کراچی اورراولپنڈی سے بلوچ طالبعلموں کو جبراً لاپتہ کرکے باقی تمام طُلبہ میں خوف و حراس پھیلانا ایک انتہائی تشویشناک عمل ہے،بی ایس ایف

کراچی :بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ مذمتی بیان میں راولپنڈی اور کراچی سے بلوچ طالب علموں کی گُمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلوچ طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے حکومت کی طرف سے ایک بنی بنائی سازش ہے جو کہ تمام بلوچ طلبہ کے دلوں میں خوف و حراس پھیلانے کے مترداف ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ ہم اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جو بلوچ طلبا کے حوالے سے نہ صرف ریاست کے تعصبانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے، بلکہ بلوچ طلبا کو اجتماعی سزا دے کر اُن کے لئے تعلیم کے راستے بند کرنے کے مترادف ہے۔ بلوچ طلباء کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں، آئے روز بلوچ طلباء کو یونیورسٹی کیمپسز کے اندر سے جبراً لاپتہ کیا جاتا ہے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ اور ہراسمنٹ بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور کرکے پسماندہ زندگی گزارنے پے مجبور کیا جارہا ہے جو کہ ریاست کی ایک بنی بنائی دوغلا پالیسی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بلوچ طلباء کو آئے روز پاکستان کے مختلف شہروں سے جبراً لاپتہ کیا جارہا ہے۔طلباء کی ماورائے عدالت گُمشدگی حکومت وقت کے لیے سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ریاستی فورسز نے راولپنڈی اور کراچی سے چار بلوچ طلبہ کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ لاپتہ ہونے والے بلوچ طلبہ میں سے تین کو کراچی ایک کو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا ہے۔

اُنہوں نے کہا ہیکہ کراچی کے علاقے لیاری سے گذشتہ شب وحید بلوچ نامی نوجوان کو فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔ کل رات سندھ رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار جو ایک سیاہ رنگ ویگو گاڑی میں سوار تھے انہیں حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔ جبکہ کراچی ہی سے اطلاعات ہیں کمبر سلیم سکنہ بلیدہ مہناز جو کراچی یونیورسٹی میں بی ایس ایگریکلچرل کا طالب ہے جنہیں فورسز نے کل کراچی سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔ ایک اور واقعہ کراچی میں پیش آیا ہے جہاں کراچی یونیورسٹی کے بائیو کیمسٹری کے طالب علم عرفان ولد عبدالرشید سکنہ بلیدہ مہناز کو گذشتہ شب کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے فورسز نے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ پنجاب کے شہر راولپنڈی سے اطلاعات ہیں کہ فیروز بلوچ جو ایریڈ یونیورسٹی میں بی ایڈ سیکنڈ سیمسٹر کے طالب علم تھے۔ فیروز بلوچ کو گزشتہ روز راولپنڈی سے لاپتہ کیا گیا۔

اُنہوں نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء پر تشدد کرکے کئی طلبہ کو ماورائے عدالت لاپتہ کرکے زندانوں میں ڈالنا پوری طرح غیرجمہوری، غیر سیاسی اور غیر انسانی عمل ہے۔ ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بلوچ طلباء کو جان بوجھ کر اُنہیں تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ملک بھر میں تیزی سے مختلف تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کو ہراساں کرنے اور مُختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بلوچ طُلبہ کی جبری گُمشدگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ طلباء کو اغوا کرنا بلوچ قوم و بلوچ طلباء کے ساتھ اجتمائی زیادتی ہے جو کہ ایک خوف و ہراس کے ماحول کو جنم دے چکا ہے۔ ہم مقتدرہ قوتوں سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ بلوچ طلبہ کا یوں ماورائے عدالت مختلف تعلیمی اداروں، ہاسٹلوں اور گھروں سے لاپتہ کرنا بند کریں اور تمام بلوچ طلبہ کو جلد از جلد باحفاظت بازیاب کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں