپنے بیٹھے کو کھڑا نہ کرے اور پھر ایک حکومت جو ہٹ گئی ہم نے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ایسے کردار دیکھیں جنہیں ہمیں شک وشبہات زیادہ کردئیے کہ کیوں چیزوں میں مداخلت ہورہی ہے اورپھر ساتھ میں ایسے نان لوگوں کا ایکٹویشن اور رویہ دیکھا ہم شکایت بھی کی،اگر 6سات ماہ پہلے چیزیں صحیح معنوں میں ایڈریس کرتی تو بلوچستان عوامی پارٹی اپنے موقف کے ساتھ وفاق کے ساتھ مضبوط اتحادی کے طورپرنظرآتی،انہوں نے کہاکہ ریکوڈک بلوچستان وپاکستان کاایک بہت بڑا اثاثہ ہے اس کو جتنا سنجیدہ لیاجائے اتنا ہی مفید ہوگاہم اگر بلوچستان کے وسائل کو بلوچستان کیلئے صحیح استعمال نہیں کرینگے پھر کب کرینگے یہ پروفیشنل کام ہیں اس پر ہمیں سیاسی یا جنرل بیانات کے ساتھ ساتھ حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے پاس آگے کا طریقہ کار کیا ہیں؟ کوئی 25،کوئی 40تو کوئی 60فیصد کی بات کرتاہے ان میں کلیئریٹی نہیں ہے،بلوچستان کے لوگوں کو جتنااعتماد میں لیں گے اتناہی وہ اس منصوبے کیلئے اچھا ہیں۔میرعبدالقدوس بزنجو نے کہاکہ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کواعتماد میں لیکر فیصلہ کیالیکن ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے اس بات سے انکار کیاہے جو بھی معاہدہ ہواہے تفصیلات مجھے نہیں پتہ،لیکن ہم نے جو بھی فیصلہ کیاہے اس کا سب سے پہلے فائدہ بلوچستان کو ملناچاہیے،اگر ریکوڈک چاغی کے لوگوں کو فائدہ دے سکتاہے تو بلوچستان ترقی کرے گا،ہمیں ہیومن ریسورس پر کام کرناچاہیے اگر یہ تمام چیزیں کورڈ ہیں تو اچھی بات ہے اگر نہیں توپھر نظرثانی ہونی چاہیے،جام کمال خان نے کہاکہ سیاست میں بدلے نہیں ہوتے البتہ رنجشیں کچھ نہ کچھ ہوتی ہیں تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نے شروع کی ہے باپ پارٹی نے نہیں بلکہ ہم نے پی ٹی آئی کے اندر بھی دیکھا لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کا اس فلڈ لائٹس سے تعلق نہیں،ہم زیادہ امید رکھتے تھے نوابزادہ خالد مگسی بحیثیت پارلیمانی لیڈر تمام سیاسی جماعتوں سے مل رہے ہیں،انہوں نے کہاکہ اگر جمعیت علماء اسلام اور بی این پی مینگل محسوس کرتی ہے کہ گورننس کی چیزیں ٹھیک ہے تو موجودہ حکومت کی سپورٹ کرے اگر وہ اپنی رائے ہمارے ساتھ شامل کرتے ہیں کہ گورننس کامسئلہ سنگین ہے تو پھر دونوں جماعتیں میرظہوراحمدبلیدی سے رابطہ کرے سیاست میں ڈوبتی ہوئی کشتی کو نہیں دیکھناچاہتے ہم اپنا کرداراداکرینگے،اگر حکومت سنجیدہ ہے تو گورننس کے مسائل حل ہونگے ظہوربلیدی بیٹھے ہیں ان سے وزارت لے لی جاتی ہے ایسا ماحول ہے ہمیں صوبہ بلوچستان کے حقائق کیلئے پالیسی بنانی پڑتی ہے،ہمیں ڈر اس بات کا ہے کہ ہم ایسے فیصلے یا کام نہ کرجائے کہ واپس جانابڑا مشکل ہوں جو بلوچستان کیلئے بڑا نقصان جو ابھی سے محسوس ہورہاہے،جام کمال خان نے کہاکہ پارلیمانی میٹنگ ہوئی وہ اسلام آباد میں موجود ہیں ان کا وفاق سے ہم سے زیادہ روابط ہیں وہ ان چیزوں کو بہترانداز میں ایڈریس کرسکتے ہیں تمام معاملات پارلیمانی کمیٹی کریگی حتمی فیصلہ سے پہلے بلوچستان عوامی پارٹی بیٹھے گی اور پھر فیصلہ ہوگا جس پر سب کا مشترکہ فیصلہ ہوگا۔


