لاپتہ بلوچ خواتین پر خودکش جیکٹوں کی تیاری کا الزام مذاق ہے، آمنہ بلوچ

کراچی (انتخاب نیوز) سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں بلوچ خواتین سمیت بلوچ طلباو دیگرکی جبری گمشدگیوں کیخلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی وائی سی کے کراچی کی آرگنائزرآمنہ بلوچ، وی بی ایم پی کے سیکرٹری جنرل سمی دین بلوچ نے کہا کہ بلوچ عورتوں کو اٹھا لینے کا واقعہ آج کا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات رونما ہو چکے ہیں اوراب بلوچوں کی جبری گمشدگی کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ اس موقع پر وہاب بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے۔ ہم آپ کو کراچی کے حالات سے متعارف کروانا چاہ رہے ہیں کہ فقط کراچی نہیں تمام بلوچوں کے حالات سے چاہے وہ بلوچستان کی سرزمین ہو کہ کراچی میں بسنے والے بلوچ ہوں یا کہ کہیں اور بسنے والے بلوچ، ان تمام بلوچوں کی حالت چشم نم کردینے والی ہے۔ انہی تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی پریس کانفرنس ہے۔ ہمارے لئے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ہے یا جبراََ اٹھا لینے کا سلسلہ آج کا نہیں ہے بلکہ اس سلسلے کو دس سال سے اوپر کا عرصہ حاصل ہے۔ اسی طرح سے عورتوں کو اٹھا لینے کا واقعہ بھی کوئی آج کا واقعہ نہیں ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ نورجان اور حبیبہ کے اس واقعہ نے ان تمام تر چیزوں کو ایک بار پھر دوہرایا ہے۔ نورجان بلوچ کو 16 مئی 2022ء کو ہوشاپ بلوچستان سے فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔ نورجان بلوچ کو دہشت گرد ثابت کرکے یہ کہا گیا کہ وہ گھر کے اندر خودکش بمبار جیکٹ پہننے کی تیاری کررہی تھی اور اس کے پاس سے دیگر اسلحہ برآمد ہوئے۔ اس بات کو سننے کی بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رات کے سہ پہر کوئی خود کش جیکٹ پہنے کہاں جاکر بمباری کرسکتی ہے اس بات کا تو نہ سر ہے نہ پاؤں۔ انہوں نے کہا کہ حبیبہ کو 19 میں 2022ء کو کراچی گلشن مزدور، نیول سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ حبیبہ اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں۔ ان کا تعلق بلوچستان کے علاقے تمپ سے ہے اور پچھلے آٹھ سال سے کراچی نیول کے علاقے گلشن مزدور میں رہ رہی تھی۔ وہ اپنے بچوں کے گزر بسر ان کی پڑھائی کا خرچہ خود اٹھاتی تھی اور کپڑے سی کر اپنے اپنے بچوں کی تعلیم اور دیگر خرچے برداشت کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ رات کے پہر گھر کی چار دیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے سوتے ہوئے عورت کو اٹھا یاجاتا ہے۔ رات کے پہر یہ عورت کہاں جا کر جیکٹ پہن کر حملہ کر سکتی ہے، کن ثبوتوں کی بنیاد پر نورجان اور حبیبہ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ بغیر کسی جانچ پڑتال کے، بغیر کسی پوچھ تاچھ کے بغیر کسی تفتیش کے چاردیواری کے تقدس کی پامالی کرنا یہ سب غیر قانونی و غیر اخلاقی حرکات ہیں۔ ہمارے گھر کی عزتیں کہاں ہیں کسی کو نہیں پتہ، ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے کسی کو نہیں پتہ۔ کیا ہمیں نہیں پتہ کہ ہمارے لڑکوں کے ساتھ کس طرح سلوک کیا جاتا ہے، یونیورسٹی کے طلبہ کو اغواء نما گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کی فیملیز کو ذہنی اذیت شکار بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والوں کی تعداد روز بروز مزید تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور اسی بڑھتی ہوئی تعداد سے منسلک کراچی سے متعدد لڑکے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں جس میں بیشتر لڑکوں کا تعلق لیاری سے ہے۔ حال ہی میں ان لڑکوں میں وحید نامی ایک لڑکا جو کہ ابھی کالج کا طالب علم ہے اس کو اس کے گھر سے ساڑھے تین بجے کے قریب سادہ لباس پہنے لوگ جبری گمشدگی کا شکار بناتے ہیں۔ اسی طرح ایک بزرگ فٹبال کوچ عبدالرشید نامی ایک شخص جو کہ لیاری سنگولین کے رہائشی ہیں ان کو جبراً لاپتہ کیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے دو وقت کی روٹی کے لئے روتے ہیں اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ایسے لوگوں کو بھی جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ان واقعات سے پہلے بھی بہت سارے ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جیسے سلطان بلوچ، لالا ارشد، محبت اس کے علاوہ شعیب بلوچ نامی ایک نوجوان جو کہ بائیس دنوں سے لاپتہ ہیں اسی طرح سعید عمر نامی ایک نوجوان جو کہ روس سے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد آئے تھے اور ان کو بھی کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔ کن ثبوتوں کی بنیاد پر ان تمام عوامل کو کیا جا رہا ہے۔ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے ہمارے لاپتہ کیے جانے والے لوگوں کیخلاف تو ان کو اپنے بنائے ہوئے عدالتوں میں پیش کریں اس طرح سے اپنے بنائے ہوئے قانون اور اپنے بنائے ہوئے اذیت گاہوں کی نظر نہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں