72گھنٹے کیوں اہم ہیں؟

ایک جانب ملکی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے،زرمبادلہ کے ذخائرکم ہو رہے ہیں،ڈالر کی قیمت بلند ہو رہی ہے جبکہ اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ کا 100انڈکس اسی تناسب سے گر تاجارہا ہے۔بجٹ سازی سے پہلے معاشی مسائل پر نہ صرف ماہرین سے مشاورت درکار ہے بلکہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا بھی سامناہے۔سب جانتے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کی شرط سرِ فہرست ہے۔ مگر مخلوط حکومت بوجوہ یہ غیر شرط پوری کرنے سے گریزاں ہے،اور نہ چاہتے ہوئے بھی پیٹرول اور ڈیزل کی پرانی قیمت برقرار رکھے ہوئے ہے،متعلقہ وزارت کی ارسال کردہ پندرہ روزہ سمری میں اضافے کی سفارش مسترد کر دی جاتی ہے۔ دوسری جانب ملک کی واحد اپوزیشن پارٹی(پی ٹی آئی)روزانہ کی بنیاد پر مختلف شہروں میں احتجاجی جلسے کرنے کے ساتھ وکلاء برادری سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی کے نمائندہ افراد سے بھی رابطہ بڑھانے میں مصروف ہے۔جیسے جیسے سابق وزیر اعظم عمران خان کی 20مئی کی ڈیڈ لائن قریب آنے لگی ہے ویسے ہی آئندہ 48سے 72 گھنٹوں میں اہم فیصلوں کی افواہ نما دعووں کی تقریباً تمام ٹی وی چینلز پرایک یلغار دیکھنے میں آرہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر چینل اس دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔اطلاع دینے والا بھرپور اعتماد کے ساتھ سامعین اور ناظرین سے کہتا ہے کہ ”میری بات لکھ لیں“۔عام آدمی اپنے جاننے والوں تک یہ اطلاع/افواہ بڑھاتے ہوئے سوال کرتا ہے کیا اس میں کوئی صداقت ہے؟ جواب میں کہا جاتاہے مناسب ہوگا چند گھنٹے انتظار کر لیا جائے۔لیکن ایسی غیر یقینی کیفیت ملکی معیشت کے لئے از حد نقصان دہ ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں،درجن بھر قائدین سے علیحدہ علیحدہ مشاورت میں وقت لگتا ہے،پی پی پی کے رہنما سابق صدرمملکت آصف علی زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم نوااز شریف سے بات کر لی ہے اور انہیں سمجھا دیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابات کا اعلان درست نہیں۔لیکن افوہ ساز اس کے برعکس دعویٰ کر رہے ہیں:”وزیر اعظم شہباز شریف 72گھنٹوں میں اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔بعض ممکنہ نگراں وزیر اعظم کا نام بھی بتا رہے پہیں،پہلے دونام لئے گئے، تھوڑی دیر بعد مزید دونام سامنے آگئے۔حکومت کی جانب سے ان افواہوں کی تردید نہیں کی گئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف سے منسوب ایک بیان بھی افواہ سازوں کی جانب سے پیش کیا جارہا ہے جس میں وہ اقتدار میں رہنے کو سرف ایک صورت میں تیار ہوں گے اگر انہیں 2023تک اقتدار میں رہنے کی ضمانت دی جائے، اور عمران خان کو قابو کیا جائے۔ ورنہ غیر مقبول فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔یہ بھی یاد رہے کہ غیر مقبول فیصلوں کے بعد جو عوامی غصہ جنم لے گا اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے ریلیف دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ریلیف کے لئے اقتدار کی مدت نہ ملے تو ایسے فیصلوں کو سیاسی موت کہا جاتا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالوں کے دوران ایک سے زائد مشکل فیصلے کئے مگر فروری سے جون2022 تک بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہ کرنے کا اعلان کرکے بڑا ریلیف بھی دیا۔حالانکہ روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد پیٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔سابق وزیر خزانہ میڈیا کے روبر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے آئی ایم ایف کی ٹیم کو اس فیصلے کے حوالے سے اعتماد میں لیا تھا اور اسے بتایا تھا کہ دی جانے والی سبسڈی کے لئے فنڈز کہاں سے لئے جائیں گے۔موجودہ حکومت نے مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کو تازہ بین الاقوامی صورت میں مشکل سے نکالنے کی معقول منصوبہ بندی کے بغیر ہی عدم اعتماد کا قدم اٹھا لیا۔اس کا اندازہ انہیں حکومت سنبھالنے کے بعد ہوا،لیکن اب آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ان کی راہ میں حائل ہو گئیں۔سب سے بڑی شرط پیٹرول اور ڈیزل کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ ہے۔اس شرط کو موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سابق حکم کی جانب سے بچھائی گئی ”بارودی سرنگ“ کہتے ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت کے پاس اب زبانی کلامی تسلی اور دلاسوں کا وقت نہیں بچا،سبسڈی ختم کرو یا دیوالیہ ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ۔معاشی ماہرین بیک زبان اس خطرے سے بلند آواز میں خبردار کر رہے ہیں۔زر مبادلہ(ڈالر) کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔آئی ایم ایف کی سرپرستی کے بغیر کوئی ملک یا مالیاتی ادارہ پاکستان کو قرض نہیں دیتا۔جو زر مبادلہ دکھائی دیتی ہے اس میں بھی چین اور سعودی عرب کے جمع کرائے گئے اربوں ڈالر ایسے ہیں جو پاکستان خرچ نہیں کرسکتا، مگر ان پر سود کی مد میں کروڑوں ڈالر دے رہا ہے۔اس سود کی مالیت پاکستانی کرنسی میں 20ارب80کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ماہرین معیشت کی رائے ہے کہ حکومت اگر فوری فیصلہ نہیں کرے گی اور اس نے ٹال مٹول جاری رکھی تو معیشت مزید بگاڑ اور مشکلات کا شکار ہوگی۔یعنی سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ ٹالنے کا آپشن حکومت کے پاس نہیں،فوری اعلان ایک مجبوری بن چکا ہے۔آئی نایم ایف کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ اعلان پاکستان کی نئی حکومت کے لئے کتنی سیاسی مشکلات کا سبب ہوگا۔اسے اپنے قرض کی واپسی کی فکر ہے۔مسلم لیگ نون کی حکومت اور اس کی اتحادی بھی اس حقیقت سے واقف ہیں۔انہیں حکومت میں رہنے کا طویل تجربہ ہے، ایک سے زائد بار آئی ایم ائیف سے مذاکرات اور معاہدے کرچکے ہیں۔یہ درست ہے کہ ماضی میں انہیں ایسی برہنہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ستر پوشی کی سہولت ہمیشہ میسر رہی۔مگر اس بار اقتدار میں آتے ہی بجٹ سازی کی اہم ذمہ داری ان کے کندھوں پر آگئی اور معیشت کو سنبھالنے کا وقت بھی
ان کے پاس نہیں۔آئی ایم ایف سبسدی ختم کئے بغیر قرض نہیں دے گا۔سبسڈی ختم کرتے ہی عوام حکومت کی ناک میں دم کر دیں گے۔پی ٹی آئی نے روزانہ کی بنیادوں پر جلسے کر کے انہیں گھروں سے باہر رہنے کی عادت پختہ کر دی ہے۔مشتعل عوام کا سامنا کرنا بظاہرموجودہ مخلوط حکومت کے بس سے باہر ہے۔پی ٹی آئی امریکہ مخالف بیانیہ بڑی مہارت سے کیش کرا چکی ہے۔سبسڈی ختم کرنے کا دفاع حکومت کے لئے ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ حکومت کو دو مشکل فیصلوں میں سے ایک کا فوری انتخاب کرنا ہوگا۔سبسڈی کا خاتمہ یا اسمبلیوں کی تحلیل؟اسی تناظر میں 48سے72گھنٹوں والی افواہیں گشت کر رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں