سخت احتیاطی تدابیر کی ضرورت

اداریہ

کورونا وائرس نے دنیا میں 2لاکھ 44ہزار 786افرد کی جان لے لی ہے جبکہ34لاکھ 84ہزار558افراد اس مرض کا شکار ہیں خود پاکستان میں مرض تیزی سے پھیل رہا ہے ایک دن میں 27افراد کے جاں بحق ہوجانے کی بعد اس وباء کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد440ہوگئی ہے اب تک اس وباء سے متاثر ہونے والوں کی تعداد19103سے تجاوز کرگئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مئی کے وسط میں صورتحال زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔بظاہر ہمارے تمام صوبوں میں لاک ڈاؤن جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر شروع میں ہی مکمل موثر لاک ڈاؤن کرلیا جاتا تو شائد کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار پر قابو پالیا جاسکتا تھا۔جزوی لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار رک گیا صنعتیں بند ہوگئیں لیکن عام لوگوں کے درمیان میل ملاپ جاری رہنے کے باعث اس لاک ڈاؤن کے فوائد جو ہوسکتے تھے نہیں ہوئے اب ظاہر ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور خوشحال ملک میں بھی لاک ڈاؤن کو برقرا ر رکھنا مشکل ہورہا ہے۔معیشت کا پہیہ رک گیا ہے اور لوگ سڑکوں پر مطالبہ کررہے ہیں کہ لاک ڈاؤن ختم کیا جائے پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں عوام پہلے ہی مہنگائی بیروزگاری او ر غربت کا شکارہیں وہاں لاک ڈاؤن کو غیر معینہ مدت تک نہیں چلایاجاسکتا۔ وزیراعظم عمران خان شروع سے کہتے آئے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن دیر تک نہیں کیاجاسکتا اب تاجروں اور کاروباری حلقوں کی طرف سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کیلئے دباؤ بڑھتا جارہاہے اس دوران رمضان المبارک کے دران مساجدکہ باجماعت نمازاورتراویح کیلئے کھول کرمزید خطرات کو طول لیاگیا ہے بہرحال بعض کارخانوں اور املاک کو پہلے ہی کام کرنے کی اجازت دی جاچکی ہے اور اندازہ ہے کہ دیگر کاروبار بھی جلد کھل جائے گا خود وزیراعظم متعددبار اعلان کرچکے ہیں کہ مئی کے وسط میں صورتحال مشکل ہونے کااندیشہ ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور قوم سب ہی ڈسپلن کا مظاہرہ کریں کرونا وائرس کا اب تک کسی جگہ کوئی علاج نہیں ہے اس سے بچنے کا واحد ذریعہ سخت حفاظتی تدابیر ہیں لہٰذا ضروری کاروبار کو کھولنے کیلئے بھی ایس او پیز بنانے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ایسے علاقے جو زیادہ متاثر ہوں ان کی نشاندہی کرکے انہیں مکمل لاک ڈاؤن کیاجاناچاہئے جبکہ بعض علاقوں میں سماجی فاصلے کے حصول کوسختی سے نافذ کرایاجانا ضروری ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں درمیان قریبی رابطے اور تعاون کی اشدضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں