لاک ڈاؤن کا ذمہ دار کون؟


ملک کے وزیر اعظم بار بار اصرار کررہے ہیں کہ اشرافیہ(بیوروکریسی) نے بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن کردیا تب بھی عام آدمی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ اتنا بڑا کام وزیر اعظم کے ماتحت بیوروکریسی نے ان کی مرضی کے بغیر ہی کردیا۔اگر اعتراف درست تسلیم کر لیا جا ئے تو ایک طویل بحث چھڑ سکتی ہے۔ جمہوری حکومت پر اس کے اختیارات کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھ سکتے ہیں۔پہلا سوال یہ کیا جائے گا کہ بیوروکریسی وزیر اعظم کے ماتحت ہے یا اتنی خودمختار اور خودسر ہے کہ وزیراعظم کی مرضی کے برعکس اتنا بڑا فیصلہ نہ صرف کرنے کی مجاز ہے بلکہ اس پر عملدرآمد بھی کرا سکتی ہے۔یہ سوال اس لئے پوچھا جائے گا کہ لاک ڈاؤن صرف صوبہ سندھ میں نہیں ہوا بلکہ وفاق کے زیر انتظام علاقے (اسلام آباد) اورپنجاب، خیبر پختونخوامیں بھی ہوا جہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے اور بلوچستان میں بھی دیگر صوبوں جیسی پابندی عائدکی گئی جہاں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہے۔کوئی پاکستانی شہری اس سوال پر عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کر سکتا ہے۔وہ معزز عدالت سے درخواست کر سکتا ہے کہ وزیر اعظم کو آئین نے جواختیارات دے رکھے ہیں کیا وہ آج کل کسی غیر مرئی حکم کے تحت معطل ہیں؟آئین کے تحت بیوروکریٹس کی تقرری، تبادلہ وزیر اعظم کرتے ہیں ہر فیصلے پر عملدرآمد سے پہلے ایک سمری بھیج کر وزیراعظم پاکستان سے باقاعدہ اور باضابطہ منظوری لی جاتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کو یاد ہوگا کہ ان سے پہلے مسلم لیگ نون کی وفاق اور پنجاب میں حکومت تھی، مسلم لیگ نون کے وزیر اعظم کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ بیوروکریسی کے لئے قانون کا درجہ رکھتا تھا۔نیب کے چیئرمین کو مسکراتے ہوئے (وزیر اعظم محمد نواز شریف نے) کہا تھا:”نیب شریفوں کو تنگ نہ کرے“، اس کے بعد کوئی فائل الماری سے نہیں نکلی، چیئرمین نیب کی میز پر نہیں پہنچی!مسلم لیگ نون کے وزیر اعلیٰ پنجاب (شہباز شریف)ہائی کورٹ کے ایک جسٹس کو ٹیلی فون پر پر وزیر اعظم کا حوالہ دے کر پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بینظر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو زیر سماعت مقدمے میں سزا سنانے کی ہدایت دیتے تھے اور معزز جسٹس اس ٹیلیفونک پیغام کے مطابق فیصلہ سنایا کرتے تھے۔ایسا ہی ایک مشتبہ فیصلہ حالیہ دور میں ہوا تھا جسکی متنازعہ ویڈیو مسلم لیگ نون کی سزا یافتہ نائب صدر مریم نواز نے میڈیا کے روبرو پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا ان کے والدمحمد نواز شریف کو اس ویڈیو جیسی ٹھوس اور ناقابل تردید شہادت پبلک ہوجانے کے بعد جیل سے رہا کیا جائے کہ ایسے (ویڈیو زدہ)جج کا فیصلہ قانون کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
یہ سوال بھی پوچھا جائے گا کہ کل کی اتنی مطیع و فرماں بردار ”اشرافیہ“اچانک اتنی بے لگام کیوں ہو گئی؟اس نے اپنے ناخن اور پرکیسے اور کہاں سے حاصل کر لئے کہ وزیر اعظم اپنی بے بسی کی شکایت عوامی اجتماعات میں دہراتے پھرتے ہیں اور کوئی ان کی دادارسی نہیں کرتا۔وزیر اعظم کی کرسی کی وہ عظمت اور رعب و دبدبہ کہاں غائب ہوگیا۔بقول استاد قمر جلالویؔ:
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو؟
وزیر اعظم عمران خان کی وہ یقینی دہانی کہاں چلی گئی کہ انہوں نے ادارے مضبوط کر دیئے ہیں۔ کیا اداروں کی مضبوطی کے یہ معنی ہیں کہ وزیر اعظم گلی گلی شکایت کرتا پھرے کہ میری کوئی نہیں سنتا۔اگر وزیر اعظم عمران خان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ”اشرافیہ“ اتنی طاقت ور ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو بھی خاطر میں نہیں لاتی تو انہیں ایک سے زائد بار اپنے بیانیہ پر غور کرنا ہوگا کہ وہ یہ کہتے ہیں:”اشرافیہ“ نے بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن کر دیا“، تو عام آدمی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ عام آدمی کو کیا سمجھانا چاہتے ہیں؟انہوں نے ایک بار خودہی کہا تھا وزارتِ عظمیٰ کے لئے اللہ سے دعا کی تھی: ”ایک بار یہ عہدہ دلا دے!“ کیا اتنے بے اختیار عہدے کے لئے دعا کی جا سکتی ہے؟نہیں، ہرگز نہیں۔
عام آدمی جانتا ہے کہ کورونا نہ بھی ہوتا تب بھی اسے دکھوں بھری زندگی گزارنا تھی۔ اس ملک کے قدرتی وسائل پر انگریزوں کے کتے نہلانے والوں کا اس لئے قبضہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں حکومت سازی کے فیصلے لندن میں ہوتے ہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ لندن سے آخری فلائٹ میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے عجلت میں پاکستان پہنچنے والے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ انہیں دو معروف صحافیوں کے ذریعے آئندہ کابینہ طے کرنے کے بعد پاکستان آکر وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کی دعوت دی گئی ہے۔ان سے پہلے اس قسم کا دعویٰ جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے یہ دھمکی دی تھی اگر ان سے لئے گئے وعدے پر عمل نہ کیا گیا تو وہ ان افسران اور ضامنوں کے نام میڈیا کو بتا دیں گے افسران کا تو پتا نہیں چلا مگر ضامنوں نے میڈیا کے سامنے اپنے ضامن ہونے کا انکار کیا ہے۔لگتا ہے وہ پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے راضی ہیں۔
ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان اگر یہ شکایت کر رہے ہیں کہ سول بیوروکریسی ان کے کنٹرول میں نہیں، تو اس میں عام آدمی کے لئے حیرانگی کی کوئی بات نہیں۔ دھیرے دھیرے پی ٹی آئی کے چیئرمین جان لیں گے کہ پرانی تنخواہ پر کام کرنا ہی درست ہے۔”باس از آلویز رائٹ!“ساحر لدھیانوی نے ٹھیک کہا تھا: راستے دو ہیں،تم میں ہمت ہے تو بغاوت کردو،ورنہ ماں باپ جہا ں کہتے ہیں شادی کر لو!

اپنا تبصرہ بھیجیں